عاطف بٹ
محفلین
جالب کی بیسویں برسی، ایک ذاتی حوالہ
شاہد ملک
عزیز و اقارب کو ائیر پورٹ سے لانے لے جانے کے منظر میں مجھے ان خوش باش مسافروں پر رشک آتا ہے جو قلی اور ٹرالی سے بے نیاز ہو کر اپنے غیر ملکی ساخت کے دو دو وزنی پہیہ دار بکس مزے سے کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ رشک کی وجہ ان کی حرکت کی روانی نہیں، بیگیج کی فراوانی ہوتی ہے۔ پھر یہ حیرت بھی کہ وطن پہنچتے ہوئے ان بکسوں میں جو ’سامان سو برس کا‘ بھرا ہوا تھا، واپسی پر اس سے زیادہ مقدار میں کپڑے، جوتے اور دیگر ملبوسات ائیر لائن کو فالتو کرایہ مانگنے کی دعوت دے رہے ہوں گے۔ منفرد کرکٹ کمنٹیٹر اور صحافی عمر قریشی مرحوم نے، جو ’باکمال لوگ، لاجواب پرواز‘ کے دور میں پی آئی اے کے ڈائرکٹر تعلقات عامہ بھی رہے، ایک بار ایسی ہی آزمائش سے گزر نے کے بعد ہر طرح کا مادی اور ذہنی بوجھ ہمیشہ کے لئے اتار پھینکنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔فالتو مال برداری یا بے سروسامانی کے یہ متضاد رویے جگہ جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ آپ اسے تقوے کا غرور کہہ لیں یا کچھ اور، لیکن ایک مدت سے خود مجھے بھی دوران سفر ہلکی ’اڈاری مارنے‘ کا شوق ہے۔ پہلی بار ولائت جاتے ہوئے، سٹیٹ بینک کی ہدایات کے عین مطابق، صرف تیس ڈالر کا زاد راہ ساتھ لیا اور دو مقامات پر سٹاپ اوور میں چائے پانی پہ کچھ خرچہ کرنے کے بعد جب لندن اترے تو کل ملا کر جیب میں ساڑھے بارہ پاﺅنڈ اور برٹش کونسل کا تعارفی خط تھا، جن کا نمائندہ مجھے لینے کے لئے اس رات ہیتھرو پہنچنا بھول ہی گیا۔ پندرہ سال بعد نئی دہلی میں یوم پاکستان کی تقریب کا اچانک دعوت نامہ ملنے پر ٹائی سوٹ یا قومی لباس کی پابندی کے بغیر ہائی کمیشن پہنچنے والا واحد مہمان میں ہی تھا جو اپنے حلیہ کی وجہ سے کانگریسی لیڈروں سے بھی زیادہ توجہ کا مرکز بنا رہا۔
ایسے آزاد منش انسانوں کو اثاثے بنانے کی مہلت کم ملتی ہے، اور ملے بھی تو اپنی ’جماندرو‘ کاہلی کے باعث اس پہ توجہ نہیں دیتے۔ پھر بھی اکثر گھروں کی طرح ہماری الماریوں میں متروکہ ٹیبل فین، کمپیوٹر اور بجلی کے کچھ ناقابل فہم سے آلات کے علاوہ کونوں کھدروں میں ایسے پرانے کپڑے، بوسیدہ جوتے اور گھسا پٹا سامان آرائش بھی مل جائے گا جس کی افادیت تو سمجھ میں نہیں آتی، مگر مقتدر حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کسی کو دے دیا گیا تو وفاق اور کمزور ہو جائے گا۔ اس کے برعکس میری یادوں کا خزینہ جن نوادرات سے بھرا ہوا ہے، اس میں سے اکثر تصویریں، اخباری تراشے اور تعریفی اسناد (تعلیمی نہیں!) گم کر چکا ہوں۔ ہاں، حبیب جالب کی بیسویں برسی پر اپنے اس پروگرام کی کیسٹ ہاتھ لگ گئی جو مارچ 1993ء میں جالب کی خبر کے ڈیڑھ گھنٹے بعد نشر ہوا۔
آغاز ہے جالب کی صوتی جھلک سے ’ہم نے جو بھول کے بھی شہ کا قصیدہ نہ لکھا‘۔ اس شعر کے پس منظر میں میری صدا ابھر رہی ہے ’یہ تھا اناالحق کا وہ نعرہ جو 1960ء کے عشرے میں احتجاج کی مؤثر اور گمبھیر آواز بن کر گونجا اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ ایک انقلابی شاعر نے مایوسی کے عالم میں کہا تھا کہ ’لفظ بندوق نہیں ہوتے‘ لیکن یہ ماننا ہی پڑے گا کہ اگر کسی ہم عصر شاعر کے کلام میں جبر و استبداد کے ایوانوں کو لرزہ بر اندام کر دینے کی طاقت تھی تو وہ صرف حبیب جالب ہے۔ اب سے پینسٹھ برس پہلے مشرقی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقہ میں صوفی عنائت اللہ کے ہاں پیدا ہونے والا حبیب احمد ’عہد ستم‘ کے ’مہ و سال‘ میں ’برگ آوارہ‘ کا پیچھا کرتے ہوئے ’سر مقتل‘ کیسے پہنچ گیا؟ ۔۔۔ اس کے بعد سوال کا مختصر سا جواب ہے۔
