مہدی نقوی حجاز
محفلین
”یہ میرے ناول "نابالغ معاشقے" سے تیسرا اقتباس ہے۔ پہلا اور دوسرا یہاں موجود ہے: پہلا معاشقہ ، دوسرا معاشقہ)
کراچی آنے کے بعد جس فلیٹ میں ہم رہے، وہ پہلی منزل پر واقع تین کمروں کا ایک دڑبہ تھا۔ اس گھر کے خیال سے اب بھی میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ اس میں سارا قصور فلیٹ کا نہیں ہے، گو کہ میری بھی کسی فلیٹ سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ اس سے پہلے ایران میں ہمیشہ ایسے گھروں میں رہا تھا جن میں صحن، حوض، باغچے اور برآمدے ہوتے تھے۔ لیکن بعد میں اس فلیٹ کی بالکنی سے بہت دل لگی ہو گئی، جس کا سبب میرا تیسرا معاشقہ تھا۔
جس جگہ ہماری بالکنی تھی، وہیں سامنے دو ہاتھ کے فاصلے پر برابر والی بلڈنگ میں پہلی منزل پر دائیں طرف والے مکان کی دو کھڑکیاں کھلتی تھیں۔ یوں ہوا کہ میں کوئی رات عشا کے وقت تارے دیکھنے بالکنی میں کھڑا ہوا تو سامنے چاند سے ملاقات ہو گئی۔ یہ میری عمر کا وہ دور تھا جس میں میرا شرمیلاپن دوبارہ جراحت کا روپ دھار چکا تھا اور کم از کم کسی صنفِ نازک سے نہ شماتا تھا اور نہ ہی گھبراتا تھا۔ لہٰذا جب وہ میری طرف متوجہ ہوئی تو میں پہلے سے ہی اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آنکھیں چار ہوئیں۔ میں ذرا نہ چوکا اور اسی طرح اس کی طرف دیکھتا رہا۔ لیکن کچھ لمحوں میں چاند ضرور شرما گیا اور اس نے سر پر چادر ڈال کر پردہ کھینچ لیا۔ اور اچھا ہی ہوا۔ کیوں کہ جس طرح میں اسے دیکھ رہا تھا، اگر وہ کچھ دیر اور وہاں رہتی تو اس کا چہرہ چھلنی ہو جاتا۔
اس حادثاتی ملاقات کے بعد تو جیسے میرے منہ کو خون ہی لگ گیا۔ میں نے تو خیر باقائدہ بالکنی میں کھڑا ہونا شروع کر دیا تھا لیکن اس نیک بخت کو ابھی میرے نیک ارادوں کا علم نہیں ہوا تھا۔ ہوتا یوں کہ اس کی دن میں دوچار بار مجھ پر نظر پڑ جاتی تو وہ بھی کچھ لمحوں کو ٹھہر کر مجھے دیکھتی اور پھر اپنے کام کو چلی جاتی۔ میں بھی کوئی اشارہ نہ کرتا کہ کہیں میں پہل کر دی تو کوئی اڑتا تیر میری چھاتی میں ہی نہ آ لگے۔ ہوتے ہوتے اسی طرح کچھ دن گزر گئے۔ پھر کوئی ہفتے بھر بعد جب اسے بالکنی میں میری باضابطہ موجودگی اور اس کی وجہِ موجہ کا اندازہ ہوا تو ایک دوپہر جب میں اسکول سے لوٹ کر سیدھا بالکنی میں آ کھڑا ہوا تھا، اور وہ اپنی آرائش و آلائش میں مصروف تھی، اس نے مجھے اشارے میں اپنا نام سمجھایا، اور مجھ سے میرے نام کے بارے میں سوال کیا۔ میں نے بھی پتھر کا جواب اینٹ سے نہ دیتے ہوئے اشاروں میں ہی اسے اپنے نام سے آگاہ کیا۔ اور یوں آغاز ہوا اس کہانی کا۔ یہاں کچھ تفصیلات کا بیان ضروری ہے کہ، ان دو میں سے ایک کھڑکی جو کہ ایک علیحدہ کمرے میں کھلتی تھی، سے ان کے گھر کا سنکھار میز نظر آتا تھا، اور سنگھارن بھی۔ اور دوسرے کمرے کی کھڑکی سے ایک تخت کا کچھ اوپری حصہ نظر آیا کرتا تھا۔ بالکنی کے برابر میں ہمارے گھر کی ہی ایک اور کھڑکی بھی تھی جس کا تعلق ہمارے گھر کے علیحدہ کمرے سے تھا۔ یعنی اس کے گھر کی دو کھڑکیاں، ایک ہماری بالکنی کے سامنے، اور دوسری کھڑکی جس سے ان کا سنگھار میز نظر آتا، ہمارے گھر کی کھڑکی کے سامنے۔ ہماری بیشتر خاموش گفتگو میری بالکنی اور اس کے سنگھار میز والے کمرے کے درمیان رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ رات کو اس کمرے میں اکیلی سوتی تھی۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ یہ کمرہ اس سے منسوب تھا، مگر دن کے مختلف اوقات میں وہاں گھر کے اور افراد کی چہل پہل بھی رہتی تھی۔ اس بات کا ذکر بھی یہاں بہت ضوری ہے کہ میرا یہ معاشقہ بالکل ایک گونگی فلم کی طرح رہا اور میری اس لڑکی سے دو برس میں دو بار ہی لسانی گفتگو ہوئی جن کا ذکر آگے آئے گا۔
جس طرح میرے ایک معاشقے کی بنیاد ”لطیفے“ پر تھی، اسی طرح اس معاشقے کا سب سے گہرا رنگ اور موضوعِ سخن کپڑے رہے۔ یعنی ہماری بیشتر گفتگو کپڑوں کے بارے میں ہوا کرتی تھی۔ وہ ہر شام مجھے الماری سے نکال کر دو جوڑے دکھاتی اور مجھ سے ان پر تبصرہ مانگتی اور یہ مشورہ بھی کہ آج وہ ان میں سے کونسا جوڑا پہنے۔ میں بھی اپنی اشاراتی زبان میں دیر تک اس پر تجزیہ کرتا اور پھر کسی بھی جوڑے کی طرف اشارہ کر کے اسے سمجھاتا کہ آج یہ پہن لو۔
ان دنوں معمول یہ تھا کہ جب میں اسکول سے گھر لوٹتا تو وہ پہلے سے ہی اس کھڑکی کے سامنے آرائش میں مصروف ہوتی۔ اس کی ایک آنکھ آئینے پر اور دوسری کھڑکی سے باہر جھانک رہی ہوتی تھی۔ میں جیسے ہی بالکنی میں نمودار ہوتا وہ دوڑ کر کھڑکی میں آجاتی اور اس کا پہلا اشاراتی سوال ہوتا کہ آج کیسی لگ رہی ہوں؟ اور میرا جواب ہمیشہ آسمان کی جانب اٹھا ہوا ایک انگوٹھا ہوتا تھا۔ یہ اشاراتی زبان اوائل میں ہم دونوں کے بہت دشوار تھی اور ہمیں ایک بات سمجھانے کے لیے اکثر کئی کئی اشارے کرنے پڑتے اور کبھی کبھی تو میں گھر میں موجود ایک وائٹ بورڈ کا استعمال کیا کرتا تھا، لیکن اس میں قباحت یہ تھی کہ لکھی ہوئی چیز دن میں دھوپ پڑنے، اور رات میں اندھیرے کی وجہ سے نظر نہیں آتی تھی۔ پھر جب کچھ مہینے گزر گئے تو ہم اس طریقے کے عادی ہو گئے اور ایک ہی اشارہ بار بار نہیں کرنا پڑتا، اور اگر کبھی کوئی ایسی بات ہو جائے جو بہت کوشش کے باوجود سمجھ نہ آ رہی ہو، تو اس پر چار حرف بھیج کر اگلی بات پر منتقل ہو جاتے۔
وہ صبح مجھ سے پہلے اسکول کے لیے روانہ ہو جاتی تھی، لہٰذا صبح ہماری عینی ملاقات نہیں ہوا کرتی تھی۔ البتہ میں روانہ ہونے سے پہلے یوں ہی بالکنی میں آ کر کچھ دیر ضرور کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔ اسی طرح وہ مجھ سے پہلے گھر لوٹ آتی اور میرا انتظار کرتی۔ ایک دن جب میں اسکول سے گھر لوٹا تو حسب معمول ہمارا گھر خالی تھا کہ ان دنوں میں اسکول سے لوٹنے کے بعد تقریباً تین سے چار گھنٹون تک گھر میں اکیلا ہوتا تھا۔ سو آتے ہی بالکنی میں جا پہنچا۔ وہ بھی حسب عادت دوڑ کر کھڑکی میں آ گئی۔ مگر اس دن اس نے مجھے آواز سے کہا۔
