دن کے وقت رات
Syed Zeeshan Yousaf
تاریخ بتاتی ہے کہ کئی ملکوں اور شہروں میں دن کے وقت اندھیرا چھا گیا۔ یہ کیوں اور کیسے ہوا؟ ماہرین فلکیات کے پیچیدہ حسابات کے مطابق زمین خلاء میں 18 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ ماہرین کے نظریے کے مطابق خلاء بلکل خالی نہیں ہے بلکہ اس مں زمین کی حرکت اور دیگر تغیرات سے پیدا ہونے والے اربوں چھوٹے چھوٹے غیر شفاف ذرات ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ اگر یہ یقین کر لیا جائے تو پھر دوپہر کے وقت اندھیرا چھانے کا مظاہرہ کسی حد تک سمجھ میں آ جاتا ہے۔
کائناتی گرد سورج کی روشنی کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے روشنی زمین تک نہیں پہنچ پاتی نتیجتآ سورج کی روشنی دھندلی اور نمایاں طور پر کم ہو جاتی ہے۔ یہ غیر معمولی مظاہرہ کسی وقت بھی ظہور پذیر ہو سکتا ہے۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جب کبھی بھی عین دوپہر کے وقت اندھیرا چھایا وہ دن بادلوں سے مبرا تھا اور اس دن سورج گرہن کا بھی کوئی امکان نہ تھا۔
26 اپریل 1884 کو پیرسٹن(انگلینڈ) میں دوپہر 12 بجے کے قریب ڈرامائی طور پر اندھیرا چھا گیا۔ آسمان بلکل سیاہ ہو گیا تھا ایسا لگتا تھا متفائے بسیط پر کوئی بڑا سا سیاہ پردہ تان دیا گیا ہو۔ شہر کے لوگ پریشانی میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ جانور آرام کے لئے اپنی اپنی پناہ گاہوں کی طرف چلے گئے۔ عبادت گزار لوگ سجدے میں جھک گئے۔ اور پھر اندھیرا اسی تیزی سے چھٹ گیا جس تیزی سے چھایا تھا سورج کی روشنی دوبارہ زمین پر پڑنے لگی۔ اگرچہ اس مظاہرے کی کئی تعبیریں کی گئیں لیکن عوام کسی سے بھی مطمئن نہ ہو سکی۔ 12 اپریل 1889 کو اٹیکس(فرنی سوٹا)کے شہریوں کو بھی اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ بھی اس کی تشریح نہ کر سکے۔
19 اگست 1763 کی صبح لندن بھی تاریکی میں ڈوب گیا۔ اس مرتبہ اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ لوگوں نے لالٹینیں اور موم بتیاں روشن کر لیں۔ ماہرین فلکیات کے زائچوں کے مطابق اس روز سورج گرہن کا کوئی امکان نہیں تھا۔
19 مارچ 1886 کو اوشکائیش میں بھی ایسا ہی ہوا۔ دن کے 3 بجے نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر سارا شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔ یہ صورت تقریبآ 10 منٹ تک رہی۔ اس دوران آسمان پر سیاہی مائل دھبہ ہوا کے دوش پر مغرب سے مشرق کی طرف اڑتا ہوا دکھائی دیا۔ جب شہر میں سورج کی روشنی عود کر آئی تو پتہ چلا کہ مغرب کے شہروں کو بھی اسی قسم کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
4 دسمبر 1904 کو ممفس(ٹینسن) کے لوگ معمول ک مطابق اپنا کام کر رہے تھے۔ صبح کے 10 بجے اچانک سورج غائب ہو گیا جس کی وجہ سے مکمل تاریکی چھا گئی۔ یہ تاریکی پندرہ منٹ تک چھائی رہی۔ تاریکی کے یہ 15 منٹ شہر کے لوگوں کے لئے خوف و ہراس کے لمحات تھے۔ شہر کے بعض حصوں میں تو لوگوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا۔ بعض دیندار لوگ تو سجدے میں گر گئے انہیں یقین ہو گیا تھا کہ یہ قربِ قیامت کی نشانی ہے۔ شاید نفسیاتی وجوہ کی بنیاد پر اس قلیل الوقوع لیکن خوفناک مظاہرے کا ذمہ دار جنگل کی آگ ، غیر معمولی بادل اور دور کے ریگستانوں کی دھول کو ٹھہرایا گیا۔یہ تشریح بعض موقعوں پر تو تسلیم کر لی گئی مگر بعض دوسرے موقعوں پر یہ بلکل بیکار ثابت ہوئی۔ نتیجتآ قدرت کے اس پر اسرار مظاہرے کی تشریح متنازع ہی رہی۔
اسی طرح کا ایک واقع 24 ستمبر 1950 میں بھی پیش آیا جب تقریبآ تمام ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سورج کا رنگ پر اسرار طور پر نیلا پڑ گیا ایسا لگتا تھا جیسے سورج کی روشنی کسی نیلے فلٹر سے چھن کر آ رہی ہے۔
26 ستمبر کو سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ میں بھی سورج سبزی مائل نیلا دکھائی دیا۔ ڈنمارک میں یہ صورتِ حال کوئی 2 گھنٹے تک رہی۔ لوگ اس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ انہیں یقین ہو گیا کہ قیامت آ گئی ہے چنانچ بنکوں کے سامنے اپنا ریسیونگ اکاونٹس نکلوانے کے لئے لوگوں کی لمبیلمبی قطاریں لگ گئیں۔
عوام کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی کہ سورج کی یہ غیر معمولی کیفیت اس دھوئیں کی بدولت ہے جو البرٹا(کینیڈا) کے جنگل میں آگ لگنے کی وجہ سے فضا میں چھا گیا تھا۔ لیکن اس تشریح میں بھی ایک خامی تھی۔
اگر اس پر اسرار مظاہرے کا ذمہ دار دھواں ہی تھا تو وہ ایک ہی وقت میں امریکہ کے مشرقی حصوں کو بھی تاریک کر رہا تھا اور واشنگٹن کی طرف کے مغربی حصے کو بھی۔ یہ انوکھی ہوا تھی جو دھوئیں کو دو مخالف سمتوں میں پھیلا رہی تھی۔
__________________
بشکریہ