جامعہ کا اردو اسکول اب انگلش میڈیم

قارئین اس پر اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں ۔گرچہ یہ ہندوستانی پس منظر میں ہے لیکن میں چاہوں گا کہ اردو محفل کے قاری چاہے وہ کہیں سے بھی تعلق رکھتے ہوں اس میں اپنی بے لاگ رائے کا ظہار کریں ۔
۔کیا اس سے جامعہ کے مقصد کو زک پہونچنے کا اندیشہ ہے؟
۔کیا شیخ الجامعہ کا یہ فیصلہ غلط ہے؟
۔کیا اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اس ترقی یافتہ دور میں ہمارے بچے کمپٹیشن اور دیگر امتحانات میں محض اردو کے بل بوتے پر کامیاب ہوجاتے؟
یا اور کچھ بھی جو اس خبر کو پڑھنے کے بعد آپ کے ذہن میں آئے ۔میری خواہش ہوگی کہ آپ اس میں اپنی رائے شیر کریں۔

1311515.JPG
 

حسان خان

لائبریرین
دعا ہے کہ یہ انگریزی میڈیم اسکول صرف انگریزی زبان کی تعلیم و ابلاغ کا ذریعہ ہی بنے، بچوں کو اپنی تہذیبی اصل سے محروم کر کے اُنہیں یورپیوں کے رنگ میں نہ رنگ دے۔
 

شوکت پرویز

محفلین
ماہرین تعلیم کے مطابق بچّوں کو ان کی مادری زبان ہی میں تعلیم دی جانی چاہئے، کیونکہ اس سے بچّے موضوع کو بآسانی سمجھ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس کسی اور زبان میں تعلیم دی جاتی ہے تو بچّوں پر اضافی بوجھ بن جاتا ہے اور بچّے بنیادی اور اصولی باتیں ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے۔

اور آج کے اس مسابقت بھرے ماحول میں انسان کا کامیاب ہونا صرف اس کی زبان پر منحصر نہیں ہوتا۔
اس معاملہ میں زبان کے علاوہ بھی بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔
جیسے اس شخص کا اپنی فیلڈ کے متعلق علم، اس کی محنت، اس کا پروفیشنلزم، اس کا رویّہ (ایٹی ٹیوڈ)، عام معلومات (کرنٹ افیرز) وغیرہم۔

رہی بات اردو میڈیم یا انگریزی میڈیم کی، تو:
ایسے بہت سے انگریزی میڈیم کے بچّے ہیں جو "کامیاب" نہیں ہو پاتے
اور ایسے بہت سے اردو میڈیم (یا دوسرے ورناکلر میڈیم) کے بچّے ہیں جو "کامیاب" ہو جاتے ہیں۔۔ (الحمد للہ)۔۔۔

مزید کچھ:
دنیا میں اکثر جگہوں پر انسان دو لسانی (بلکہ کثیر لسانی) ہوتا ہے۔۔۔
آپ عرب خطہّ میں دیکھیں تو وہاں کے کئی لوگ عربی، انگریزی (اور اب تو اردو، ہندی) بھی بآسانی سمجھ لیتے ہیں۔
شام، لبنان (اور فرانس کی نو آبادیات رہ چکے ممالک کا) تعلیم یافتہ طبقہ بآسانی عربی، فرنچ، اور انگریزی میں گفتگو کر لیتا ہے۔
یوروپی ممالک کا اکثر تعلیم یافتہ طبقہ اپنی قومی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی مہارت رکھتا ہے۔۔۔
ہم برّصغیر میں رہتے ہیں تو آئیے ہندوستان کی مثال بھی دیکھ لیں،
اکثر ہندوستانی اپنی مادری زبان (جہاں مادری زبان ہندی نہیں) کے ساتھ ساتھ ہندی بآسانی سمجھ بول لیتے ہیں-
ہم اگر خود اعتمادی کے ساتھ انگریزی زبان کا استعمال کرنے لگیں گے تو ہم (انشاء اللہ) اس میں بھی مہارت حاصل کر لیں گے۔

