جانتے تھے لوگ مجھ کو پھر بنے انجان کیوں--- برائے اصلاح

الف عین
محمّد احسن سمیع راحل
خلیل الرحمن
شاہد شاہنواز
------
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
----------
جانتے تھے لوگ مجھ کو پھر بنے انجان کیوں
آج تک حیران ہوں بھولے مری پہچان کیوں
--------------مطلع ثانی
ہو گیا ہے جرم کرنا اس قدر آسان کیوں
کام جن کا تھا حفاظت سو گئے دربان کیوں
------------
اُس کو پانا جب ہمیں معلوم تھا ممکن نہیں
دل میں پالے اس کی خاطر پھر بھلا ارمان کیوں
-----------
چھین لیتا ہے نوالہ دوسروں کے ہاتھ سے
ہو گیا ہے لالچی یہ اس قدر انسان کیوں
----------
موت سب کا ہے مقدّر جانتے ہیں لوگ جب
ان کو پیاری ہو گئی ہے اس قدر یہ جان کیوں
------------
اک مصیبت میں پڑا ہو دوسرے ہیں مطمئن
ان کے چہروں پر بھلا یہ آ گئی مسکان کیوں
---------
مختصر سی زندگی ہے پھر یہاں سے کُوچ ہے
پھر بنانے ہیں جہاں میں اس قدر سامان کیوں
---------
چھوڑ دے گی موت ہم کو کیا یہاں سے بھاگ کر
ٹل نہ پائے گی کہیں پر جا بسیں جاپان کیوں
-----------
مختصر کو بھولئے اور مستقل کا سوچئے
اِس کی خاطر اُس کا چاہیں ہم بھلا نقصان کیوں
------------
رب کے رستے پر نہ گزری گر ہماری زندگی
رحم ہم پر پھر کرے گا سوچئے رحمٰن کیوں
------------
تلخ باتیں کہہ رہا ہوں ، پر حقیقت ہیں سبھی
سُن کے سچی باتیں میری ہو گئے حیران کیوں
-------
گر کریں گے یاد رب کو ، دل کا اس میں ہے سکوں
دل ہمارے ہو گئے ہیں سوچئے ویران کیوں
----------------
دل میں ارشد کے مچا طوفان ہے جذبات کا
ہے خدایا دل میں اس کے اس قدر ہیجان کیوں
-------یا
اس کے جذبوں نے مچایا اس قدر گھمسان کیوں
------------
 
محترم جناب ارشد صاحب، تسلیمات

آپ کے ٹیگ کا نوٹیفیکیشن نہیں ملا، اس لئے حاضری میں تاخیر ہوئی۔ باقی یہ کہ اصلاح کرنے کی میری حیثیت نہیں۔ آپ نے اسی محفل میں دیکھا ہوگا کہ خود مجھ سے کیسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ بہرحال، آپ نے عزت افزائی کی، اس کے لئے ممنون احسان ہوں۔ میری معروضات کو محض تلمیذانہ تبادلہ خیال سمجھئے گا۔ کسی بات میں تردد ہو تو ضرور آگاہ کیجئے گا۔ میں یہاں اس زمرے میں اپنے تاثرات محض اس نیت سے لکھتا ہوں کہ ایک تو محفل آباد رہے اور اس پر جمود طاری نہ ہو، دوسرے یہ کہ اگر میرے ذہن میں کوئی غلط تاثر قائم ہوا ہے تو اساتذہ اس کی تصحیح فرمادیں۔

جانتے تھے لوگ مجھ کو پھر بنے انجان کیوں
آج تک حیران ہوں بھولے مری پہچان کیوں

میرے خیال میں مطلع کی بنت مزید بہتر ہوسکتی ہے۔ جیسے

تم تو مجھ کو جانتے تھے، تم رہے انجان کیوں؟
اس پر کوئی گرہ لگا کر دیکھیں

ہو گیا ہے جرم کرنا اس قدر آسان کیوں
کام جن کا تھا حفاظت سو گئے دربان کیوں

پہلے مصرعے میں الفاظ کی نشست ذرا سی تبدیل کردیں تو روانی مزید بہتر ہوسکتی ہے۔ مزید یہ کہ میری ناچیز رائے میں اگر خود مصرعوں کی ہی ترتیب بدلی بائے تو بیان اور واضح اور جاندار ہوسکتا ہے۔ مثلا

