ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
حضرت مولانا حسن رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا دیوان غزلیات ’ثمر فصاحت‘ کے تاریخی نام سے ۱۳۱۹ھ میں شائع ہوا تھا، جو اَب نایاب ہے۔ اس کا ایک قدیم نسخہ جو مطبع اہل سنت وجماعت بریلی میں چھپا ہے جناب احسان دانش کے کتب خانے میں موجود ہے جو موصوف نے کمال مہربانی سے مجھے مطالعہ کے لیے عطا کیا۔ میں جناب ممدوح کا بے حد احسان مند ہوں کہ مجھے انہوں نے اس نسخے سے اِستفادہ کرنے کاموقع دیا۔
جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں مولانا حسن رضا بریلوی نواب مرزاخان داغؔ دہلوی کے ارشد تلامذہ میں تھے، اور ان کی غزلو ں میں تمام وہ خصوصیات پائی جاتی ہیں جو داغؔ کے کلام کا طرۂ امتیاز ہیں۔ مولانا حسن رضا بریلوی نے خود بھی داغؔ کی شاگردی پر فخر کیا ہے۔ ایک غزل کے مقطع میں فرماتے ہیں۔ ؎
جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں مولانا حسن رضا بریلوی نواب مرزاخان داغؔ دہلوی کے ارشد تلامذہ میں تھے، اور ان کی غزلو ں میں تمام وہ خصوصیات پائی جاتی ہیں جو داغؔ کے کلام کا طرۂ امتیاز ہیں۔ مولانا حسن رضا بریلوی نے خود بھی داغؔ کی شاگردی پر فخر کیا ہے۔ ایک غزل کے مقطع میں فرماتے ہیں۔ ؎
کیوں نہ ہو میرے سخن میں لذتِ سوز و گداز
اے حسنؔ شاگرد ہوں میں داغؔ سے اُستاد کا
پھر ایک اور غزل میں کہا ؎
جس کو زمانہ بلبل ہندوستاں کہے
اب کون ہے حسن ؔ شعرا میں سواے داغؔ
ایک اور شعر ہے ؎
لطف ان سست مضامیں میں کہاں سے آئے
اے حسنؔ گر کرم حضرتِ اُستاد نہ ہو
ایک اور غزل میں ہے ؎
حضرت اُستاد کے دیکھیں قدم چل کر حسنؔ
گر خدا پہنچا دے ہم کو مصطفی آباد میں
مصطفی آباد،رام پور کا اِسلامی نام تھا۔ ایک غزل میں داغؔ کا ایک مصرع تضمین کیا ہے ؎
حال ہے اب یہ حسنؔ کا کہ بقول اُستاد
رات بھر ہاے صنم ہاے صنم کرتے ہیں
ایک غزل میں اُستاد کے دیوان ’گلزار داغ‘ کا حوالہ دیا ہے ؎
یہ گل فشانیاں تو نہ ہوتیں کبھی حسنؔ
تم نے چنے ہیں پھول یہ گلزار داغ سے
داغ کے دوسرے دیوان ’ماہتاب داغ‘ اور داغ کی وفات پر قطعات تاریخ بھی کہے ہیں جو قطعات تاریخ میں درج کروں گا۔
داغ کے کلام کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کا کلام شوخی و طنز، شکوہ و شکایت، معشوق سے چھیڑ چھاڑ، معاملہ بندی، نازک خیالی اور ندرتِ خیال کاا ٓئینہ دار ہے، اور حسن زبان، محاورہ بندی، لفظی رعایات، بے ساختگی اور سہل ممتنع کا اعلی نمونہ ہے۔ داغ کے چھوٹی زمینوں کے اشعار تیر و نشتر کاکام کرتے ہیں؛ اسی لیے علامہ اقبال نے داغ کی وفات پر کہا تھا ؎
ہوبہو کھینچے گا لیکن حسن کی تصویر کون
مرگیا ناوک فگن مارے گا دل پر تیر کون
حضرت مولانا حسن رضا بریلوی کے تغزل میں داغ کی یہ تمام خصوصیات بکثرت پائی جاتی ہیں۔ کسی زمانے میں مجھے بیخودؔ بدایونی کے کلام کے مطالعہ کا موقع ملاتھا۔ بیخودؔ۔ کے کلام میں بھی تمام خصوصیات داغ کی موجود ہیں۔
مریض ہجر اُمید سحر نہیں رکھتا
مریض ہجر اُمید سحر نہیں رکھتا
غضب ہے پھر بھی وہ غافل خبر نہیں رکھتا
یہ پھنک رہا ہوں تپِ عشق و سوزِ فرقت میں
کہ مجھ پہ ہاتھ کوئی چارہ گر نہیں رکھتا
گلہ ہے اُس سے تغافل کا حضرتِ دل کو
جو مستِ ناز ہے اپنی خبر نہیں رکھتا
تجھے رقیب کی کرنی پڑے گی چارہ گری
سمجھ تو کیا مرا نالہ اَثر نہیں رکھتا
تلاشِ مست تغافل میں میرا گم ہونا
وہ مبتدا ہے جو کوئی خبر نہیں رکھتا
ہم اُن سے پوچھیں سبب رنج بے سبب کا کیوں
رقیب ہم سے عداوت مگر نہیں رکھتا
غضب ہے آہ مری حالت تباہ مری
وہ اس لیے مجھے پیشِ نظر نہیں رکھتا
مگر قریب ہے اب کوئے قاتلِ عالم
کہ مجھ سے آگے قدم راہبر نہیں رکھتا
سوائے ڈیوڑھے ہیں بازارِ عشق میں اُس کے
جو فکرِ نفع و خیالِ ضرر نہیں رکھتا
کہو تو بزمِ عدو کا کہوں مفصل حال
تمہیں خبر ہے کہ میں کچھ خبر نہیں رکھتا
نگاہِ ناز سے اب کس لیے مجھے دیکھیں
حسنؔ میں دل نہیں رکھتا جگر نہیں رکھتا