نچوڑ:
ابتدائی تعلیم مادری زبان ہی میں ہونی چاہئے، لیکن دھیرے دھیرے دوسری زبانیں بھی سیکھنی چاہئے۔ اور ایک مسلمان کو خاص طور پر عربی تو ضرور سیکھنی چاہئے۔۔۔

مراسلہ کی طوالت کے لئے معذرت خواہ ہوں۔۔
 

شوکت پرویز

محفلین
دعا ہے کہ یہ انگریزی میڈیم اسکول صرف انگریزی زبان کی تعلیم و ابلاغ کا ذریعہ ہی بنے، بچوں کو اپنی تہذیبی اصل سے محروم کر کے اُنہیں یورپیوں کے رنگ میں نہ رنگ دے۔
متفق۔۔
مجھ خاکسار کا ایک شعر
تعلیم اور زبان تلک ٹھیک ہے مگر
شوکت کبھی نہ سیکھنا فیشن فرنگ کا
 

قیصرانی

لائبریرین
کافی معلومات پوسٹ ہے لیکن بہت ساری باتیں تشنہ ہیں۔ مثلاً جامعہ ملیہ اسلامیہ کیا ایک یورنیورسٹی ہے یا کیا۔ پھر ان کے وائس چانسلر نے ایک مڈل سکول کے بارے کیسے فیصلہ کیا۔ بورڈ آف گورنرز میں یہ فیصلے ہوتے ہیں اور اس طرح کے سکول اور یونیورسٹی ایک دوسرے اس طرح جڑے نہیں ہوتے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ایک مڈل سکول کے بارے فیصلہ کرتے رہیں۔ تاہم فرنیچر، تعلیم، کھانے اور دیگر امور کے بارے فیصلہ کافی انقلابی لگ رہا ہے
 
کافی معلومات پوسٹ ہے لیکن بہت ساری باتیں تشنہ ہیں۔
مثلاً جامعہ ملیہ اسلامیہ کیا ایک یورنیورسٹی ہے یا کیا۔
پھر ان کے وائس چانسلر نے ایک مڈل سکول کے بارے کیسے فیصلہ کیا۔
بورڈ آف گورنرز میں یہ فیصلے ہوتے ہیں اور اس طرح کے سکول اور یونیورسٹی ایک دوسرے اس طرح جڑے نہیں ہوتے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ایک مڈل سکول کے بارے فیصلہ کرتے رہیں۔
تاہم فرنیچر، تعلیم، کھانے اور دیگر امور کے بارے فیصلہ کافی انقلابی لگ رہا ہے
قیصرانی بھائی جان
جی جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک یونیورسٹی ہے جس کے بانی مولانا محمد علی جوہر تھے ۔اسکول اسی کے تحت چلتا ہے ۔میں نے جہاں تک سنا ہے اس کا قیام مادری زبان میں تعلیم کی خاطر عمل میں آیا تھا ۔اس لئے کہ علی گڈھ کی ذریعہ زبان انگریزی تھی اور علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی مخالفت کی تھی کی تعلیم مادری زبان یعنی اردو میں ہونی چاہئے ۔جسکی حمایت گاندھی جی نے کی تھی اور اس کو تحریک کی شکل دینے والوں میں حکیم اجمل خان،مختار انصاری،خواجہ عبد الحمید رحمہم اللہ وغیرہم تھے ۔رسم تاسیس شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب کے ہاتھوں رکھی گئی تھی ۔قابل ذکر ہے کہ یہ پہلے اسکول کی شکل میں ہی قائم ہوا تھا بعد میں برگ و بار لانے اور ترقی کرتے ہوئے اسی اسکول نے ایک یونیورسٹی کی شکل لی ۔اس کا نام جامعہ ملیہ اسلامیہ تشکیل پایا ۔اسی یونیورسٹی کے زیر انتظام اب اسکول بھی چلتے ہیں ۔اسکے پرنسپل وغیرہ سب ہوتے ہیں لیکن ذمہ دار اعلی کی حیثیت بہر حال شیخ الجامعہ کی ہی ہوتی ہے ۔

