ثنا خوانِ تقدیسِ مغرب ۔ ۔ ۔اوریا مقبول جان

یوسف-2

محفلین
x25035_74566401.jpg.pagespeed.ic.1PDeUUa6Im.jpg
 

آبی ٹوکول

محفلین
آج تو اوریا بھائی تپ ہی گئے۔۔۔ میرے خیال میں یہ سارا کالم پچھلے روز ہونے والے ایک ٹی وی ٹالک شو میں حسن نثار اور اوریا صاحب کی گفتگو کہ پس منظر میں تحریرہوا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
برادرم یوسف-2
حضور دست بستہ التجا ہے کہ اگر برا نہ لگے تو ایک دو فقرے اپنے بھی لکھ دیا کیجئے تاکہ ہم جیسے نا سمجھ افراد کو خوامخواہ یہ گمان نہ ہو کہ آپ سپیمنگ جیسی گری ہوئی حرکت میں ملوث ہیں :)
 
بھٹی صاحب، گالی کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ سلیم الفطرت اور کج رو زمان و مکان کی ہر روش پہ موجود رہتے ہیں۔ مشرق بھی ویسا، مغرب بھی۔ عروج و زوال تو مالک کے فرمان کے مطابق حسبِ میعاد قوموں کے درمیان پھیرے جاتے رہتے ہیں۔
نکتے کی بات یہ ہے کہ انسان کے بطون میں ایک ضمیر نامی چنگاری موجود ہے۔ بجھ نہ جائے تو یہ چنگاری بشری کوتاہیوں کو خاکستر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ کچھ جرائم ایسے ہیں جنھیں میں کر کر کے تھک گیا ہوں۔ نفس ضمیر کے سامنے شرمندہ کھڑا ہے۔ مچھلی پتھر چاٹ کے واپس آ گئی ہے۔ اب دوبارہ ارتکاب سے نفرت ہوتی ہے۔ خالص اور بے لوث قسم کی مقصود بالذات نفرت۔ یہی حال قوموں کا بھی ہوتا ہے۔ ہر افراط کی میعاد ہوتی ہے۔ زیادتی کرنے والی قوم اس پر ایک مدت سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتی۔ یا تو تائب ہو جاتی ہے یا غائب۔
میں نے فلسفے کے ایک فورم پہ یہ رائے پیش کی تھی کہ مغرب و مشرق کے موازنے کی کوشش کم از کم سنجیدہ دانشوروں کو نہیں کرنی چاہیے۔ دونوں ہر ملک ملکِ ماست کا مصداق ہیں۔ رویوں میں فرق ہیں اور بہت گہرے ہیں۔ لیکن اس سے نیکی اور بدی یا حق اور شر کا تعلق نہیں جوڑنا چاہیے۔ مشرق مشرق ہی رہے گا اور مغرب مغرب ہی۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہے گا۔ ہمارے دن کٹ جائیں گے۔ ان کے گزر جائیں گے۔ لیکن انسان دونوں جگہ وہی رہے گا۔ اس کا رب دونوں جگہ بجتی ہوئی مٹی میں چنگاریاں پیدا کرتا رہے گا۔ کچھ چنگاریاں الاؤ روشن کریں گی اور تاریخ کو سنہرا کر دیں گی۔ کچھ بجھ جائیں گی اور اندھیارے کو راہ دے دیں گی۔ اس دوئی پہ نہ مشرق فتح پا سکتا ہے نہ مغرب۔
 

اوشو

لائبریرین
اصل بات یہ ہے کہ یہ احساسِ کمتری کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔ پہلے مجھے ان پر غصہ آتا تھا اب ترس آتا۔
ایسے پڑھے لکھے جاہل آپ کو ہر جگہ مل جائیں گے حتی کہ یہاں بھی :)
لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کی کوشش کرنا ایسے نفسیاتی مریضوں کی مخصوص علامت ہے۔ چاہے منفی طور پر ہی کیوں نہ ہو۔
یعنی کہ
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
کسی فورم میں تجربے کے طور پہ ان کے مراسلات پر دی گئی منفی ریٹنگز کو لے کر ان کی کھلی ہوئی باچھیں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
 
