اجتماعی انٹرویو تین محفلین ایک سوال - قیصرانی - سید ذیشان - حسان خان

زبیر مرزا

محفلین
السلام علیکم
تین محفلین قیصرانی سید ذیشان حسان خان جن کے منفرد خیالات اورذہانت کی
دھوم ہے - کم سخن اورحقائق پرنظررکھنے والے مثبت اورتعمیری سوچ والے یہ احباب ہیں
نیا گروپ اس سلسلہ کا -
سوال - اگرآپ کو ایک سماجی مسئلے پرکام کرنے کی آفر ہو تو آپ کون سا مسئلہ منتخب کریں گے
اور پہلے تین اقدامات کیا ہوں گے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
سب سے پہلا مسئلہ جو میں چنوں گا، وہ یہ ہے جناب

نفسیاتی امراض کا شکار افراد جو ہمارے آس پاس رہتے ہیں، ان کی مدد کیسے کی جائے۔ کیونکہ یہ وہ انسان ہیں جو انسان ہوتے ہوئے، ہمارے ہوتے ہوئے بھی ہمارے نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں اپنا سمجھا جاتا ہے

پہلا قدم یہ کہ ان کی بیماری کی تشخیص کی جائے
دوسرا قدم یہ کہ ان کا علاج شروع ہو
تیسرا قدم یہ کہ انہیں معاشرے کا بالعموم اور خاندان کا بالخصوص حصہ بنایا اور سمجھا بھی جائے
 

زبیر مرزا

محفلین
چونکہ سوال میں نے غیرارادی طورپر ایسا پوچھ لیا ہے کہ میں اس میں کچھ کمنٹس کئے بناء رہ ہی نہیں سکتا :) اس پرقیصرانی بھائی کا منتخب مسئلہ تو بہت کچھ کہنے سنے اورسمجھنے کے مواقع فراہم کرے گا
ذہنی مسائل اورپریشانیوں کا شکارافراد کو سب سے پہلے تو مریض نہ سمجھا جائے بلکہ جذباتی اورسماجی اُلجھنوں میں مبتلا سمجھیں تو زیادہ مناسب ہوگا اور
بہتر طورپران کے لیے کچھ کیا جاسکتا ہے کہ جب ہم ان کو مریض کا لیبل لگا دیتے ہیں تو بہت سارے لوگ جو ذہنی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اپنی پریشانیوں اور مسائل
کو چھپا لیتے ہیں اور اس وقت تک ان کو دبائے رکھتے ہیں جب تک کہ شدید صورت میں ظاہر نہ ہوجائیں - کونسلنگ اور ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے میں ایک بڑی روکاٹ
یہ سماجی وعمومی رویہ ہے کہ لوگ پاگل سمجھے جائیں گے جو کہ انتہائی کم علمی اورغلط رویہ ہے - ہم سب زندگی میں مسائل کا شکارہوتے ہیں کچھ لوگ ان سے باآسانی نبردآزما
ہوکران کا حل نکال لیتے ہیں یہ کسی دوست یا رشتے دار کی مدد سے اس مسئلہے کاحل مل جاتا ہے لیکن بعض افراد کے لیے ایسا ممکن نہیں ہوتا اور وہ پے درپے ذہنی پریشانیوں کا
شکارہوکر روزمرہ کے معمولات کو انجام نہیں دےپاتے تو ہمیں ان کو بھی اپنے جیسا ہی سمجھنا چاہیے اور کونسلنگ کو مشورہ دینا چاہیے
شکریہ قیصرانی بھائی اس اہم مسئلے کو منتخب کرنے کے لیے
 

باباجی

محفلین
سب سے پہلا مسئلہ جو میں چنوں گا، وہ یہ ہے جناب

نفسیاتی امراض کا شکار افراد جو ہمارے آس پاس رہتے ہیں، ان کی مدد کیسے کی جائے۔ کیونکہ یہ وہ انسان ہیں جو انسان ہوتے ہوئے، ہمارے ہوتے ہوئے بھی ہمارے نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں اپنا سمجھا جاتا ہے