کچھ معلومات آپ کو اس ربط میں بھی مل جائے گاجسے کبھی ابن سعید بھائی نے پوسٹ کیا تھا ۔سرچ کے دوران ابھی مجھے ملا ہے۔

انتباہ:مزیدکے لئے اسے بھی دیکھ سکتے ہیں لیکن اس میں ایک دو جگہ غلط معلومات ہیں۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
قارئین اس پر اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں ۔گرچہ یہ ہندوستانی پس منظر میں ہے لیکن میں چاہوں گا کہ اردو محفل کے قاری چاہے وہ کہیں سے بھی تعلق رکھتے ہوں اس میں اپنی بے لاگ رائے کا ظہار کریں ۔
۔کیا اس سے جامعہ کے مقصد کو زک پہونچنے کا اندیشہ ہے؟
۔کیا شیخ الجامعہ کا یہ فیصلہ غلط ہے؟
۔کیا اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اس ترقی یافتہ دور میں ہمارے بچے کمپٹیشن اور دیگر امتحانات میں محض اردو کے بل بوتے پر کامیاب ہوجاتے؟
یا اور کچھ بھی جو اس خبر کو پڑھنے کے بعد آپ کے ذہن میں آئے ۔میری خواہش ہوگی کہ آپ اس میں اپنی رائے شیر کریں۔

1311515.JPG
علم اللہ اصلاحی صاحب ! یہ تو وہ کام ہے جو اسمِ با مسمیٰ ہونے کے ناطےآپ کو کرنا چاہیے تھا۔ یہی تو وقت کا تقاضا ہے۔
مصطفیٰ کمال اتاترک کی طرح وقت کی نبض کو پہچانیے۔
جس طرح مصطفیٰ کمال اتاترک نے ترکی زبان کا رسم الخط یکسر تبدیل کر دیا تھا۔
جن تقاضوں کے تحت حضور نبی کریم ﷺ نے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو تبلیغ دین کی غرض سے عجمی زبانیں سیکھنے کی نہ صرف اجازت بلکہ حکم فرمایا تھا۔
انگریزی زبان کی روزافزوں بڑھتی ہوئی مقبولیت، انٹر نیٹ، کمپیوٹر، سائنس کے میدانوں میں انگریزی کی مقبولیت، اور انگریزی کے سبب پیدا ہونے والی آسانیاں، آپ کس کس
سے منہ موڑیں گے، کس کس کی اہمیت کا انکار کریں گے۔
ہمارے اردو اسکول کے اطراف جو مسلمان آباد ہیں انہوں نے یہ محسوس کیا کہ انڈیا میں تلاش معاش میں اردو کی تعلیم رکاوٹ بنتی ہے، لہٰذا انہوں نے اپنے بچے، بچیوں کو
گجراتی، انگریزی اور ہندی اسکولوں میں داخل کرنا شروع کر دیا۔ ہم نے اس کا یہ حل نکالا کہ ہم اردو اسکول میں ہی بچوں کو گجراتی ہندی کی بھی تعلیم دینے لگے۔ ہمارے
اسکول میں پھر بہار آ گئی۔ بچوں کی تعداد پھر بڑھ گئی۔ کچھ عجب نہیں کہ دہلی کے والدین نے بھی اپنے بچوں کو بجائے اردو کے انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں بھیجنا شروع
کر دیا ہو، اور شیخ الجامعہ نے وقت کی نبض کو پہچانتے ہوئے جامعہ کے اردو اسکول ہی میں ہماری ہی طرح انگریزی تعلیم کا با قاعدہ انتظام کر دیا ہو، جو کام ہم نے حکومت کی
مرضی کے خلاف غیر قانونی طور پر کیا وہی کام شیخ الجامعہ نے قانونی طور پر با قاعدہ کر دیا ، تو کیا غلط کیا؟ کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
 
