ایم اسلم اوڈ
محفلین
شرق اوسط اور شمالی افریقہ مسلم اکثریت کا وسیع خطہ ہے جو معدنی تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس پورے خطے نے صحابہ کرامؓ کے عہد سعادت میں اجتماعی طور پر اسلام قبول کر لیا تھا، نہ صرف اسلام قبول کر لیا بلکہ انہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی زبان عربی بھی اپنا لی اور ان کی اپنی زبانیں سریانی، آرامی، قبطی، نوبی اور بربری (سوائے فارسی کے) نسیاًمنسیاً ہو گئیں۔ خلیج فارس سے ساحل اوقیاس تک پھیلے ہوئے اس وسیع و عریض علاقے میں جو ممالک تیل پیدا کرتے ہیں، ان کو انگریزی میں MENA کا نام دیا جاتا ہے جو ’’مڈل ایسٹ اینڈ نارتھ افریقہ‘‘ کا مخفف ہے۔ اس میں درج ذیل ممالک شامل ہیں: الجزائر، لیبیا، مصر، سعودی عرب، عراق، ایران، کویت، شام، سوڈان، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات، عمان (Oman) اور یمن، ان دنوں یہ ممالک سیاسی ہلچل اور انقلابات کی زد میں ہیں اوریہاں آمریتوں کے بت یکے بعد دیگرے زمین بوس ہو رہے ہیں، آنے والے سالوں میں اس خطے میں اٹھنے والی لہریں دنیا کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کریں گی۔
’’مینا‘‘ میں شامل اکثر ممالک دنیا کے ان بیس بڑے ممالک میں شمارہوتے ہیں جو تیل برآمد کرتے ہیں۔ ان میں سے صرف مصر اور بحرین ہی دو ملک ایسے ہیں جو تیل کے برآمد کنندگان نہیں، پھر بھی مصرتیل کی تجارت میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ بڑی مقدار میں یورپ کو جانے والا تیل نہر سویز سے گزرتا ہے اور اس نہر کے ساتھ ساتھ جانے والی تیل کی پائپ لائن بھی مصر کے کنٹرول میں ہے۔ علاوہ ازیں مصر اسرائیل کوقدرتی گیس بھی فراہم کرتاہے، جس کے ساتھ اس نے بیس بائیس برس سے سفارتی تعلقات استوار کر رکھے ہیں جبکہ ان سفارتی تعلقات نے 1981ء میں مصری صدر انور سادات کی جان لے لی تھی۔ پریڈ میں خالد اسلامبولی نامی مصری فوجی نے غدار انور السادات اور وزیر دفاع ابو غزالہ کو گولیوں سے اڑا دیاتھا۔ عجیب بات ہے کہ قاتل کی نسبت اگر ترکی کے سابق دارالحکومت اسلامبول (استنبول) سے تھی تو صدر مقتول کا نام بھی اس کی پیدائش کے وقت عظیم ترک مجاہد اور وزیر جنگ انور پاشا کے نام پر انور رکھا گیا تھا۔ انور پاشا نے جہاد طرابلس (1911ئ) اور فتح ادرنہ (1913ئ) میں بڑانام پیدا کیا تھا۔ آخر کار غازی انور پاشا ترکستان کو سرخ روسی سامراج سے آزاد کرانے کی جدوجہد کرتے ہوئے 1922ء میں کوہستان پامیر میں شہید ہو گئے تھے۔
’’مینا‘‘ میں تیل کے دس بڑے برآمد کنندگان کی برآمدی حجم کے لحاظ سے ترتیب یوں بنتی ہے: سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، کویت، عراق، الجزائر، لیبیا، قطر، عُمان (یاد رہے عمّان، اردن کا دارالحکومت ہے) اور یمن۔ ان میں سے صرف ایران میں باقاعدہ جمہوری انتخابات ہوتے ہیں اور باقی ممالک میں جو سب عرب ہیں، مطلق العنان حکومتیں قائم ہیں۔ اس خطے سے تیل درآمد کرنے والے بیس بڑے ممالک یہ ہیں: امریکہ (USA)، چین، جاپان، جرمنی، جنوبی کوریا، فرانس، برطانیہ، بھارت، اٹلی، سپین، نیدر لینڈ (ہالینڈ)، تائیوان، سنگاپور، بلجیم، تھائی لینڈ، جنوبی افریقہ، پولینڈ، یونان، پاکستان اور آسٹریلیا۔ ان میں سے چین اور تھائی لینڈ کے سوا دیگر ممالک دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں شمارہوتے ہیں۔
