محسن وقار علی
محفلین
سیاستدانوں کی نااہلیوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ ابھی بات صرف ڈگریوں کی ہو رہی ہے مگر…
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
پتہ نہیں آج کل اسلم رئیسانی کہاں ہیں اگر کسی کو معلوم ہو تو وہ ان سے ڈگری کے بارے میں پوچھ سکتا ہے کیونکہ ڈگری کے اصلی اور نقلی ہونے کا سب سے زیادہ علم اس ریٹائرڈ ڈی ایس پی اور سابق وزیر اعلیٰ کو ہے۔ الیکشن ہونے میں سوا مہینہ باقی ہے پتہ نہیں سوا مہینے بعد نہانا نصیب بھی ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں۔ نصف سے زائد سابق اراکین اسمبلی کے باہر ہو جانے کی صورت میں ایک نیا پنڈورا بکس کھلنے والا ہے۔ ابھی بہت سے پردہ نشینوں کی نااہلی باقی ہے۔ بینک ڈیفالٹرز، بلوں کی ادائیگی نہ کرنے والے، قبضہ مافیا اور بہت سے دھندوں میں ملوث افراد کے نام سامنے آنے کے بعد بڑے بڑے مگرمچھوں کے والی وارث ضرور متحرک ہوں گے اس تحریک میں اعلیٰ عدالتوں کے دروازوں سے لے کر دھونس دھاندلی سب شامل ہوں گے۔ بچاؤ نہ ہونے کی صورت میں بڑی سیاسی جماعتیں خود کو الیکشن کے عمل سے الگ بھی کر سکتی ہیں مگر یہ علیحدگی آرام سے نہیں ہوگی کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا۔ تلوار جسموں کو نہ بھی چیر سکے تو زمین کا سینہ ضرور چیر دیتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی پارٹی جس نے کم و بیش تمام نگران مرضی کے مسلط کر دیئے ہوں اور اس کے بعد اس کے تین اہم رہنما مخدوم امین فہیم، راجہ پرویز اشرف اور سید یوسف رضا گیلانی نااہل ہو جائیں تو کیا وہ پارٹی چین سے بیٹھے گی جب کہ حقیقت یہ ہو کہ اس پارٹی کا طاقتور ترین صدر پوری آب و تاب کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہو، ایک ایسا صدر جسے کوئی سیاسی گر سمجھانے کی ضرورت نہیں، جس کی سیاسی چالیں ہمیشہ مات ہی دیتی ہیں،کیا وہ یہ منظر دیکھ سکے گا کہ اس کی پارٹی کے اہم ترین لوگ نااہل ہو جائیں اور پھر الیکشن بھی ہو جائیں۔
غیر یقینی صورتحال نے خود سیاسی جماعتوں کو امتحان میں ڈال رکھا ہے۔ سیاستدان بھنور میں پھنس گئے ہیں۔ دریا کے باہر سے سارے اشارے ڈبونے کے ہو رہے ہیں۔ کوئی کرتب گرداب میں کام نہیں آرہا۔ شاید اسی لئے سیاسی پارٹیاں ابھی تک ٹکٹ جاری نہیں کر پائیں۔ جنرل سیٹوں پر بھی پھڈے ہیں۔ مخصوص نشستیں تو ہوتی ہی پھڈے بازی کیلئے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اس حوالے سے بڑی کامیاب حکمت عملی اپنائی۔انہوں نے عورتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے انٹرویوز پارٹی کی سینئر عورتوں کے سپرد کر دیئے۔ جس سے ن لیگ کافی حد تک سکھی ہوگئی مگر پھر بھی خیبر پختونخوا میں کچھ عورتوں نے آواز بلند کی کہ پتہ نہیں سردار مہتاب احمد خان ایسی عورتیں کہاں سے ڈھونڈ لائے ہیں جن کا مسلم لیگ ن سے کبھی تعلق نہیں رہا۔ خیر یہاں پھر بھی آگ مدہم رہی، تحریک انصاف میں یہ آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی وہاں عورتوں کے فیصلے عورتوں نے نہیں بلکہ مردوں نے کئے۔
