محمد علم اللہ
محفلین
غزل
اس کی تصویر ہم کو دکھا دی گئی
کیا مزے کی ہمیں یہ سزا دی گئی
جس کے سائے میں میری جوانی کٹی
آج دیوار وہ بھی گرا دی گئی
اس کی باتیں سناتا رہا مجھ کو غیر
زخمِ کاری لگا کر دوا دی گئی
قیدخانے کی رونق مرے دم سے تھی
"قید کی اور مدت بڑھا دی گئی"
ہوش میں صبح سے گرچہ بیٹھا تھا میں
شام یادوں کی مے سی پلا دی گئی
تیرا عاشق تھا لیکن میں پاگل نہ تھا
بے وجہ ہی کہانی بڑھا دی گئی
تا قیامت علم نہ تڑپتا رہے
اِس لئے اُس کو سولی چڑھا دی گئی