علم اللہ اصلاحی صاحب ! یہ تو وہ کام ہے جو اسمِ با مسمیٰ ہونے کے ناطےآپ کو کرنا چاہیے تھا۔ یہی تو وقت کا تقاضا ہے۔مصطفیٰ کمال اتاترک کی طرح وقت کی نبض کو پہچانیے۔جس طرح مصطفیٰ کمال اتاترک نے ترکی زبان کا رسم الخط یکسر تبدیل کر دیا تھا۔جن تقاضوں کے تحت حضور نبی کریم ﷺ نے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو تبلیغ دین کی غرض سے عجمی زبانیں سیکھنے کی نہ صرف اجازت بلکہ حکم فرمایا تھا۔انگریزی زبان کی روزافزوں بڑھتی ہوئی مقبولیت، انٹر نیٹ، کمپیوٹر، سائنس کے میدانوں میں انگریزی کی مقبولیت، اور انگریزی کے سبب پیدا ہونے والی آسانیاں، آپ کس کسسے منہ موڑیں گے، کس کس کی اہمیت کا انکار کریں گے۔ہمارے اردو اسکول کے اطراف جو مسلمان آباد ہیں انہوں نے یہ محسوس کیا کہ انڈیا میں تلاش معاش میں اردو کی تعلیم رکاوٹ بنتی ہے، لہٰذا انہوں نے اپنے بچے، بچیوں کوگجراتی، انگریزی اور ہندی اسکولوں میں داخل کرنا شروع کر دیا۔ ہم نے اس کا یہ حل نکالا کہ ہم اردو اسکول میں ہی بچوں کو گجراتی ہندی کی بھی تعلیم دینے لگے۔ ہمارےاسکول میں پھر بہار آ گئی۔ بچوں کی تعداد پھر بڑھ گئی۔ کچھ عجب نہیں کہ دہلی کے والدین نے بھی اپنے بچوں کو بجائے اردو کے انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں بھیجنا شروعکر دیا ہو، اور شیخ الجامعہ نے وقت کی نبض کو پہچانتے ہوئے جامعہ کے اردو اسکول ہی میں ہماری ہی طرح انگریزی تعلیم کا با قاعدہ انتظام کر دیا ہو، جو کام ہم نے حکومت کیمرضی کے خلاف غیر قانونی طور پر کیا وہی کام شیخ الجامعہ نے قانونی طور پر با قاعدہ کر دیا ، تو کیا غلط کیا؟ کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔

بھائی ہم نے کب کہا غلط ہم تو اس فیصلہ کو سب سے پہلے استقبال کرنے والوں میں سے ہیں ۔میں تو محض اس سلسلہ میں لوگوں کی آرائ جاننا چاہ رہا تھا ۔آپ کو پتہ نہیں اس شیخ الجامعہ کے اس اقدام کو لیکر خود ساختہ محبین اردو کس قدر اودھم مچائے ہوئے ہیں ۔میرے خیال میں یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا ۔لیکن چلئے دیر میں ہوا سہی اچھا فیصلہ ہوا ہے میرے خیال میں ۔
میں خود محض اردو کی وجہ سے بہت پریشانی جھیل چکا ہوں ۔لیکن اللہ کا شکر ہے جیسے ہی اس سے باہر نکلا یا نکلنے کی کوشش کی ایک ایسے ادارہ میں ایسا کورس کر رہا ہوں جو پورے ایشیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے ۔میں دعوے کے ساتھ کہ سکتا ہوں محض اردو کا دم چھلا لگائے پھرتا تو یہ کامیابی کبھی نہیں ملتی ۔اردو اخباروں میں میں کام کر چکا ہوں ۔اتنے چور اچکے ،ٹھگ ،ڈاکو اور حرام خور میں نے کہیں نہیں دیکھے ۔
جو لوگ اردو میڈیم اسکولوں کی بات کرتے ہیں یا جو اردو کے پروفیسران اردو زریعہ زبان کو ضروری قرار دیتے ہیں ان کے بچے خود کنونٹ ، ڈی اے وی اور مشنری کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں ۔اس وقت ان کی اردو کی محبت کہاں ختم ہو جاتی ہے ۔ایسے ہی لوگ اسکی مخالفت کرنے والوں میں ہیں ۔انشائ اللہ میں جلد ہی اس کے اوپر ایک مضمون بھی لکھوں گا جس میں ان ساروں کے کچے چٹھے کھولوں گا ۔
پھر جامعہ اسکول جب اردو میڈیم تھا تب بھی اس نے کون سا پہاڑ توڑ دیا تھا ۔کتابیں اردو میں دستیاب نہیں ۔اردو کے اساتذہ تربیت یافتہ نہیں ۔کس کی کمی ہے ۔بچے صحیح ڈھنگ سے ایک شعر کی تشریح نہیں کر سکتے ۔میں نے بہت سے جامعہ کے بچوں کو دیکھا ہے ۔اب اگر بہت زیادہ نہ سہی تب بھی تبدیلی کے امکانات تو بہر حال ہیں ۔
انڈیا میں جتنے بھی کمپٹیشن ہوتے ہیں وہ سب کے سب انگلش یا ہندی میں ہمارے بچے اردو بیک گراونڈ کے ہونے کے سبب یہیں مار کھا جاتے ہیں ۔میں نے کئی بچوں کو زبردستی فارم بھروایا کئی کمپٹیشن کے لیکن وہ آ کر کہنے لگے بھائی پیپر تو انگریزی میں تھا کیسے حل کرتا ۔بہت سارے بچے اسی لئے اس طرح کے کمپٹیشن یا ملازمت کے لئے فارم ہی نہیں اپلائی کرتے ۔بات کرنے کے لئے بہت کچھ ہے کس کس کا رونا رووں ۔مارے یہاں ہندوستان میں اردو والوں کا جو رویہ ہے میں خود اس سے دلبر داشتہ ہوں ۔میری خود بھی ایک معیاری انگلش میڈیم اسکول کھولنے کی خواہش ہے ۔دعا کیجئے کہ اللہ کامیابی عطا کرے ۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
بھائی ہم نے کب کہا غلط ہم تو اس فیصلہ کو سب سے پہلے استقبال کرنے والوں میں سے ہیں ۔میں تو محض اس سلسلہ میں لوگوں کی آرائ جاننا چاہ رہا تھا ۔آپ کو پتہ نہیں اس شیخ الجامعہ کے اس اقدام کو لیکر خود ساختہ محبین اردو کس قدر اودھم مچائے ہوئے ہیں ۔میرے خیال میں یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا ۔لیکن چلئے دیر میں ہوا سہی اچھا فیصلہ ہوا ہے میرے خیال میں ۔
میں خود محض اردو کی وجہ سے بہت پریشانی جھیل چکا ہوں ۔لیکن اللہ کا شکر ہے جیسے ہی اس سے باہر نکلا یا نکلنے کی کوشش کی ایک ایسے ادارہ میں ایسا کورس کر رہا ہوں جو پورے ایشیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے ۔میں دعوے کے ساتھ کہ سکتا ہوں محض اردو کا دم چھلا لگائے پھرتا تو یہ کامیابی کبھی نہیں ملتی ۔اردو اخباروں میں میں کام کر چکا ہوں ۔اتنے چور اچکے ،ٹھگ ،ڈاکو اور حرام خور میں نے کہیں نہیں دیکھے ۔
جو لوگ اردو میڈیم اسکولوں کی بات کرتے ہیں یا جو اردو کے پروفیسران اردو زریعہ زبان کو ضروری قرار دیتے ہیں ان کے بچے خود کنونٹ ، ڈی اے وی اور مشنری کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں ۔اس وقت ان کی اردو کی محبت کہاں ختم ہو جاتی ہے ۔ایسے ہی لوگ اسکی مخالفت کرنے والوں میں ہیں ۔انشائ اللہ میں جلد ہی اس کے اوپر ایک مضمون بھی لکھوں گا جس میں ان ساروں کے کچے چٹھے کھولوں گا ۔