کیا حفاظت پر جو تھے مامور وہ سب سو گئے؟
جرم کرنا ہوگیا ہے اس قدر آسان کیوں؟

اُس کو پانا جب ہمیں معلوم تھا ممکن نہیں
دل میں پالے اس کی خاطر پھر بھلا ارمان کیوں

الفاظ کے معمولی سے ردوبدل سے بیان فصیح تر ہوسکتاہے۔ مثلا

جبکہ یہ معلوم تھا، پانا اسے ممکن نہیں
دل میں ہم نے یہ جگایا ہی بھلا ارمان کیوں؟

چھین لیتا ہے نوالہ دوسروں کے ہاتھ سے
ہو گیا ہے لالچی یہ اس قدر انسان کیوں

دوسرے مصرعے مین "یہ" کی جگہ "اب" کردیں۔ علاوہ ازیں، لالچی کی جگہ خود غرض بھی استعمال کیا جاسکتا یے۔

اک مصیبت میں پڑا ہو دوسرے ہیں مطمئن
ان کے چہروں پر بھلا یہ آ گئی مسکان کیوں

کس کے چہرے پر مسکان آگئی؟ دونوں مصرعے باہم مربوط نہیں ہیں جس کی وجہ سے مدعا واضح نہیں ہورہا اور قاری کو اپنی طرف سے اندازہ قائم کرنا پڑ رہا ہے۔

مختصر سی زندگی ہے پھر یہاں سے کُوچ ہے
پھر بنانے ہیں جہاں میں اس قدر سامان کیوں

پہلے مصرعے میں "پھر یہاں سے کوچ ہے" زائد محسوس ہورہا ہے۔ دوسرے یہ کہ سامان کے ساتھ واحد کا صیغہ استعمال ہوتا ہے، سو میرے خیال میں "سامان بنانے ہیں" کہنا غلط ہوگا۔ اس شعر کو یوں سوچا جائے تو کیسا رہے گا؟

کیا بھلا بیٹھے ہو کتنی مختصر ہے زندگی؟
چار دن کے واسطے پھر اس قدر سامان کیوں؟

چھوڑ دے گی موت ہم کو کیا یہاں سے بھاگ کر
ٹل نہ پائے گی کہیں پر جا بسیں جاپان کیوں

گستاخی معاف، مگر یہ شعر صرف قافیہ پیمائی کی مشق معلوم ہوتا ہے، اس کو نکال ہی دیں تو بہتر ہے۔

مختصر کو بھولئے اور مستقل کا سوچئے
اِس کی خاطر اُس کا چاہیں ہم بھلا نقصان کیوں

یہاں بھی بیان واضح نہیں، شعر الجھاو کا شکار ہے۔ یا میں مطلب سمجھ نہیں پایا۔

رب کے رستے پر نہ گزری گر ہماری زندگی
رحم ہم پر پھر کرے گا سوچئے رحمٰن کیوں

رب اور رحمن ایک ہی ذات ہے، سو دونوں مصرعوں میں الگ الگ اسماء سے اشارہ کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ مصرعہ ثانی کی مناسبت سے پہلے مصرعے میں فعل حال جاری استعمال کرنا چاہیئے۔ جیسے

اس کے رستے پر نہ گرزے گی اگر یہ زندگی
رحم ہم پر پھر کرے گا سوچئے رحمان کیوں؟

تلخ باتیں کہہ رہا ہوں ، پر حقیقت ہیں سبھی
سُن کے سچی باتیں میری ہو گئے حیران کیوں

تلخ باتیں سن کر لوگ ناراض ہوتے ہیں، "حیران" ہونا شاذ ہے۔ مزید یہ کہ دوسرے مصرعے میں "باتیں" کی ی کا اسقاط روانی کو متاثر کررہا ہے۔ استاذی اعجاز صاحب غالبا "پر" بمعنی "مگر" بھی پسند نہ کریں۔

گر کریں گے یاد رب کو ، دل کا اس میں ہے سکوں
دل ہمارے ہو گئے ہیں سوچئے ویران کیوں

مصرعہ اولی الجھاو کا شکار ہے۔ مصرعے کا پہلا حصہ مشروط بیان ہے سو دوسرے حصے میں اس شرط کی تکمیل کا نتیجہ بیان ہونا چاہیئے۔ یعنی رب کو یاد کرو گے تو دل کا/کو سکوں "حاصل ہوگا"۔ اس کے علاوہ دوسرا مصرعہ یہ تاثر بنا رہا ہے کہ چونکہ لوگ یاد اللہ سے غافل ہیں اس لئے دل ویران ہوگئے ہیں، سو یہاں دونوں مصرعوں میں ربط کمزور ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں؟

اپنے رب کی یاد سے غافل ہیں تو ہیں بےسکوں
سوچنا کیا دل ہمارے ہوگئے ویران کیوں!