بھٹی صاحب، گالی کسی کو نہیں دی جا سکتی۔
میں نے کیا کسی کو گالی دی؟
میری ذات کو کوئی کچھ کہے میں گالی نہیں دیتا۔
نکتے کی بات یہ ہے کہ انسان کے بطون میں ایک ضمیر نامی چنگاری موجود ہے۔ بجھ نہ جائے تو یہ چنگاری بشری کوتاہیوں کو خاکستر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ کچھ جرائم ایسے ہیں جنھیں میں کر کر کے تھک گیا ہوں۔ نفس ضمیر کے سامنے شرمندہ کھڑا ہے۔ مچھلی پتھر چاٹ کے واپس آ گئی ہے۔ اب دوبارہ ارتکاب سے نفرت ہوتی ہے۔ خالص اور بے لوث قسم کی مقصود بالذات نفرت۔ یہی حال قوموں کا بھی ہوتا ہے۔ ہر افراط کی میعاد ہوتی ہے۔ زیادتی کرنے والی قوم اس پر ایک مدت سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتی۔ یا تو تائب ہو جاتی ہے یا غائب۔
میں نے فلسفے کے ایک فورم پہ یہ رائے پیش کی تھی کہ مغرب و مشرق کے موازنے کی کوشش کم از کم سنجیدہ دانشوروں کو نہیں کرنی چاہیے۔ دونوں ہر ملک ملکِ ماست کا مصداق ہیں۔ رویوں میں فرق ہیں اور بہت گہرے ہیں۔ لیکن اس سے نیکی اور بدی یا حق اور شر کا تعلق نہیں جوڑنا چاہیے۔ مشرق مشرق ہی رہے گا اور مغرب مغرب ہی۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہے گا۔ ہمارے دن کٹ جائیں گے۔ ان کے گزر جائیں گے۔ لیکن انسان دونوں جگہ وہی رہے گا۔ اس کا رب دونوں جگہ بجتی ہوئی مٹی میں چنگاریاں پیدا کرتا رہے گا۔ کچھ چنگاریاں الاؤ روشن کریں گی اور تاریخ کو سنہرا کر دیں گی۔ کچھ بجھ جائیں گی اور اندھیارے کو راہ دے دیں گی۔ اس دوئی پہ نہ مشرق فتح پا سکتا ہے نہ مغرب۔
مشرق و مغرب کو یقینا تمثٰیل کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ اصل تو ایمان، و نظریات ہیں جہاں پنپ جائیں وہی جگہ قابل تعریف و تقلید ہو جائے گی۔
اور اتنی مفصل بات کرنے کا شکریہ
 
اصل بات یہ ہے کہ یہ احساسِ کمتری کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔ پہلے مجھے ان پر غصہ آتا تھا اب ترس آتا۔
ایسے پڑھے لکھے جاہل آپ کو ہر جگہ مل جائیں گے حتی کہ یہاں بھی :)
لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کی کوشش کرنا ایسے نفسیاتی مریضوں کی مخصوص علامت ہے۔ چاہے منفی طور پر ہی کیوں نہ ہو۔
یعنی کہ
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
کسی فورم میں تجربے کے طور پہ ان کے مراسلات پر دی گئی منفی ریٹنگز کو لے کر ان کی کھلی ہوئی باچھیں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
جی آپ نے بالکل درست فرمایا کچھ ایسا ہی رویہ ہے ۔۔
اور کسی بات سے دکھ نہیں ہوتا ان کے غیر اخلاقی حملوں کو لے کر مسلمانوں کے مدافعانہ رویے کو دیکھ کر دل بہت دکھتا ہے۔۔
شرمندہ وہ ہو جو باطل پہ ہو حق کی پیروی کرنے والے کو بات ڈنکے کی چوٹ پہ کرنی چاہیے۔
حدیث دلبری بیباکانہ گفتم ۔۔۔۔ کی مثل
 
کیا کیجے فلسفہ کی ہمیں کچھ خاص سمجھ بوجھ نہیں۔
آپ کم از کم ایک ہفتہ منتخب افراد پربرہنہ و فربہ گالیوں کی بلا تفریقِ رنگ و نسل مشق کیجیے۔گالی کا فلسفہ تو انشاءاللہ سمجھ میں آ جائے گا۔ اور یہ سمجھ میں آ گیا تو کسی اور حکمت کی ضرورت ہی نہیں!
 
آپ کم از کم ایک ہفتہ منتخب افراد پربرہنہ و فربہ گالیوں کی بلا تفریقِ رنگ و نسل مشق کیجیے۔گالی کا فلسفہ تو انشاءاللہ سمجھ میں آ جائے گا۔ اور یہ سمجھ میں آ گیا تو کسی اور حکمت کی ضرورت ہی نہیں!
اس فلسفہ کی کچھ سمجھ ابھی سے آرہی ہے۔۔آپ کے صائب مشورے سے بدن میں جھرجھری سے ہونے لگی ہے۔۔
 
Top