نایا ب بھائی میں نے وہ کالم پڑھا ہے.......میرے خیال میں جس طرح دیگر صوفیا تحلیل نفسی اور معاشرے کے پریشان حال و خیال لوگوں کی مشکلات علمی حل کرتے ہیں.........ایسے ہی ان صاحب نے مثالیں وغیرہ دے کر سمجھانے کی کوشش کی ہے....... باقی اُس کالم میں بیان کیے گئے ملفوظات کا علمی درجہ اور بعض دیگر احباب کی اس پہ نقد و جرح.......تو عرض یہ ہے کہ اس ضمن میں چپ ہی بھلی..........علم کے نام پہ جہالت پنپتی ہے........اور دوسرے کی بات کو سننے کی تاب ہم میں سے اکثر میںنہیں..........اور اخلاق حسنہ سے عاری لوگ شریعت و طریقت کی امامت کے داعی ہیں فی زمانہ........آپ ایک دفعہ پھر اس دھاگے پہ نظر دوڑائیے........دعاوی ہیں کہ ہمالیہ چھوٹا دکھائی دے اور زعم ہے کہ خدا کی پناہ...........اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کی سمجھ دے اور اس کی پیروی کی توفیق بھی ارزاں فرمائے......اس طمانچے سے اک بار تو روح تک لرز گئی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ پھر آج ہی کا پڑھا اک کالم یاد آیا کہ ۔۔۔ ۔۔
یہ تو " اللہ کی مہربانی " پر مبنی اللہ کی تقسیم ہے " فائنل اور آپشنل "
مجھے یقین ہے کہ اگر " خواجہ صاحب" نامی کوئی بزرگ جاوید چوہدری سے ملے بھی ہونگے اور انہوں نے یہ نکاتِ دانش انکے گوش گذار کئے بھی ہونگے تو پھر بھی یہ بات بعید از قیاس ہے کہ انہوں نے بل گیٹس وغیرہ کی مثالیں دی ہوں۔ یہ محض جاوید چوہدری کی افسانہ نگاری ہے۔ کہ اگر آج کسی کو انسانیت سے گرا ہوا انسان ثابت کر رہے ہیں تو اسکے نگران وزیرِ اعلیٰ بنتے ہی اسے بہت مخلص اور صاحبِ کردار بتانے لگتے ہیں۔ کیونکہ چوہدری صاحب کے نزدیک شائد " اللہ کی کرم نوازی اور مہربانی" کا یہی معیار ہے کہ دنیا وی اعتبارسے کون کتنا کامیاب جارہا ہے۔ صوفیہ تو دنیا کو رسولِ پاک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انکا فرمان ہے کہ" دنیا کی قدر اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر جتنی بھی نہیں" اور یہ کہ " اگر دنیا کی قدر اللہ کی نگاہ میں ایک مچھر کے پر جتنی بھی ہوتی، تو کافر کو ٹھنڈے پانی کا ایک گھونٹ بھی پینا نصیب نہ ہوتا"۔۔۔یہ بل گیٹس کو جو کچھ مل رہا ہے وہ اللہ کا نظامِ عدل ہے کہ جو بؤ گے وہی کاٹو گے اور جس راہ پر چلو گے وہ راہ تمہارے لئے آسان کردی جائے گی کھول دی جائے گی ۔ لیکن اللہ کا فضل چیزے دگر است۔ اللہ کا فضل یہی ہے کہ بندہ اللہ کے رسول کی قدر کو پہچان لے۔نایا ب بھائی میں نے وہ کالم پڑھا ہے.......میرے خیال میں جس طرح دیگر صوفیا تحلیل نفسی اور معاشرے کے پریشان حال و خیال لوگوں کی مشکلات علمی حل کرتے ہیں.........ایسے ہی ان صاحب نے مثالیں وغیرہ دے کر سمجھانے کی کوشش کی ہے....... باقی اُس کالم میں بیان کیے گئے ملفوظات کا علمی درجہ اور بعض دیگر احباب کی اس پہ نقد و جرح.......تو عرض یہ ہے کہ اس ضمن میں چپ ہی بھلی..........علم کے نام پہ جہالت پنپتی ہے........اور دوسرے کی بات کو سننے کی تاب ہم میں سے اکثر میںنہیں..........اور اخلاق حسنہ سے عاری لوگ شریعت و طریقت کی امامت کے داعی ہیں فی زمانہ........آپ ایک دفعہ پھر اس دھاگے پہ نظر دوڑائیے........دعاوی ہیں کہ ہمالیہ چھوٹا دکھائی دے اور زعم ہے کہ خدا کی پناہ...........اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کی سمجھ دے اور اس کی پیروی کی توفیق بھی ارزاں فرمائے......
