تیس (30) سیر گھی

شمشاد

لائبریرین
مولانا عبد الحلیم شرر لکھنؤی کی کتاب "گذشتہ لکھنؤ" سے انتخاب

"غازی الدین حیدر پہلے شاہِ اودھ کو پراٹھے پسند تھے۔ اُن کا رکاب دار ہر روز چھ پراٹھے پکاتا۔ اور فی پراٹھا پانچ سیر کے حساب سے 30 سیر گھی روز لیا کرتا۔ ایک دن وزیر سلطنت معتمد الدولہ آغا میر نے شاہی رکاب دار کو بلا کے پوچھا: ارے بھئی، یہ تیس سیر گھی کیا ہوتا ہے؟ کہا : حضور! پراٹھے پکاتا ہوں۔ کہا : بھلا میرے سامنے تو پکاؤ۔ اس نے کہا : بہت خوب۔ پراٹھے پکائے۔ جتنا گھی کھپا کھپایا، اور جو باقی بچا، پھینک دیا۔معتمد الدولہ آغا میر نے یہ دیکھ کے حیرت اور استعجاب سے کہا : "پورا گھی تو خرچ نہیں ہوا؟ اس نے کہا : اب یہ گھی تو بالکل تیل ہو گیا، اس قابل تھوڑے ہی ہے کہ کسی اور کھانے میں لگایا جائے۔

وزیر سے جواب تو نہ بن پڑا مگر حکم دے دیا کہ آیندہ سے صرف پانچ سیر گھی دیا جایا کرے۔ فی پراٹھا ایک سیر بہت ہے۔ رکاب دار نے کہا : بہتر، میں اتنے ہی گھی میں پکا دیا کروں گا۔ مگر وزیر کی روک ٹوک سے اس قدر ناراض ہوا کہ معمولی قسم کے پراٹھے پکا کے بادشاہ کے خاصے پر بھیج دیے۔ جب کئی دن یہی حالت رہی تو بادشاہ نے شکایت کی کہ یہ پراٹھے اب کیسے آتے ہیں؟ رکاب دار نے عرض کیا : حضور! جیسے پراٹھے نواب معتمد الدولہ بہادر کا حکم ہے، پکاتا ہوں۔ بادشاہ نے اس کی حقیقت پوچھی تو اس نے سارا حال بیان کر دیا۔ فوراً معتمد الدولہ کی یاد ہوئی۔ انہوں نے عرض کیا : جہاں پناہ! یہ لوگ خوامخواہ لوٹتے ہیں۔ بادشاہ نے اس کے جواب میں دس پانچ تھپڑ اور گھونسے رسید کیے، خوب ٹھونکا، اور کہا : تم نہیں لوٹتے ہو؟ تم جو ساری سلطنت اور سارے ملک کو لوٹے لیتے ہو، اس کا خیال نہیں۔ یہ جو تھوڑا سا گھی زیادہ لے لیتا ہے اور وہ بھی میرے خاصے کےلیے، یہ تمہیں نہیں گوارا ہے؟ بہرحال معتمد الدولہ نے توبہ کی، کان اُمیٹھے، تو خلعت ہوا، جو اس بات کی نشانی تصور کی جاتی کہ آج جہاں پناہ نے دستِ شفقت پھیرا ہے، اور اپنے گھر آئے، پھر انہوں نے کبھی اس رکاب دار سے تعرض نہ کیا اور وہ اسی طرح 30 سیر گھی روز لیتا رہا۔"
 
Top