”آ گئے تم؟!“
پہلے تو مجھے یقین نہ ہوا لیکن پھر میں دوڑ کر دوسرے کمرے کی کھڑکی میں جا پہنچا جو بالکل اس کی کھڑکی کے سامنے واقع تھی۔ اور اس دن میری اس سے پہلی صوتی گفتگو ہوئی۔ جب میں نے اس معجزے کے بارے میں دریافت کیا کہ آج کیوں کر اتنی دلیری خرچ کی جا رہی ہے تو اس نے آگاہ کیا کہ گھر والے شاپنگ کے لیے گئے ہوئے ہیں، اور ساتھ ہی یہ احسان بھی جتایا کہ وہ صرف میرے لیے گھر میں اکیلی رکی ہے۔ اس دن ہمارے معاشقے کے بارے میں دونوں عمارتوں کے اوپر نیچے والے فلیٹوں کو علم ہو گیا۔ خوب کھل کر ہم نے گھنٹہ بھر بات کی۔ حتیٰ باآوازِ بلند اظہارِ محبت کیا۔ اور خوب محظوظ ہوئے۔ کئی کئی مرتبہ ایک دوسرے کو محبت جتائی اور موقعے کو غنیمت جانا۔ وہ رات میرے کانوں میں اس کی آواز گونجتی رہی، اور میں کروٹیں بدلتا رہا۔ میں انتظار کرتا رہا کہ کب صبح ہو، اور کب دوپہر۔ کب میں دوبارہ اسے دیکھوں، ان خیالات کے سانچے میں جن میں رات بھر میں اسے اتارتا رہا تھا۔ اسکول میں بھی طبیعت رنگین رہی۔ اور گھر لوٹ کر ٹائی سمیت بالکنی میں جا کھڑا ہوا۔ وہ آ گئی۔ آج وہ زیادہ خوبصورت معلوم ہو رہی تھی۔ اس پر پیار بھی زیادہ آ رہا تھا۔ ہم دونوں کی آنکھیں مسکرا رہی تھیں اور دونوں کے چہروں پر خوشگواری تھی۔
گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں اور مون سون چلا آیا۔ کراچی کی سڑکوں پر گھٹنوں گھٹنوں بارش کا پانی اور آسمان پر گھٹا رہنے لگی تو دل محبت کو مچلنے لگے۔ گھنٹوں اپنی کیفیت میں سڑک پر بھیگتا رہتا۔ گھر جاتا تو بالکنی میں کھڑا ہو جاتا۔ ہر گھنٹے آدھے گھنٹے بعد بادل برسنے لگتے، اور دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جانے لگتا۔ ایک ایسی ہی برساتی شام اس نے مجھے اشارہ کیا کہ نیچے ہماری بلڈنگ کے کمپاؤنڈ میں آجاؤ، میں بارش میں نہانے اتر رہی ہوں، کونے میں کھڑے رہنا میں موقع دیکھ کر تمہارے پاس آؤں گی۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ باؤلانہ سیڑھیاں اترا اور دوڑتا ہوا اس کی بلڈنگ کے کمپاؤنڈ میں پہنچ گیا۔ سناٹا تھا اور بارش تیز۔ وسیع کمپاؤنڈ میں خال خال بچے نظر آ رہے تھے اور میری نظریں اسے تلاش کر رہی تھیں۔ پھر وہ نظر آ گئی۔ فراک پہنا تھا۔ رنگ اب یاد نہیں رہا لیکن ہلکا تھا۔ کچھ لمحوں میں سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ سر جھک گیا، اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں الجھنے لگیں۔ میں نے ہاتھ پکڑ کر نام سے پکارا تو ہمک کر باہوں میں آ گئی۔ میں نے بھینچ لیا۔ بارش ہوتی رہی۔
اسی مہینے مکان خالی کرنا پڑ گیا۔ ایک ہفتہ پہلے سے ہی جی بیٹھنے لگا تھا۔ آخر تک اس کو بتانے کی ہمت نہیں پڑی کہ گھر چھوڑے جا رہے ہیں۔ اور ایک دن سچ مچ ہم نے وہ گھر چھوڑ دیا۔ وہ بالکنی، وہ کھڑکی اور وہ معاشقہ بھی۔