پہلا قدم یہ کہ ان کی بیماری کی تشخیص کی جائے
دوسرا قدم یہ کہ ان کا علاج شروع ہو
تیسرا قدم یہ کہ انہیں معاشرے کا بالعموم اور خاندان کا بالخصوص حصہ بنایا اور سمجھا بھی جائے
نفسیاتی بیماریاں اس قدر پھیل چکی ہیں کہ ان پر توجہ دینا تقریباً موقوف ہوچکا ہے
کچھ چنیدہ بیماریوں کے علاوہ عام طور پر خیال ہی نہیں کیا جاتا
حالانکہ بیماریوں میں سب سے بڑا اور پیچیدہ شعبہ نفسیاتی بیماریوں کا ہی ہے جس علاج ایک ہی وقت میں مشکل بھی ہے اور آسان بھی
بہت زبردست بات کی قیصرانی بھائی نے
اور اس مسئلہ پر کافی مفید بات چیت بھی ہوسکتی ہے بلکہ ہمیں خود یہ بھی پتا چل سکتا ہےکہ ہمیں بھی کوئی نفسیاتی بیماری تو لاحق نہیں
اس بات ضرور ہونی چاہیئے لیکن تینوں افراد سے اس سوال کا جواب آنے کے بعد
 

زبیر مرزا

محفلین
حاضر ہوں زبیر بھائی، اب حکم کیجئے۔ :)

سوال ہے میاں حکم نہیں :) اوروہ دوبارہ دُہرا دیتا ہوں - سوال ایک ہی ہوگا آپ تینوں سے اس پرآپ کے خیالات اورنقطہءنظرجاننا چاہیں گے
سوال - اگرآپ کو ایک سماجی مسئلے پرکام کرنے کی آفر ہو تو آپ کون سا مسئلہ منتخب کریں گے​
اور پہلے تین اقدامات کیا ہوں گے؟​
 

حسان خان

لائبریرین
سوال ہے میاں حکم نہیں :) اوروہ دوبارہ دُہرا دیتا ہوں - سوال ایک ہی ہوگا آپ تینوں سے اس پرآپ کے خیالات اورنقطہءنظرجاننا چاہیں گے
سوال - اگرآپ کو ایک سماجی مسئلے پرکام کرنے کی آفر ہو تو آپ کون سا مسئلہ منتخب کریں گے
اور پہلے تین اقدامات کیا ہوں گے؟

میں پاکستان سے ناخواندگی کا خاتمہ کرنا چاہوں گا اور اس سلسلے میں میرے پہلے تین اقدامات یہ ہوں گے:
اپنے جاننے والے کسی ناخواندہ شخص کو پڑھنا لکھنا سکھانا
چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ جگہ جگہ گھوم کر سریع خواندگی کی کلاسیں رکھنا۔۔۔
لوگوں کو خواندگی کی اہمیت کے بارے میں بتانا
 

سید ذیشان

محفلین
میں جو سماجی مسئلہ چنوں گا وہ ہے تعلیم۔ بچپن میں سر سید کا ایک مضمون پڑھا تھا جس میں اس وقت کے مسلمانوں میں پائی جانی والی برائیوں کا تفصیلی ذکر تھا، اگر آپ اس پر نظر ڈالیں اور آج کل کی خرابیاں دیکھیں تو کوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔ اس کی وجہ کا بھی اسی مضمون میں ذکر ہے یعنی تعلیم۔ تعلیم پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے متعدد خرابیاں پیدا ہو گئیں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اکثر برائیوں کی جڑ ہی یہی ہے۔

یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ حکومتی سطح پر ہی اس کا حل ممکن ہے۔ ہم اپنے طور پر جو کر سکتے ہیں:
1- کچھ بچوں کو کچھ عرصے کے لئے سکول میں جا کر بلامعاوضہ ان سبجیکٹس کی تعلیم دینا جن میں آپ اچھے ہیں۔
2- کسی ایسے ادارے کی مالی معاونت کرنا جو غریب بچوں کو تعلیم مہیا کرتی ہو۔ مثلاً Child Protection Project ایک بہت اچھا initiative ہے جو کہ فی الحال پشاور میں کوڑا اٹھانے والے بچوں کو مفت تعلیم اور کچھ معاوضہ ادا کرتا ہے۔
3- اپنے بچوں کیساتھ محنت کریں اور ان کو چیزوں کو من و عن تسلیم کرنے کی بجائے، سوالات اٹھانے اور ان پر غور کرنے کی ترغیب دیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
چونکہ سوال میں نے غیرارادی طورپر ایسا پوچھ لیا ہے کہ میں اس میں کچھ کمنٹس کئے بناء رہ ہی نہیں سکتا :) اس پرقیصرانی بھائی کا منتخب مسئلہ تو بہت کچھ کہنے سنے اورسمجھنے کے مواقع فراہم کرے گا
ذہنی مسائل اورپریشانیوں کا شکارافراد کو سب سے پہلے تو مریض نہ سمجھا جائے بلکہ جذباتی اورسماجی اُلجھنوں میں مبتلا سمجھیں تو زیادہ مناسب ہوگا اور
سب سے پہلا مسئلہ جو میں چنوں گا، وہ یہ ہے جناب