’’مینا‘‘ کے علاوہ معدنی تیل کے دس بڑے برآمد کنندگان یہ ہیں: روس، نائیجریا، وینزویلا، ناروے، میکسیکو، انگولا (افریقہ)، قازقستان، کینیڈا، انڈونیشیا اور ویت نام۔ ان میں سے وینزویلا، انگولا، قازقستان اور ویتنام مغربی جمہوری معیار پر پورے نہیں اترتے لیکن مغرب کا ’’جمہوری معیار‘‘ جامد نہیں، یہ مغربی مفادات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ گوران پرس 1996ء سے 2006ء تک سویڈن کے وزیراعظم رہے۔ انہوں نے آزاد ممالک کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا تھا: ’’جو مقروض ہیں وہ آزاد نہیں‘‘۔ یہ تعریف پاکستان اور اس جیسے بیسیوں دیگر ممالک پرصادق آتی ہے جو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضوں میں بال بال جکڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’’جو تیل رکھتے ہیں وہ آزاد نہیں‘‘ اور ’’مینا‘‘ ممالک بڑی حد تک اس تعریف کے دائرے میں آتے ہیں جہاں زیادہ تر عرب شیوخ اور امریکی و برطانوی مہرے حکمران ہیں۔ یہاں سے نکلنے والے پٹرول کی دولت کاغذوں میں تو عرب حکمرانوں کی ملکیت ہے، لیکن اس کا فائدہ امریکی، برطانوی اور یورپی بینکار اور ان ممالک کے عوام اٹھا رہے ہیں جبکہ عربوں کو بڑی لگژری کاروں، مشروبات، ڈیجیٹل کھلونوں، پرفیومز اور دیگر تعیشات کے حصول میں الجھا دیا گیا ہے۔ عربوں کی کثیر دولت مغرب کے طیارہ ساز اداروں، اسلحہ ساز کمپنیوں اور دیگر ملٹی نیشنل اداروں کے قیام وترقی میں، خرچ ہو رہی ہے، جبکہ عالم عرب کے وسط میں فروغ پذیر اسرائیلی ناسور امریکی و برطانوی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اسرائیل نواز طاقتیں خطے میں کسی بھی ایسے ملک کے قیام اور بقاء کے خلاف ہیں جو ان کے احکام کی سرتابی کرتے ہوئے غاصب اسرائیل کے لئے خطرے کا باعث بن سکے۔ عراق کی تباہی اس کی بین مثال ہے جس کے ایٹمی طاقت بن جانے کاخطرہ اسرائیل اور مغرب کے لئے سوہانِ روح بن گیا تھا۔
مغرب کا دوہرا معیار ’’مینا‘‘ میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات سے عیاں ہے۔ تیونس میں تحریک اٹھی تو مغرب نے شد و مد سے اس کی حمایت کی۔ تیونس تیل برآمد نہیں کرتا، اس لئے آمر زین العابدین بن علی مغرب کی مزید پشت پناہی سے محروم رہا لیکن جب مصر کی باری آئی تو مغربی ممالک کے لئے عوامی تحریک کی حمایت مشکل ہو گئی۔ سب سے زیادہ مشکل امریکہ کو پیش آئی جو تیس برس سے ظالم آمر حسنی مبارک کا پشتیبان بنا ہواتھا۔ صدر بارک اوباما نے تو عالم اسلام سے امریکہ کے تعلقات کے موضوع پر خطاب کرنے کیلئے قاہرہ کا انتخاب کیا تھا۔ چنانچہ جب قاہرہ اور اسکندریہ میں دس بیس لاکھ شہری سڑکوں پر آ کر حسنی مبارک سے استعفا کا مطالبہ کر رہے تھے تو واشنگٹن کو چپ لگی ہوئی تھی۔ یورپی یونین اور سویڈن بھی مہر بلب تھے۔ سویز سے گزرنے والے تیل نے ان کی زبانیں بند کر رکھی تھیں۔ اب لیبیا میں ابو مینار معمر القذافی کا اقتدار دائو پر لگا ہوا ہے۔ لیبیا کے خونیں بحران کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل سے اوپر چلی گئی ہیں۔ تیل کی عالمی تجارت میں بڑا کردار سعودی عرب کا ہے جو امریکہ سے معاہدات میں بندھا ہوا ہے۔ اگر سعودی عرب تیل کی پیداوار بند کر دے تو عالمی منڈی میں دستیاب تیل کا 20 فیصد غائب ہو جائے گا۔ اس سے پہلے شاہ فیصل رحمہ اللہ نے چوتھی عرب اسرائیل جنگ (1973ئ) کے بعد پیداوار کم کر کے تیل کا ہتھیار استعمال کیا تھا مگر اس وقت امریکی ایجنٹ شاہ ایران محمد رضا پہلوی نے ان کی اس پالیسی کی حمایت نہیں کی تھی۔ پھر مارچ 1975ء میں امریکی صہیونی سازش کے تحت شاہ فیصل کو شہید کر دیا گیا۔ تیل کی بندش کے دنوں میں امریکی یہودی وزیر خارجہ ہنری کسنجر سے شاہ فیصل نے برملا کہہ دیا تھا کہ ’’اگر امریکہ نے سعودی تیل کی تنصیبات پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو ہم خود تیل کے کنویں تباہ کر دیں گے۔ پھر ہم تو شہری زندگی تیاگ کر صحرا کے اندر خیموں میں رہ لیں گے، مگرتیل پر زندگی بسر کرنے والے امریکی شہری کیا کریں گے!‘‘ کیا عالم اسلام کی قیادتوں میں دوسرا شاہ فیصل سامنے آئے گا، یہ وقت بتائے گا۔