حجازؔ مہدی
تیسرا معاشقہ
کراچی آنے کے بعد جس فلیٹ میں ہم رہے، وہ پہلی منزل پر واقع تین کمروں کا ایک دڑبہ تھا۔ اس گھر کے خیال سے اب بھی میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ اس میں سارا قصور فلیٹ کا نہیں ہے، گو کہ میری بھی کسی فلیٹ سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ اس سے پہلے ایران میں ہمیشہ ایسے گھروں میں رہا تھا جن میں صحن، حوض، باغچے اور برآمدے ہوتے تھے۔ لیکن بعد میں اس فلیٹ کی بالکنی سے بہت دل لگی ہو گئی، جس کا سبب میرا تیسرا معاشقہ تھا۔
جس جگہ ہماری بالکنی تھی، وہیں سامنے دو ہاتھ کے فاصلے پر برابر والی بلڈنگ میں پہلی منزل پر دائیں طرف والے مکان کی دو کھڑکیاں کھلتی تھیں۔ یوں ہوا کہ میں کوئی رات عشا کے وقت تارے دیکھنے بالکنی میں کھڑا ہوا تو سامنے چاند سے ملاقات ہو گئی۔ یہ میری عمر کا وہ دور تھا جس میں میرا شرمیلاپن دوبارہ جراحت کا روپ دھار چکا تھا اور کم از کم کسی صنفِ نازک سے نہ شماتا تھا اور نہ ہی گھبراتا تھا۔ لہٰذا جب وہ میری طرف متوجہ ہوئی تو میں پہلے سے ہی اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آنکھیں چار ہوئیں۔ میں ذرا نہ چوکا اور اسی طرح اس کی طرف دیکھتا رہا۔ لیکن کچھ لمحوں میں چاند ضرور شرما گیا اور اس نے سر پر چادر ڈال کر پردہ کھینچ لیا۔ اور اچھا ہی ہوا۔ کیوں کہ جس طرح میں اسے دیکھ رہا تھا، اگر وہ کچھ دیر اور وہاں رہتی تو اس کا چہرہ چھلنی ہو جاتا۔
اس حادثاتی ملاقات کے بعد تو جیسے میرے منہ کو خون ہی لگ گیا۔ میں نے تو خیر باقائدہ بالکنی میں کھڑا ہونا شروع کر دیا تھا لیکن اس نیک بخت کو ابھی میرے نیک ارادوں کا علم نہیں ہوا تھا۔ ہوتا یوں کہ اس کی دن میں دوچار بار مجھ پر نظر پڑ جاتی تو وہ بھی کچھ لمحوں کو ٹھہر کر مجھے دیکھتی اور پھر اپنے کام کو چلی جاتی۔ میں بھی کوئی اشارہ نہ کرتا کہ کہیں میں پہل کر دی تو کوئی اڑتا تیر میری چھاتی میں ہی نہ آ لگے۔ ہوتے ہوتے اسی طرح کچھ دن گزر گئے۔ پھر کوئی ہفتے بھر بعد جب اسے بالکنی میں میری باضابطہ موجودگی اور اس کی وجہِ موجہ کا اندازہ ہوا تو ایک دوپہر جب میں اسکول سے لوٹ کر سیدھا بالکنی میں آ کھڑا ہوا تھا، اور وہ اپنی آرائش و آلائش میں مصروف تھی، اس نے مجھے اشارے میں اپنا نام سمجھایا، اور مجھ سے میرے نام کے بارے میں سوال کیا۔ میں نے بھی پتھر کا جواب اینٹ سے نہ دیتے ہوئے اشاروں میں ہی اسے اپنے نام سے آگاہ کیا۔ اور یوں آغاز ہوا اس کہانی کا۔ یہاں کچھ تفصیلات کا بیان ضروری ہے کہ، ان دو میں سے ایک کھڑکی جو کہ ایک علیحدہ کمرے میں کھلتی تھی، سے ان کے گھر کا سنکھار میز نظر آتا تھا، اور سنگھارن بھی۔ اور دوسرے کمرے کی کھڑکی سے ایک تخت کا کچھ اوپری حصہ نظر آیا کرتا تھا۔ بالکنی کے برابر میں ہمارے گھر کی ہی ایک اور کھڑکی بھی تھی جس کا تعلق ہمارے گھر کے علیحدہ کمرے سے تھا۔ یعنی اس کے گھر کی دو کھڑکیاں، ایک ہماری بالکنی کے سامنے، اور دوسری کھڑکی جس سے ان کا سنگھار میز نظر آتا، ہمارے گھر کی کھڑکی کے سامنے۔ ہماری بیشتر خاموش گفتگو میری بالکنی اور اس کے سنگھار میز والے کمرے کے درمیان رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ رات کو اس کمرے میں اکیلی سوتی تھی۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ یہ کمرہ اس سے منسوب تھا، مگر دن کے مختلف اوقات میں وہاں گھر کے اور افراد کی چہل پہل بھی رہتی تھی۔ اس بات کا ذکر بھی یہاں بہت ضوری ہے کہ میرا یہ معاشقہ بالکل ایک گونگی فلم کی طرح رہا اور میری اس لڑکی سے دو برس میں دو بار ہی لسانی گفتگو ہوئی جن کا ذکر آگے آئے گا۔
جس طرح میرے ایک معاشقے کی بنیاد ”لطیفے“ پر تھی، اسی طرح اس معاشقے کا سب سے گہرا رنگ اور موضوعِ سخن کپڑے رہے۔ یعنی ہماری بیشتر گفتگو کپڑوں کے بارے میں ہوا کرتی تھی۔ وہ ہر شام مجھے الماری سے نکال کر دو جوڑے دکھاتی اور مجھ سے ان پر تبصرہ مانگتی اور یہ مشورہ بھی کہ آج وہ ان میں سے کونسا جوڑا پہنے۔ میں بھی اپنی اشاراتی زبان میں دیر تک اس پر تجزیہ کرتا اور پھر کسی بھی جوڑے کی طرف اشارہ کر کے اسے سمجھاتا کہ آج یہ پہن لو۔
ان دنوں معمول یہ تھا کہ جب میں اسکول سے گھر لوٹتا تو وہ پہلے سے ہی اس کھڑکی کے سامنے آرائش میں مصروف ہوتی۔ اس کی ایک آنکھ آئینے پر اور دوسری کھڑکی سے باہر جھانک رہی ہوتی تھی۔ میں جیسے ہی بالکنی میں نمودار ہوتا وہ دوڑ کر کھڑکی میں آجاتی اور اس کا پہلا اشاراتی سوال ہوتا کہ آج کیسی لگ رہی ہوں؟ اور میرا جواب ہمیشہ آسمان کی جانب اٹھا ہوا ایک انگوٹھا ہوتا تھا۔ یہ اشاراتی زبان اوائل میں ہم دونوں کے بہت دشوار تھی اور ہمیں ایک بات سمجھانے کے لیے اکثر کئی کئی اشارے کرنے پڑتے اور کبھی کبھی تو میں گھر میں موجود ایک وائٹ بورڈ کا استعمال کیا کرتا تھا، لیکن اس میں قباحت یہ تھی کہ لکھی ہوئی چیز دن میں دھوپ پڑنے، اور رات میں اندھیرے کی وجہ سے نظر نہیں آتی تھی۔ پھر جب کچھ مہینے گزر گئے تو ہم اس طریقے کے عادی ہو گئے اور ایک ہی اشارہ بار بار نہیں کرنا پڑتا، اور اگر کبھی کوئی ایسی بات ہو جائے جو بہت کوشش کے باوجود سمجھ نہ آ رہی ہو، تو اس پر چار حرف بھیج کر اگلی بات پر منتقل ہو جاتے۔
وہ صبح مجھ سے پہلے اسکول کے لیے روانہ ہو جاتی تھی، لہٰذا صبح ہماری عینی ملاقات نہیں ہوا کرتی تھی۔ البتہ میں روانہ ہونے سے پہلے یوں ہی بالکنی میں آ کر کچھ دیر ضرور کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔ اسی طرح وہ مجھ سے پہلے گھر لوٹ آتی اور میرا انتظار کرتی۔ ایک دن جب میں اسکول سے گھر لوٹا تو حسب معمول ہمارا گھر خالی تھا کہ ان دنوں میں اسکول سے لوٹنے کے بعد تقریباً تین سے چار گھنٹون تک گھر میں اکیلا ہوتا تھا۔ سو آتے ہی بالکنی میں جا پہنچا۔ وہ بھی حسب عادت دوڑ کر کھڑکی میں آ گئی۔ مگر اس دن اس نے مجھے آواز سے کہا۔
