تین شاعر، ایک زمین، ایک بحر - غالب، امیر مینائی، داغ

کاشفی

محفلین
غزل
(نانا غالب رحمتہ اللہ علیہ)

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری ناز کی سے جانا کہ بنا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسِل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں‌ نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

یہ مسائلِ تصوف، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

--------------------------------------------------------------------
غزل
(حضرت امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)

میرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا

پس مرگ کاش یوں ہی مجھے وصل یار ہوتا
وہ سر مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا

ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا

مرے اتقا کا باعث تو ہے مری ناتوانی
جو میں توبہ توڑ سکتا تو شراب خوار ہوتا

میں ہوں‌ نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا

نہیں پوچھتا ہے مجھ کو کوئی پھول اس چمن میں
دلِ داغدار ہوتا ہو گلے کا ہار ہوتا

وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یارب
مرے دونوں پہلوؤں میں دل بیقرار ہوتا

دمِ نزع بھی جو وہ بُت مجھے آکے منہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرمسار ہوتا

نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لحد فِشار دیتی
سر راہِ کوئے قاتل جو مرا مزار ہوتا

جو نگاہ کی تھی ظالم تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا جو جگر کے پار ہوتا

میں زباں سے تم کو سچا کہوں لاکھ بار کہہ دوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا

مری خاک بھی لحد میں نہ رہی امیر باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک نہیں اعتبار ہوتا

--------------------------------------------------------------------
غزل
(حضرت نواب فصیح الملک داغ رحمتہ اللہ علیہ)

عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا

کوئی فتنہ تاقیامت نہ پھر آشکار ہوتا
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا

جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو، تمہیں اعتبار ہوتا؟

غم عشق میں مزہ تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر مےء خوشگوار ہوتا

نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا

یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا

ترے وعدے پر ستمگر ابھی اور صبر کرتے
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

یہ وہ درد دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی
اگر ایک بار ملتا تو ہزار بار ہوتا

گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشم مست دیکھی
مجھے کیا الٹ نہ دیتی جو نہ بادہ خوار ہوتا

مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
درِ یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا

تمہیں ناز ہو نہ کیونکر کہ لیا ہے داغ کا دل
یہ رقم نہ ہاتھ لگتی، نہ یہ افتخار ہوتا
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب، کیا کلام جمع کیا ہے آپ نے۔

میری پسند کے لحاظ سے ترتیب

غالب
داغ
امیر

اور قبلہ یہ کہ آپ نے غالب کو 'نانا' لکھا، خوشی ہوئی یہ جان کر :)
 

کاشفی

محفلین
بہت خوب، کیا کلام جمع کیا ہے آپ نے۔
میری پسند کے لحاظ سے ترتیب
غالب
داغ
امیر
اور قبلہ یہ کہ آپ نے غالب کو 'نانا' لکھا، خوشی ہوئی یہ جان کر :)

شکریہ جناب۔۔خوش رہیں۔۔
ویسے محمد وارث صاحب مجھے بھی بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے نانا کے ذکر کرنے کی وجہ سے خوشی جی کا ذکر ادھر کیا۔۔۔:happy:
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک اور اضافہ دیکھیے۔
یہ کہاں تھی میری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
میری طرح کاش انہیں بھی میرا انتظار ہوتا

یہ ہے میرے دل کی حسرت یہ ہے میرے دل کا ارماں
ذرا مجھ سے ہوتی الفت ذرا مجھ سے پیار ہوتا

اسی انتظار میں ہوں کسی دن وہ دن بھی ہوگا
تجھے آرزو یہ ہوگی کہ میں ہم کنار ہوتا

تیرا دل کہیں نہ لگتا تجھے چین کیونکر آتا
تو اداس اداس رہتا جو تو بے قرار ہوتا

تیری بات مان لیتا کبھی تجھ سے کچھ نہ کہتا
میرے بے قرار دل کو جو ذرا قرار ہوتا

یہی میری بے کلی پھر میری بے کلی نہ ہوتی
جو تو دل نواز ہوتا جو تو غمگسار ہوتا

کبھی اپنی آنکھ سے وہ میرا حال دیکھ لیتے
مجھے ہے یقین ان کا یہی حالِ زار ہوتا

کبھی ان سے جا لپٹتا کبھی ان کے پاوں پڑتا
سر رہگزر پہ ان کی جو مرا غبار ہوتا

تری مہربانیوں سے مرے کام بن رہے ہیں
جو تو مہرباں نہ ہوتا میں ذلیل و خوار ہوتا

یہ ہے آپ کی نوازش کہ ادھر ہے آپ کا رخ
نہ تھی مجھ میں‌کوئی خوبی جو امیدوار ہوتا

تری رحمتوں کی وسعت سرِ حشر دیکھتے ہی
یہ پکار اٹھا ہے زاہد میں‌گناہ گار ہوتا

بخدا کس اوج پر پھر یہ ادا نماز ہوتی
ترے پائے ناز پر جب سرِ خاکسار ہوتا

جو معین میرا ان سے کسی دن ملاپ ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا


از سید غلام معین الدین مشتاق رحمۃ اللہ علیہ
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ کاشفی صاحب، بہت خوب انتکاب کیا ہے۔
مگر کچھ جگہوں پر آپ سے ٹائپو ہو گئیں ہیں اور ایک آدھ جگہ پر کوئی لفظ لکھنے سے رھ گیا ہے، یا شاید یہ میری کم علمی ہے۔
 

ابن جمال

محفلین
میرے خیال سے غزلوں میں بھی حوالہ کااہتمام ضروری ہے داغ کی غزل کہاں سے اورکس مجموعہ کلام سے لی گئی ہے اس کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ میں نے سیرت مولانا محمد علی مونگیری میں پڑھاہے کہ
وہ مزہ دیاتڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یارب
میرے دونوپہلوئوں مین دل بیقرار ہوتا
یہاں پر یہ شعرامیر مینائی کی غزل میں دکھائی گئی ہے جب کہ میرے مذکورہ کتاب میں وہ حضرت داغ کی جانب منسوب ہے۔
 
Top