بشکریہ......ہفت روزہ جرار
والسلام.......علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
__________________
’’مینا‘‘ میں شامل اکثر ممالک دنیا کے ان بیس بڑے ممالک میں شمارہوتے ہیں جو تیل برآمد کرتے ہیں۔ ان میں سے صرف مصر اور بحرین ہی دو ملک ایسے ہیں جو تیل کے برآمد کنندگان نہیں، پھر بھی مصرتیل کی تجارت میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ بڑی مقدار میں یورپ کو جانے والا تیل نہر سویز سے گزرتا ہے اور اس نہر کے ساتھ ساتھ جانے والی تیل کی پائپ لائن بھی مصر کے کنٹرول میں ہے۔ علاوہ ازیں مصر اسرائیل کوقدرتی گیس بھی فراہم کرتاہے، جس کے ساتھ اس نے بیس بائیس برس سے سفارتی تعلقات استوار کر رکھے ہیں جبکہ ان سفارتی تعلقات نے 1981ء میں مصری صدر انور سادات کی جان لے لی تھی۔ پریڈ میں خالد اسلامبولی نامی مصری فوجی نے غدار انور السادات اور وزیر دفاع ابو غزالہ کو گولیوں سے اڑا دیاتھا۔ عجیب بات ہے کہ قاتل کی نسبت اگر ترکی کے سابق دارالحکومت اسلامبول (استنبول) سے تھی تو صدر مقتول کا نام بھی اس کی پیدائش کے وقت عظیم ترک مجاہد اور وزیر جنگ انور پاشا کے نام پر انور رکھا گیا تھا۔ انور پاشا نے جہاد طرابلس (1911ئ) اور فتح ادرنہ (1913ئ) میں بڑانام پیدا کیا تھا۔ آخر کار غازی انور پاشا ترکستان کو سرخ روسی سامراج سے آزاد کرانے کی جدوجہد کرتے ہوئے 1922ء میں کوہستان پامیر میں شہید ہو گئے تھے۔
’’مینا‘‘ میں تیل کے دس بڑے برآمد کنندگان کی برآمدی حجم کے لحاظ سے ترتیب یوں بنتی ہے: سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، کویت، عراق، الجزائر، لیبیا، قطر، عُمان (یاد رہے عمّان، اردن کا دارالحکومت ہے) اور یمن۔ ان میں سے صرف ایران میں باقاعدہ جمہوری انتخابات ہوتے ہیں اور باقی ممالک میں جو سب عرب ہیں، مطلق العنان حکومتیں قائم ہیں۔ اس خطے سے تیل درآمد کرنے والے بیس بڑے ممالک یہ ہیں: امریکہ (USA)، چین، جاپان، جرمنی، جنوبی کوریا، فرانس، برطانیہ، بھارت، اٹلی، سپین، نیدر لینڈ (ہالینڈ)، تائیوان، سنگاپور، بلجیم، تھائی لینڈ، جنوبی افریقہ، پولینڈ، یونان، پاکستان اور آسٹریلیا۔ ان میں سے چین اور تھائی لینڈ کے سوا دیگر ممالک دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں شمارہوتے ہیں۔
’’مینا‘‘ کے علاوہ معدنی تیل کے دس بڑے برآمد کنندگان یہ ہیں: روس، نائیجریا، وینزویلا، ناروے، میکسیکو، انگولا (افریقہ)، قازقستان، کینیڈا، انڈونیشیا اور ویت نام۔ ان میں سے وینزویلا، انگولا، قازقستان اور ویتنام مغربی جمہوری معیار پر پورے نہیں اترتے لیکن مغرب کا ’’جمہوری معیار‘‘ جامد نہیں، یہ مغربی مفادات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ گوران پرس 1996ء سے 2006ء تک سویڈن کے وزیراعظم رہے۔ انہوں نے آزاد ممالک کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا تھا: ’’جو مقروض ہیں وہ آزاد نہیں‘‘۔ یہ تعریف پاکستان اور اس جیسے بیسیوں دیگر ممالک پرصادق آتی ہے جو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضوں میں بال بال جکڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’’جو تیل رکھتے ہیں وہ آزاد نہیں‘‘ اور ’’مینا‘‘ ممالک بڑی حد تک اس تعریف کے دائرے میں آتے ہیں جہاں زیادہ تر عرب شیوخ اور امریکی و برطانوی مہرے حکمران ہیں۔ یہاں سے نکلنے والے پٹرول کی دولت کاغذوں میں تو عرب حکمرانوں کی ملکیت ہے، لیکن اس کا فائدہ امریکی، برطانوی اور یورپی بینکار اور ان ممالک کے عوام اٹھا رہے ہیں جبکہ عربوں کو بڑی لگژری کاروں، مشروبات، ڈیجیٹل کھلونوں، پرفیومز اور دیگر تعیشات کے حصول میں الجھا دیا گیا ہے۔ عربوں کی کثیر دولت مغرب کے طیارہ ساز اداروں، اسلحہ ساز کمپنیوں اور دیگر ملٹی نیشنل اداروں کے قیام وترقی میں، خرچ ہو رہی ہے، جبکہ عالم عرب کے وسط میں فروغ پذیر اسرائیلی ناسور امریکی و برطانوی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اسرائیل نواز طاقتیں خطے میں کسی بھی ایسے ملک کے قیام اور بقاء کے خلاف ہیں جو ان کے احکام کی سرتابی کرتے ہوئے غاصب اسرائیل کے لئے خطرے کا باعث بن سکے۔ عراق کی تباہی اس کی بین مثال ہے جس کے ایٹمی طاقت بن جانے کاخطرہ اسرائیل اور مغرب کے لئے سوہانِ روح بن گیا تھا۔
مغرب کا دوہرا معیار ’’مینا‘‘ میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات سے عیاں ہے۔ تیونس میں تحریک اٹھی تو مغرب نے شد و مد سے اس کی حمایت کی۔ تیونس تیل برآمد نہیں کرتا، اس لئے آمر زین العابدین بن علی مغرب کی مزید پشت پناہی سے محروم رہا لیکن جب مصر کی باری آئی تو مغربی ممالک کے لئے عوامی تحریک کی حمایت مشکل ہو گئی۔ سب سے زیادہ مشکل امریکہ کو پیش آئی جو تیس برس سے ظالم آمر حسنی مبارک کا پشتیبان بنا ہواتھا۔ صدر بارک اوباما نے تو عالم اسلام سے امریکہ کے تعلقات کے موضوع پر خطاب کرنے کیلئے قاہرہ کا انتخاب کیا تھا۔ چنانچہ جب قاہرہ اور اسکندریہ میں دس بیس لاکھ شہری سڑکوں پر آ کر حسنی مبارک سے استعفا کا مطالبہ کر رہے تھے تو واشنگٹن کو چپ لگی ہوئی تھی۔ یورپی یونین اور سویڈن بھی مہر بلب تھے۔ سویز سے گزرنے والے تیل نے ان کی زبانیں بند کر رکھی تھیں۔ اب لیبیا میں ابو مینار معمر القذافی کا اقتدار دائو پر لگا ہوا ہے۔ لیبیا کے خونیں بحران کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل سے اوپر چلی گئی ہیں۔ تیل کی عالمی تجارت میں بڑا کردار سعودی عرب کا ہے جو امریکہ سے معاہدات میں بندھا ہوا ہے۔ اگر سعودی عرب تیل کی پیداوار بند کر دے تو عالمی منڈی میں دستیاب تیل کا 20 فیصد غائب ہو جائے گا۔ اس سے پہلے شاہ فیصل رحمہ اللہ نے چوتھی عرب اسرائیل جنگ (1973ئ) کے بعد پیداوار کم کر کے تیل کا ہتھیار استعمال کیا تھا مگر اس وقت امریکی ایجنٹ شاہ ایران محمد رضا پہلوی نے ان کی اس پالیسی کی حمایت نہیں کی تھی۔ پھر مارچ 1975ء میں امریکی صہیونی سازش کے تحت شاہ فیصل کو شہید کر دیا گیا۔ تیل کی بندش کے دنوں میں امریکی یہودی وزیر خارجہ ہنری کسنجر سے شاہ فیصل نے برملا کہہ دیا تھا کہ ’’اگر امریکہ نے سعودی تیل کی تنصیبات پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو ہم خود تیل کے کنویں تباہ کر دیں گے۔ پھر ہم تو شہری زندگی تیاگ کر صحرا کے اندر خیموں میں رہ لیں گے، مگرتیل پر زندگی بسر کرنے والے امریکی شہری کیا کریں گے!‘‘ کیا عالم اسلام کی قیادتوں میں دوسرا شاہ فیصل سامنے آئے گا، یہ وقت بتائے گا۔
بشکریہ......ہفت روزہ جرار
والسلام.......علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
__________________