”آ گئے تم؟!“
پہلے تو مجھے یقین نہ ہوا لیکن پھر میں دوڑ کر دوسرے کمرے کی کھڑکی میں جا پہنچا جو بالکل اس کی کھڑکی کے سامنے واقع تھی۔ اور اس دن میری اس سے پہلی صوتی گفتگو ہوئی۔ جب میں نے اس معجزے کے بارے میں دریافت کیا کہ آج کیوں کر اتنی دلیری خرچ کی جا رہی ہے تو اس نے آگاہ کیا کہ گھر والے شاپنگ کے لیے گئے ہوئے ہیں، اور ساتھ ہی یہ احسان بھی جتایا کہ وہ صرف میرے لیے گھر میں اکیلی رکی ہے۔ اس دن ہمارے معاشقے کے بارے میں دونوں عمارتوں کے اوپر نیچے والے فلیٹوں کو علم ہو گیا۔ خوب کھل کر ہم نے گھنٹہ بھر بات کی۔ حتیٰ باآوازِ بلند اظہارِ محبت کیا۔ اور خوب محظوظ ہوئے۔ کئی کئی مرتبہ ایک دوسرے کو محبت جتائی اور موقعے کو غنیمت جانا۔ وہ رات میرے کانوں میں اس کی آواز گونجتی رہی، اور میں کروٹیں بدلتا رہا۔ میں انتظار کرتا رہا کہ کب صبح ہو، اور کب دوپہر۔ کب میں دوبارہ اسے دیکھوں، ان خیالات کے سانچے میں جن میں رات بھر میں اسے اتارتا رہا تھا۔ اسکول میں بھی طبیعت رنگین رہی۔ اور گھر لوٹ کر ٹائی سمیت بالکنی میں جا کھڑا ہوا۔ وہ آ گئی۔ آج وہ زیادہ خوبصورت معلوم ہو رہی تھی۔ اس پر پیار بھی زیادہ آ رہا تھا۔ ہم دونوں کی آنکھیں مسکرا رہی تھیں اور دونوں کے چہروں پر خوشگواری تھی۔
گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں اور مون سون چلا آیا۔ کراچی کی سڑکوں پر گھٹنوں گھٹنوں بارش کا پانی اور آسمان پر گھٹا رہنے لگی تو دل محبت کو مچلنے لگے۔ گھنٹوں اپنی کیفیت میں سڑک پر بھیگتا رہتا۔ گھر جاتا تو بالکنی میں کھڑا ہو جاتا۔ ہر گھنٹے آدھے گھنٹے بعد بادل برسنے لگتے، اور دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جانے لگتا۔ ایک ایسی ہی برساتی شام اس نے مجھے اشارہ کیا کہ نیچے ہماری بلڈنگ کے کمپاؤنڈ میں آجاؤ، میں بارش میں نہانے اتر رہی ہوں، کونے میں کھڑے رہنا میں موقع دیکھ کر تمہارے پاس آؤں گی۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ باؤلانہ سیڑھیاں اترا اور دوڑتا ہوا اس کی بلڈنگ کے کمپاؤنڈ میں پہنچ گیا۔ سناٹا تھا اور بارش تیز۔ وسیع کمپاؤنڈ میں خال خال بچے نظر آ رہے تھے اور میری نظریں اسے تلاش کر رہی تھیں۔ پھر وہ نظر آ گئی۔ فراک پہنا تھا۔ رنگ اب یاد نہیں رہا لیکن ہلکا تھا۔ کچھ لمحوں میں سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ سر جھک گیا، اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں الجھنے لگیں۔ میں نے ہاتھ پکڑ کر نام سے پکارا تو ہمک کر باہوں میں آ گئی۔ میں نے بھینچ لیا۔ بارش ہوتی رہی۔
اسی مہینے مکان خالی کرنا پڑ گیا۔ ایک ہفتہ پہلے سے ہی جی بیٹھنے لگا تھا۔ آخر تک اس کو بتانے کی ہمت نہیں پڑی کہ گھر چھوڑے جا رہے ہیں۔ اور ایک دن سچ مچ ہم نے وہ گھر چھوڑ دیا۔ وہ بالکنی، وہ کھڑکی اور وہ معاشقہ بھی۔
حجازؔ مہدی