پھر جامعہ اسکول جب اردو میڈیم تھا تب بھی اس نے کون سا پہاڑ توڑ دیا تھا ۔کتابیں اردو میں دستیاب نہیں ۔اردو کے اساتذہ تربیت یافتہ نہیں ۔کس کی کمی ہے ۔بچے صحیح ڈھنگ سے ایک شعر کی تشریح نہیں کر سکتے ۔میں نے بہت سے جامعہ کے بچوں کو دیکھا ہے ۔اب اگر بہت زیادہ نہ سہی تب بھی تبدیلی کے امکانات تو بہر حال ہیں ۔
انڈیا میں جتنے بھی کمپٹیشن ہوتے ہیں وہ سب کے سب انگلش یا ہندی میں ہمارے بچے اردو بیک گراونڈ کے ہونے کے سبب یہیں مار کھا جاتے ہیں ۔میں نے کئی بچوں کو زبردستی فارم بھروایا کئی کمپٹیشن کے لیکن وہ آ کر کہنے لگے بھائی پیپر تو انگریزی میں تھا کیسے حل کرتا ۔بہت سارے بچے اسی لئے اس طرح کے کمپٹیشن یا ملازمت کے لئے فارم ہی نہیں اپلائی کرتے ۔بات کرنے کے لئے بہت کچھ ہے کس کس کا رونا رووں ۔مارے یہاں ہندوستان میں اردو والوں کا جو رویہ ہے میں خود اس سے دلبر داشتہ ہوں ۔میری خود بھی ایک معیاری انگلش میڈیم اسکول کھولنے کی خواہش ہے ۔دعا کیجئے کہ اللہ کامیابی عطا کرے ۔
میرے بھائی علم اللہ ! اللہ پاک سے اِتا سارا علم لے کر بھی آپ بلا وجہ مجھ غریب پر ناراض ہو رہے ہو۔ بھائی آپ نے غالبا میر ا پیغام پوری طرح پڑھا نہیں ، بس کاتا اور لے دوڑی والا معاملہ کیا۔ میں نے تو یہ لکھا تھا:
وہی کام شیخ الجامعہ نے قانونی طور پر با قاعدہ کر دیا ، تو کیا غلط کیا؟ کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
یعنی شیخ الجامعہ نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ اور اُن کے اِس اِقدام سے کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹا۔ دوسرے یہ کہ یہ بات تو آپ اب بتا رہے ہیں کہ :
میری خود بھی ایک معیاری انگلش میڈیم اسکول کھولنے کی خواہش ہے
ہم تو پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ :
علم اللہ اصلاحی صاحب ! یہ تو وہ کام ہے جو اسمِ با مسمیٰ ہونے کے ناطےآپ کو کرنا چاہیے تھا۔
مجھے کیا پتا تھا کہ آپ بھی اس غریب کے جیسی ہی سوچ رکھتے ہیں۔ اور انگلش میڈیم اسکول کھولنے کے خواہش مند ہیں۔ بہر حال خوشی ہوئی کہ آپ وسیع النظر اور وسیع القلب ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو فوز عظیم سے نوازے۔ آمین بجاہ النبی الکریم
پہلے ایک اصطلاح رائج تھی عناصرِثلاثہ the Three Estate کی: یعنی 1۔ زعمائے دین (اکابرِ کلیسا)2۔ امراء(خطاب یافتہ نواب)اور3۔ عوام۔ آج کل یہی اِصطلاح عناصرِ اربعہ The Four Estate کے طور پر رائج ہے جس میں چوتھا عنصر ذرائع ابلاغ کا شامل ہو چکا ہے۔ چونکہ یہ ناچیز بھی ایک گجراتی روزنامہ میں 14 سال تک مدیر معاون Sub Editorکے طور پر کام کر چکا ہے۔ میرے خیال میں آپ کے درد کا با لکل صحیح اندازہ لگا سکتا ہوں۔ دوسرے یہ کہ اردو اساتذہ، پروفیسران، اسکولوں، کالجوں کے منتظمین نے اس قدر پریشان کیا کہ زبان و ادب کے اس طالب علم کو خانقاہوں اور دینی حلقوں کے سوا کہیں پناہ نہ مل سکی۔ کس کس کارونا رویا جائے۔ کس کس کی گزیدگی کا شکوہ کیا جائے۔ ایک طویل داستان ہے۔ آپ کی طرح میرا بھی دِل کر تا ہے ۔ کسی باغی طالب علم کی طرح قلم اُٹھائوں اور قلم برداشتہ لکھتا چلا جائوں، ایک ایک کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دوں۔ لیکن میرے والدین کی تربیت کبھی کبھی میرا ہاتھ روک لیتی ہے۔ جیسے مریدین کہا کرتے ہیں کہ : پیرِ من خس است از من بس است(یعنی میرا پیر خواہ معمولی گھاس سہی لیکن میرے لیے تو وہی کافی ہے۔) اسی طرح والدصاحب فرمایا کرتے تھے: بیٹے آپ کے اساتذہ کیسے بھی ہیں یا کیسے بھی ہوں اُن کے لیے کبھی بُرا نہ سوچنا۔ایک طرف اردو والوں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔بہت پریشان ہوتا ہوں تو کبھی کبھی سر کے بال نوچنے لگتا ہوں۔ لیکن ایسے حالات میں بھی والدِ صاحب مرحوم کی نصیحت تاریک سمندر میں روشنی کا مینارہ ثابت ہوتی ہے ۔اور پھر بے ساختہ زباں پر [ARABIC]اللھم اغفر لی ولوالدی ولاُستاذی۔۔۔۔۔[/ARABIC]کے کلمات رواں ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کو بھی صبر جمیل کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔
 