تحریک انصاف نے تمام ٹکٹوں کے فیصلوں کا اختیار پارلیمانی بورڈ کو دے دیا۔ اس پارلیمانی بورڈ کو اپنی پارٹی کی زیادہ محنتی کارکنوں کا اندازہ نہ ہو سکا، خواتین کی سربراہ ڈاکٹر منزہ حسن حال ہی میں کینیڈا سے واپس آئی ہیں، کوئی آٹھ دس سال ملک سے باہر رہے تو یقینا اسے حالات کا وہ اندازہ نہیں ہوتا جو ملک کے اندر رہنے والوں کو ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کی بڑی تعداد تحریک انصاف کو پسند کرتی ہے اور اس پارٹی میں خواتین کی کثیر تعداد بھی موجود ہے لیکن اب جب ٹکٹوں کی تقسیم ہوئی ہے تو کئی خواتین کے دل خون کے آنسو روئے ہیں۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کو ازسرنو اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ یہاں مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کے پشاور میں واقع صوبائی دفتر میں ساجدہ ذوالفقار نامی ایک خاتون کہہ رہی تھی کہ ”مجھے تو سیاست کا کچھ پتہ نہیں، بس پرویز خٹک صاحب نے کہا ہے کہ کاغذات جمع کروا دو…“ واضح رہے کہ اس خاتون نے بتایا کہ وہ پرویز خٹک مرکزی سیکرٹری جنرل تحریک انصاف کی کزن ہیں، نوشہرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور پشاور میں ان کی شادی ہوئی ہے جہاں وہ ذاتی کاروبار کرتی ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئے کہ ان کے سیکرٹری جنرل کیا گل کھلا رہے ہیں۔
عمران خان اورمیاں نواز شریف پتہ نہیں کس مصلحت پسندی کا شکار ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم بھی ہے کہ نگران جانبدار ہیں مگر وہ پھر بھی خاموش ہیں۔ میاں نواز شریف کی جنرل پرویز مشرف سے متعلق خاموشی سمجھ آتی ہے لیکن جانبدار نگرانوں کے بارے میں خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے، کون نہیں جانتا کہ میر ہزار خان کھوسو کی ازلی محبت پیپلزپارٹی ہی ہے وہ ہمیشہ پیپلزپارٹی ہی کے دور میں نوازے گئے۔ ان کی پوری کابینہ پر تبصرہ کیا کرنا، صرف وزیر اطلاعات ہی کافی ہیں جن کا آصف علی زرداری سے نہ صرف یارانہ ہے بلکہ وہ خاص مواقع پر نوڈیرو میں صدر مملکت کے پہلو میں نظر آتے ہیں۔ جن دنوں صدر زرداری اور اعتزاز احسن میں دوریاں تھیں تو کہیں نہ کہیں پریشانی تھی اس پریشانی کا مداوا عارف نظامی صاحب ہی نے کیا تھا، وہی چوہدری اعتزاز احسن کو ایوان صدر تک لائے تھے انہوں ہی نے صلح جو کا کردار ادا کیا تھا۔رہ گئی پنجاب حکومت تواس پر کیا تبصرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ۔ ان کی کابینہ میں ایف آئی اے کے ایک سابق ڈی جی بھی شامل ہیں جو پیپلزپارٹی کے حالیہ ”سنہرے دور“ میں ڈی جی ایف آئی اے رہے ہیں۔ پنجاب کی تمام کابینہ ”لاہوری“ ہے۔ شاید یہ واحد کابینہ ہے جو پورے صوبے کی نمائندگی نہیں کرتی۔ سندھ کی نگران حکومت پورے سندھ کی نمائندہ توہے مگر وہاں بھی جانبداری کا عنصر نمایاں ہے مثلاً وہاں کے وزیر اعلیٰ کے پیپلزپارٹی سندھ کے ایک خاص کردار سے قریبی مراسم ہیں۔ سندھ کی نگراں کابینہ میں آخری روز تک کمائی کرنے والے سلیم مانڈوی والا کے کزن محمود مانڈوی والا بھی شامل ہیں۔ نور الہدیٰ شاہ، بھٹو کے قریبی ساتھی قمر الزمان شاہ کی بہن اور سابق وفاقی وزیر نوید قمر کی پھوپھی ہیں۔ قاسم جسکانی، سردار گھوٹو او نواب لاہوری پکّے جیالے ہیں۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے وزیر ڈاکٹر محمد علی شاہ مرحوم کا بیٹا جنید شاہ بھی کابینہ کا حصہ ہے۔ میاں نواز شریف اور عمران خان خاموش ہیں وجہ معلوم نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ خاموشی کسی نہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
بقول اسد جعفری
