جام پہ جام پئے جاتی ہے

جام پہ جام پئے جاتی ہے
رقص کرتی ہے میکدے میں وہ

کوئی موسم کبھی نہیں اترا
جس کی رنگینیوں میں کھو کر وہ
غفلت فرض مے کشی کردے

کوئی پیمانہ آج تک
اس کی
تشنگی کو بجھا نہیں پایا

کوئی گل ہو یا کوئی غنچہ ہو
یا
کسی شاخ کی امیدوں پر
ایک موہوم سی کوئی کونپل
شجر کہنہ ہو
یا
کوئی پودا
جس پہ پہلی بہار اتری ہو

نہ غرض ساغر سے اس کو
نہ وقت سے نہ جگہ سے
روز و شب کے میکدے میں
وہ بلا کی بادہ نوش
جام پہ جام پئے جاتی ہے

(محمد نعیم)
 
Top