یہ جواب حبیب جالب کے ساتھی اور معروف دانشور پروفیسر امین مغل نے دیا جو اس کے لئے میری ’نیچرل چوائس‘ بنے۔ ایک فوری وجہ تو ان کی دستیابی تھی کہ جنرل ضیاءالحق کے زریں عہد میں شاہی قلعہ میں تواضع کے بعد برطانیہ جو گئے ہیں تو آج تیس سال ہو جانے پہ بھی وطن لوٹنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت قائم ہونے کے بعد منفرد کالم نویس منو بھائی کی لندن دیکھنے کی ’بچپن‘ کی خواہش ’پچپن‘ میں پوری ہوئی تو انہوں نے امین صاحب کو ایک سفید ریش میں ملبوس پا کر کہا تھا کہ اگر آپ چاہیں تو اب ڈی ایچ لارنس کے روپ میں بھی پاکستان جا سکتے ہیں جہاں اشفاق احمد ارنسٹ ہیمنگوے بنے ہوئے ہیں۔ ان شخصیات کے حوالے سے منو بھائی نے ڈاڑھی کے پیچھے ’روپوشی‘ اور ’رونمائی‘ کے بارے میں بھی ایک اشارہ دیا، جسے دہرانے کا یہ موقع نہیں۔
حبیب جالب کے بارے میں پروفیسر امین مغل سے کچھ کہنے کی فرمائش صرف لندن میں ان کی قرب مکانی کے سبب نہیں بلکہ اس انقلابی شاعر کے ساتھ ان کی دیرینہ ذاتی اور سیاسی قربت کی بدولت تھی۔ جالب کا تعزیت نامہ لکھتے ہوئے میرے کانوں میں منو بھائی کی ’چادر جنرل رانی دی تے چار دیواری جالب دی‘ تو گونج ہی رہی تھی۔ ساتھ ہی میری آنکھوں میں اسلامیہ کالج، سول لائیز میں امین صاحب کی ’پھڈے بازی‘، صاحب طرز ایڈیٹر مظہر علی کے ’ویو پوائینٹ‘ والے دفتر میں ’گھس بیٹھیا‘ طرز کی ملاقات اور سیالکوٹ میں طالب علمی کے دوران نیشنل عوامی پارٹی کے دفتر کی افتتاحی تقریب کے مناظر بھی گھومنے لگے جہاں پہلی بار اس پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری امین مغل اور مقبول ترین عوامی شاعر حبیب جالب کو ایک ساتھ ہی دیکھا اور سنا تھا۔ دونوں سماج، سیاست اور معاشی نظام کے باغی، مگر ایک سرتاپا نثر، دوسرا مجسم نغمہ۔
صحافت ادب کی ایک قسم ہے جس کی تخلیق جلد بازی میں ہوتی ہے۔ ریڈیو جرنلزم میں ضروری ہے کہ حقائق تو درست ہوں الفاظ، جملے اور لب و لہجہ ایسا کہ دو ٹوک سچائی کو سنتے ہی سمجھ جانا عام آدمی کے لئے مسئلہ نہ بن جائے۔ سو، کبھی اختصار برتتے ہیں، کہیں تفصیل ہوتی ہے، اسی طرح متن کے ڈھانچے میں حرکت کا احساس دلانا بھی ضروری ہے اور آوازوں کی ترتیب میں بھی ایک فرحت بخش توازن۔ یوں کہہ لیں کہ نشریاتی صحافی بھی اخبار جیسی ’پیج میکنگ‘ کرتا ہے مگر ریڈیو کی ’لے آﺅٹ‘ کاغذ یا سکرین پہ نہیں، ہوا میں بنتی ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں ’سر مقتل‘ کی ضبطی، ’صبح بے نور‘ کے اشعار، مادر ملت کی وفات پر ’اب رہیں چین سے دنیا میں زمانے والے‘ اور ذوالفقار علی بھٹو کے استعفے پہ ’چھوڑ کر نہ جا‘ ۔۔۔ یہ سب تو یاد تھا، لیکن اپنے قلم برداشتہ مسودہ کے لئے آوازوں کا تنوع کہاں سے لاﺅں۔