جب بھی آتی ہے محبت میں کوئی مشکل گھڑی
اپنا آئین وفا تبدیل کر لیتا ہوں میں
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
پتہ نہیں آج کل اسلم رئیسانی کہاں ہیں اگر کسی کو معلوم ہو تو وہ ان سے ڈگری کے بارے میں پوچھ سکتا ہے کیونکہ ڈگری کے اصلی اور نقلی ہونے کا سب سے زیادہ علم اس ریٹائرڈ ڈی ایس پی اور سابق وزیر اعلیٰ کو ہے۔ الیکشن ہونے میں سوا مہینہ باقی ہے پتہ نہیں سوا مہینے بعد نہانا نصیب بھی ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں۔ نصف سے زائد سابق اراکین اسمبلی کے باہر ہو جانے کی صورت میں ایک نیا پنڈورا بکس کھلنے والا ہے۔ ابھی بہت سے پردہ نشینوں کی نااہلی باقی ہے۔ بینک ڈیفالٹرز، بلوں کی ادائیگی نہ کرنے والے، قبضہ مافیا اور بہت سے دھندوں میں ملوث افراد کے نام سامنے آنے کے بعد بڑے بڑے مگرمچھوں کے والی وارث ضرور متحرک ہوں گے اس تحریک میں اعلیٰ عدالتوں کے دروازوں سے لے کر دھونس دھاندلی سب شامل ہوں گے۔ بچاؤ نہ ہونے کی صورت میں بڑی سیاسی جماعتیں خود کو الیکشن کے عمل سے الگ بھی کر سکتی ہیں مگر یہ علیحدگی آرام سے نہیں ہوگی کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا۔ تلوار جسموں کو نہ بھی چیر سکے تو زمین کا سینہ ضرور چیر دیتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی پارٹی جس نے کم و بیش تمام نگران مرضی کے مسلط کر دیئے ہوں اور اس کے بعد اس کے تین اہم رہنما مخدوم امین فہیم، راجہ پرویز اشرف اور سید یوسف رضا گیلانی نااہل ہو جائیں تو کیا وہ پارٹی چین سے بیٹھے گی جب کہ حقیقت یہ ہو کہ اس پارٹی کا طاقتور ترین صدر پوری آب و تاب کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہو، ایک ایسا صدر جسے کوئی سیاسی گر سمجھانے کی ضرورت نہیں، جس کی سیاسی چالیں ہمیشہ مات ہی دیتی ہیں،کیا وہ یہ منظر دیکھ سکے گا کہ اس کی پارٹی کے اہم ترین لوگ نااہل ہو جائیں اور پھر الیکشن بھی ہو جائیں۔
غیر یقینی صورتحال نے خود سیاسی جماعتوں کو امتحان میں ڈال رکھا ہے۔ سیاستدان بھنور میں پھنس گئے ہیں۔ دریا کے باہر سے سارے اشارے ڈبونے کے ہو رہے ہیں۔ کوئی کرتب گرداب میں کام نہیں آرہا۔ شاید اسی لئے سیاسی پارٹیاں ابھی تک ٹکٹ جاری نہیں کر پائیں۔ جنرل سیٹوں پر بھی پھڈے ہیں۔ مخصوص نشستیں تو ہوتی ہی پھڈے بازی کیلئے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اس حوالے سے بڑی کامیاب حکمت عملی اپنائی۔انہوں نے عورتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے انٹرویوز پارٹی کی سینئر عورتوں کے سپرد کر دیئے۔ جس سے ن لیگ کافی حد تک سکھی ہوگئی مگر پھر بھی خیبر پختونخوا میں کچھ عورتوں نے آواز بلند کی کہ پتہ نہیں سردار مہتاب احمد خان ایسی عورتیں کہاں سے ڈھونڈ لائے ہیں جن کا مسلم لیگ ن سے کبھی تعلق نہیں رہا۔ خیر یہاں پھر بھی آگ مدہم رہی، تحریک انصاف میں یہ آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی وہاں عورتوں کے فیصلے عورتوں نے نہیں بلکہ مردوں نے کئے۔