نفسیاتی امراض کا شکار افراد جو ہمارے آس پاس رہتے ہیں، ان کی مدد کیسے کی جائے۔ کیونکہ یہ وہ انسان ہیں جو انسان ہوتے ہوئے، ہمارے ہوتے ہوئے بھی ہمارے نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں اپنا سمجھا جاتا ہے

پہلا قدم یہ کہ ان کی بیماری کی تشخیص کی جائے
دوسرا قدم یہ کہ ان کا علاج شروع ہو
تیسرا قدم یہ کہ انہیں معاشرے کا بالعموم اور خاندان کا بالخصوص حصہ بنایا اور سمجھا بھی جائے

بہتر طورپران کے لیے کچھ کیا جاسکتا ہے کہ جب ہم ان کو مریض کا لیبل لگا دیتے ہیں تو بہت سارے لوگ جو ذہنی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اپنی پریشانیوں اور مسائل
کو چھپا لیتے ہیں اور اس وقت تک ان کو دبائے رکھتے ہیں جب تک کہ شدید صورت میں ظاہر نہ ہوجائیں - کونسلنگ اور ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے میں ایک بڑی روکاٹ
یہ سماجی وعمومی رویہ ہے کہ لوگ پاگل سمجھے جائیں گے جو کہ انتہائی کم علمی اورغلط رویہ ہے - ہم سب زندگی میں مسائل کا شکارہوتے ہیں کچھ لوگ ان سے باآسانی نبردآزما
ہوکران کا حل نکال لیتے ہیں یہ کسی دوست یا رشتے دار کی مدد سے اس مسئلہے کاحل مل جاتا ہے لیکن بعض افراد کے لیے ایسا ممکن نہیں ہوتا اور وہ پے درپے ذہنی پریشانیوں کا
شکارہوکر روزمرہ کے معمولات کو انجام نہیں دےپاتے تو ہمیں ان کو بھی اپنے جیسا ہی سمجھنا چاہیے اور کونسلنگ کو مشورہ دینا چاہیے
شکریہ قیصرانی بھائی اس اہم مسئلے کو منتخب کرنے کے لیے

قیصرانی بھائی نے بہت اہم مسئلے کی نشاندہی کی ہے اور زبیر بھائی نے بھی بہت اچھی باتیں کہی ہیں۔ اس بیماری کے بارے میں آگاہی بہت ضروری ہے۔ پچھلے دنوں میں نے بی بی سی پر ایک ڈاکیومنٹری دیکھی تھی جس میں اس موضوع پر بہت تفڈیلی گفتگو ہوئی تھی۔ آپ بھی ضرور دیکھیں۔
کوڈ:
http://www.youtube.com/watch?v=F5YubjEqbZ8
 

زبیر مرزا

محفلین
بہت شکریہ حسان اور سید ذیشان بلاشبہ تعیلمی نظام اور ناخواندگی کے سلسلے میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے اور اس کے حل کے لیے
انفرادی سطح پر بھی کوششیں کرنی چاہیں - حسان ان شاءاللہ اس بارکراچی آیا تو یونیورسٹی میں آپ کی ملاقات ان لوگوں سے کراؤں گا جو
بڑے احسن اورمنفرد طریقے سے تعیلم کو فروغ دے رہے ہیں - ہمارا اولین مسئلہ تو یہ ہے استاد کے ساتھ سخت گیر ، درشت رویہ اور ڈکٹیٹر کا روپ
دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ تعلیم کی ذمہ داری میں اخلاق اورشفقت کا بہت اہم کردار ہے ہمیں اپنے وہی اساتذہ یاد رہتے ہیں جو مشفق اور دوستانہ رویہ رکھتے تھے
طالب علم اورمعلم میں ڈسپلن کے نام پرکمیونکیشن کو ختم کردیا جاتا ہے اس کو دورکرنے کی سخت ضرورت ہے - جب طالب علم بلاجھجک اپنا سوال پوچھنے اور
اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل کرلے گا تو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خوداعتمادی سے مالا مال ہوجائے گا
 
میں مشترکی پنچایت خاندانی سربراہ کو عمل انجام دینا چاہوں گا جو خاندان و علاقے کو جوڑے رکھے گا ہر مسلے میں
ہر گھر میں سے ایک سربراہ ہر محلے میں سے ایک ہر گاوں میں ایک سربراہ جو کلی اختیارات کا ادارک رکھتا ہو کافی سے زیادہ پریشانیاں ختم ہو جاییں گی
 
Top