کیا بات ہے بھائی جان !!
آپ نے تو طبیعت خوش کر دی ۔
بالکل بجا فرمایا آج آپ نے کل یہی اِصطلاح عناصرِ اربعہ The Four Estate کے طور پر رائج ہے جس میں چوتھا عنصر ذرائع ابلاغ کا شامل ہو چکا ہے۔
شاید اسی لئے میں نے ماس کمیونیکیشن کو اپنا پروفیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔حالانکہ اس کورس کا نام سنتے ہی چونکہ اس میں زیادہ تر چیزیں فلم سے ریلیٹڈ ہیں کئی حضرات فورا فتوی دے بیٹھتے ہیں ۔لیکن انشا ئ اللہ اگر طاقت رہی تو ایک دن انھیں لوگوں کی زبان اپنے کام سے بند کروں گا ۔
آپ کے درد کو میں بھی بخوبی سمجھ سکتا ہوں ۔
خیالات جان کر واقعی دلی خوشی ہوئی جسے میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا ۔
بس خدا کے حضور دعاگو ہوں کہ اللہ اپ کو مزید ہمت ،حوصلہ اور طاقت رہے ۔ضرورت پڑنے پر آپ سے بھی مدد کی درخواست کروں گا ۔
آپ کی ذات ہمارے لئے قابل افتخار اور عظیم سرمایہ ہے ۔مجھے بھی ہمت دلاتے رہئے گا ۔
 
Top