تحریک انصاف نے تمام ٹکٹوں کے فیصلوں کا اختیار پارلیمانی بورڈ کو دے دیا۔ اس پارلیمانی بورڈ کو اپنی پارٹی کی زیادہ محنتی کارکنوں کا اندازہ نہ ہو سکا، خواتین کی سربراہ ڈاکٹر منزہ حسن حال ہی میں کینیڈا سے واپس آئی ہیں، کوئی آٹھ دس سال ملک سے باہر رہے تو یقینا اسے حالات کا وہ اندازہ نہیں ہوتا جو ملک کے اندر رہنے والوں کو ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کی بڑی تعداد تحریک انصاف کو پسند کرتی ہے اور اس پارٹی میں خواتین کی کثیر تعداد بھی موجود ہے لیکن اب جب ٹکٹوں کی تقسیم ہوئی ہے تو کئی خواتین کے دل خون کے آنسو روئے ہیں۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کو ازسرنو اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ یہاں مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کے پشاور میں واقع صوبائی دفتر میں ساجدہ ذوالفقار نامی ایک خاتون کہہ رہی تھی کہ ”مجھے تو سیاست کا کچھ پتہ نہیں، بس پرویز خٹک صاحب نے کہا ہے کہ کاغذات جمع کروا دو…“ واضح رہے کہ اس خاتون نے بتایا کہ وہ پرویز خٹک مرکزی سیکرٹری جنرل تحریک انصاف کی کزن ہیں، نوشہرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور پشاور میں ان کی شادی ہوئی ہے جہاں وہ ذاتی کاروبار کرتی ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئے کہ ان کے سیکرٹری جنرل کیا گل کھلا رہے ہیں۔
عمران خان اورمیاں نواز شریف پتہ نہیں کس مصلحت پسندی کا شکار ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم بھی ہے کہ نگران جانبدار ہیں مگر وہ پھر بھی خاموش ہیں۔ میاں نواز شریف کی جنرل پرویز مشرف سے متعلق خاموشی سمجھ آتی ہے لیکن جانبدار نگرانوں کے بارے میں خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے، کون نہیں جانتا کہ میر ہزار خان کھوسو کی ازلی محبت پیپلزپارٹی ہی ہے وہ ہمیشہ پیپلزپارٹی ہی کے دور میں نوازے گئے۔ ان کی پوری کابینہ پر تبصرہ کیا کرنا، صرف وزیر اطلاعات ہی کافی ہیں جن کا آصف علی زرداری سے نہ صرف یارانہ ہے بلکہ وہ خاص مواقع پر نوڈیرو میں صدر مملکت کے پہلو میں نظر آتے ہیں۔ جن دنوں صدر زرداری اور اعتزاز احسن میں دوریاں تھیں تو کہیں نہ کہیں پریشانی تھی اس پریشانی کا مداوا عارف نظامی صاحب ہی نے کیا تھا، وہی چوہدری اعتزاز احسن کو ایوان صدر تک لائے تھے انہوں ہی نے صلح جو کا کردار ادا کیا تھا۔رہ گئی پنجاب حکومت تواس پر کیا تبصرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ۔ ان کی کابینہ میں ایف آئی اے کے ایک سابق ڈی جی بھی شامل ہیں جو پیپلزپارٹی کے حالیہ ”سنہرے دور“ میں ڈی جی ایف آئی اے رہے ہیں۔ پنجاب کی تمام کابینہ ”لاہوری“ ہے۔ شاید یہ واحد کابینہ ہے جو پورے صوبے کی نمائندگی نہیں کرتی۔ سندھ کی نگران حکومت پورے سندھ کی نمائندہ توہے مگر وہاں بھی جانبداری کا عنصر نمایاں ہے مثلاً وہاں کے وزیر اعلیٰ کے پیپلزپارٹی سندھ کے ایک خاص کردار سے قریبی مراسم ہیں۔ سندھ کی نگراں کابینہ میں آخری روز تک کمائی کرنے والے سلیم مانڈوی والا کے کزن محمود مانڈوی والا بھی شامل ہیں۔ نور الہدیٰ شاہ، بھٹو کے قریبی ساتھی قمر الزمان شاہ کی بہن اور سابق وفاقی وزیر نوید قمر کی پھوپھی ہیں۔ قاسم جسکانی، سردار گھوٹو او نواب لاہوری پکّے جیالے ہیں۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے وزیر ڈاکٹر محمد علی شاہ مرحوم کا بیٹا جنید شاہ بھی کابینہ کا حصہ ہے۔ میاں نواز شریف اور عمران خان خاموش ہیں وجہ معلوم نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ خاموشی کسی نہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
بقول اسد جعفری
جب بھی آتی ہے محبت میں کوئی مشکل گھڑی
اپنا آئین وفا تبدیل کر لیتا ہوں میں
بہ شکریہ روزنامہ جنگ