آزمائش کے اس لمحہ میں میرے سینئر ساتھی اور ’گرو‘ رضا علی عابدی روایتی زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے اور اپنی الماری کو چابی لگانے کے بعد یہ جانتے ہوئے حبیب جالب کی ریکارڈنگ میری میز پہ رکھ دی کہ گہری ادراکی اور جذباتی وابستگی کی بناء پر اس انقلابی شاعر کی آبچری تو یہی کارکن کرے گا۔ دراصل، یہ ٹیم سپرٹ اور ’لج پالی‘ کے کھیل ہیں، ورنہ عابدی صاحب نے چار سال پہلے ’حرف سر دار‘ کی رونمائی پر جالب کی نظم و نثر کے یہ مسحور کن ٹکڑے دفتری ڈیوٹی سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے شوق سے ذاتی ذخیرے کے لئے جمع کئے تھے۔ اس تقریب میں ایک اردو شناس سکھ بزرگ کے ہاتھ میں مجموعے کا نسخہ دیکھ کر جالب نے یہ کہہ کر حاضرین کو لوٹ پوٹ کر دیا کہ ’سردار جی، آپ خوش تو ہیں مگر عنوان میں ’سر‘ اور ’دار‘ الگ الگ ہیں، اسے ’سردار‘ نہ پڑھئے۔
حبیب جالب کی بے تکلف گفتگو، چھوٹے چھوٹے چٹکلوں اور بے پناہ ترنم کی بدولت مجھے تیار شدہ مال دیکھ کر خود یہ لگا کہ میں ریڈیو پروگرام کی کیاری میں پلاسٹک کے جو گل بوٹے بو رہا تھا، ان میں سچ مچ کے پھول کھل اٹھے ہیں، لیکن حرف و آواز کی اس کھیتی میں کہیں کہیں میری ’کھرپا کاری‘ کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ نمونہء کلام ملاحظہ ہو ’شعر و سخن کی دکانیں سجا کر مصلحت اور مفاد کا سودا بیچنے والے ادبی آڑھتی لاکھ کہتے رہیں کہ فن کے ذریعہ کائنات کی خوبصورتی میں اضافہ کرنا ہی شاعر اور ادیب کا بنیادی وظیفہ ہے۔ لیکن کیا اس سے بھی اہم فریضہ یہ نہیں کہ کھل کر سچ بولا جائے اور سچ لکھا جائے؟ اور اگر سچ بد صورت ہو تو اس میں شاعر کا کیا قصور۔ وہ تو ’ظلمت کو ضیا، سر سر کو صبا، بندے کو خدا‘ لکھنے سے انکار کرتا ہی رہے گا‘۔
طبیعت نے اس دن کچھ اور جولانیاں بھی دکھائیں۔ مثال کے طور پہ ’ایک بار فیض احمد فیض کا ذکر کرتے ہوئے جالب کی زبان سے یہ لفظ نکلے کہ ’فیض کا انقلاب سکاچ وہسکی ہے اور میرا انقلاب ٹھرا ہے‘۔ یہ در اصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ حبیب جالب کا تعلق زندگی بھر معاشرے کے اس طبقے سے رہا جس کے ہاں مئے ایام کی تلخی کا ذکر محض تکلفاً نہیں آتا۔ اس کی اپنی زندگی اسی تلخی سے عبارت تھی، او ر ایوب خان سے لے کر جنرل ضیاءالحق کے عہد حکومت تک قید و ببند کی صعوبتوں سے پیدا ہونے والے معاشی مسائل، خانگی مشکلات اور کسی حد تک جسمانی عوارض اس کے تخلیقی وجود کا مستقل حصہ بن گئے تھے‘۔
عمومی تائید و پسندیدگی کے باوجود اردو سیکشن کے کہنہ مشق ’سرخے‘ محمد غیور نے اگلی ٹرانسمیشن میں فیض صاحب کا حوالہ حذف کر دینے کا مشورہ دیا تھا۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے یہ بات نہ مان کر ایک ایسے دوست کی نافرمانی کی جو اب دنیا میں نہیں۔ خیر، اس دوران ایک جگہ حبیب جالب کے اس جملے پر خود فیض کا یہ تبصرہ پڑھنے کو مل گیا کہ ’بھئی، کہتا تو وہ ٹھیک ہی ہے‘۔ اب چھوٹا منہ بڑی بات۔ رجحان ساز تخلیق کاری، پرانے الفاظ کو نئے معنی پہنانا اور سیاسی موضوعات کے لئے محبت کی علامتیں، یہ کوئی معمولی کام تو نہیں، لیکن کبھی کبھی لائبریریوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ماحول کے مقابلے میں کھیتوں کھلیانوں، کارخانوں اور گلی بازاروں کی پر کیف فضائیں بھی شعری پیرائیوں میں ڈھل جائیں تو یہ بھی بڑا ادب ہے۔ اس کی سند چاہیں تو فیض کے ’زنداں نامہ‘ میں سجاد ظہیر کا تعارفی مضمون کافی ہے۔