.باقی معاشرے اور اللہ کے کنبے کے لیے کیا جانے والا کوئی بھی کام یقیناً انسان کی دنیاو آخرت میں اسے فائدہ تو دیتا ہے.........یقیناً
غزنوی صاحب! میں شکرگزار ہوں ، کہ آپ نے توجہ فرمائی ..........مجھے یقین ہے کہ اگر " خواجہ صاحب" نامی کوئی بزرگ جاوید چوہدری سے ملے بھی ہونگے اور انہوں نے یہ نکاتِ دانش انکے گوش گذار کئے بھی ہونگے تو پھر بھی یہ بات بعید از قیاس ہے کہ انہوں نے بل گیٹس وغیرہ کی مثالیں دی ہوں۔ یہ محض جاوید چوہدری کی افسانہ نگاری ہے۔ کہ اگر آج کسی کو انسانیت سے گرا ہوا انسان ثابت کر رہے ہیں تو اسکے نگران وزیرِ اعلیٰ بنتے ہی اسے بہت مخلص اور صاحبِ کردار بتانے لگتے ہیں۔ کیونکہ چوہدری صاحب کے نزدیک شائد " اللہ کی کرم نوازی اور مہربانی" کا یہی معیار ہے کہ دنیا وی اعتبارسے کون کتنا کامیاب جارہا ہے۔ صوفیہ تو دنیا کو رسولِ پاک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انکا فرمان ہے کہ" دنیا کی قدر اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر جتنی بھی نہیں" اور یہ کہ " اگر دنیا کی قدر اللہ کی نگاہ میں ایک مچھر کے پر جتنی بھی ہوتی، تو کافر کو ٹھنڈے پانی کا ایک گھونٹ بھی پینا نصیب نہ ہوتا"۔۔۔ یہ بل گیٹس کو جو کچھ مل رہا ہے وہ اللہ کا نظامِ عدل ہے کہ جو بؤ گے وہی کاٹو گے اور جس راہ پر چلو گے وہ راہ تمہارے لئے آسان کردی جائے گی کھول دی جائے گی ۔ لیکن اللہ کا فضل چیزے دگر است۔ اللہ کا فضل یہی ہے کہ بندہ اللہ کے رسول کی قدر کو پہچان لے۔
امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب میں سورہ تکاثر کی تفسیر میں یہ روایت بیان کی ہے کہ کسی نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے سوال کیا کہ اس سورت میں " پھر ہم اس روز تم سے نعیم کے بارے میں سوال کریں گے" نعیم سے کیا مراد ہے؟ کیا دنیا کی نعمتیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اگر تم کسی شخص کو کچھ کھانے پینے کو دو اور بعد میں کافی عرصے کے بعد اگر وہ شخص تم سے ملنے آئے تو کیا تم اسے اپنے اس سلوک کا زکر کرکے جتاؤ گے کہ فلاں وقت میں نے تمہیں فلاں چیز کھلائی پلائی؟ وہ کہنے لگا کہ حاشا و کلّا، یہ تو صفتِ کرم کے منافی بات ہوگی ۔ تو آپ نے فرمایا کہ " پھر جو الکریم ہے یہ بات تم اس کی طرف کیسے منسوب کرسکتے ہو؟"
کہنے لگا کہ پھر بتائیے کہ نعیم سے کیا مراد ہے؟
فرمایا کہ " نعیم سے مراد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں"۔ کہ بتاؤ ہم نے تمہیں یہ جو اتنی بڑی نعمت دی ، اسکی کیا قدر کی تم نے؟
غزنوی صاحب! میں شکرگزار ہوں ، کہ آپ نے توجہ فرمائی ..........
آپ ماشاءاللہ صاحب علم ہیں، بات کہنے کا سلیقہ بھی موجود ہے اور بات سننے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں..........
چند سوالات ہیں میرے ذہن میں شریعت و طریقت کی تقسیم اور فرق اسلامی کے سلسلہ میں ..........اور ظاہر ہے کہ ایک طالب علم کے سوالات...........نا کہ طعن میں چھپے استفہامی جملے!!
کیا ذاتی مکالمہ شروع کر لیا جائے؟...........
انشاءاللہ جلد ذاتی مکالمے میں معروضات پیش کروں گا.............شکریہ جنابِ فلک شیر۔
میں بھی طالب علم ہی ہوں۔ سوالات تو علماء سے پوچھے جاتے ہیں۔ ہم تو آپس میں بس تبادلہ ِ خیال کرسکتے ہیں اور اسکے لئے حاضر ہوں، امید ہے آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
گفتگو میں اس فقیر کو شامل کر لیجئے گا، ایک خاموش متعلم کے طور پر!!انشاءاللہ جلد ذاتی مکالمے میں معروضات پیش کروں گا.............
سر! آپ سے تو سیکھیں گے ہم انشاءاللہ........گفتگو میں اس فقیر کو شامل کر لیجئے گا، ایک خاموش متعلم کے طور پر!!