دل میں ارشد کے مچا طوفان ہے جذبات کا
ہے خدایا دل میں اس کے اس قدر ہیجان کیوں

طوفان مچانا غالبا درست محاورہ نہیں، طوفان برپا ہوتا یا کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں دوسرے مصرعے میں الفاظ کی نشست اتنی اچھی نہیں لگ رہی۔ اس کو یوں سوچ کر دیکھیں

دل میں ارشد کے بپا ہے ایک طوفانِ بلا
یا خدا جذبات میں اس کے ہے یہ ہیجان کیوں؟
(اگرچہ بیان شاید اب بھی مبہم ہی ہے)

بہرحال، آپ کے حکم کی تعمیل میں یہ شکستہ خیالات قلم برداشتہ کردیئے ہیں۔ عین ممکن ہے بہت سے مقامات پر مجھ سے چوک ہوئی ہو۔ اس کے علاوہ اگر کہیں کوئی بات سوئے ادب محسوس ہوئی ہو تو اس کے لئے معذرت۔

دعاگو،
راحل۔
 
آخری تدوین:
راحل بھائی السلام علیکم۔ آپ کے مشورے بہت اچھے ہیں۔۔اکثر جگہ پر آپ نے کمی کو محسوس کر کے دور کیا ہے ۔اب استادِ محترم بھی ایک نظر دیکھ لیں تو پھر تبدیلیوں کو سامنے رکھ کر دوبارا ترتیب دوں گا ۔آپ کو ٹیگ کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ آپ مشورے دیتے ہیں ۔ اس طرح متبادل صورتیں سامنے آ جاتی ہیں ۔بہت بہت شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
معذرت کہ کل سے کاپی کر کے رکھی ہوئی ہے یہ غزل لیکن اس وقت کام سے اٹھ گیا تو اب فرصت مل سکی ہے۔
اس غزل میں نسبتاً کم اغلاط ہیں لیکن وہی آپ کے کچھ چنیدہ مضامین ہیں جن کی، بقول کسے جگالی کی جا رہی ہے۔ مشق کے لیے تو چلے گیں یہ ساری غزلیں لیکن کسی ادبی جریدے کے معیار پر پورا نہیں اتر پائیں گی

جانتے تھے لوگ مجھ کو پھر بنے انجان کیوں
آج تک حیران ہوں بھولے مری پہچان کیوں
--------------مطلع ثانی
ہو گیا ہے جرم کرنا اس قدر آسان کیوں
کام جن کا تھا حفاظت سو گئے دربان کیوں
------------ پہلا مطلع، دوسرے مصرعے میں 'آج تک' بھرتی کا لگتا ہے، اس کی جگہ 'وہ' سے فاعل کی کمی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے
مجھ کو حیرت ہے کہ وہ بھولے....
دوسرا مطلع ٹھیک ہے لیکن یہ سوال اٹھتا ہے کہ دربان محض چور کو پکڑ سکتے ہیں، دوسرے جرائم کو تو نہیں؟

اُس کو پانا جب ہمیں معلوم تھا ممکن نہیں
دل میں پالے اس کی خاطر پھر بھلا ارمان کیوں
----------- درست

چھین لیتا ہے نوالہ دوسروں کے ہاتھ سے
ہو گیا ہے لالچی یہ اس قدر انسان کیوں
---------- درست نثر ہے 'یہ انسان اس قدر لالچی کیوں ہو گیا ہے' 'یہ اس قدر انسان' ترتیب اچھی نہیں، شاید 'یوں اس قدر' بہتر ہو، یا پورے مصرع کی ترتیب بدلو

موت سب کا ہے مقدّر جانتے ہیں لوگ جب
ان کو پیاری ہو گئی ہے اس قدر یہ جان کیوں
------------ اس قدر اس شعر میں بھی! دو متصل اشعار نہ رکھیں، کچھ فاصلہ دے دیں

اک مصیبت میں پڑا ہو دوسرے ہیں مطمئن
ان کے چہروں پر بھلا یہ آ گئی مسکان کیوں
--------- کس کے چہرے پر؟ مصیبت والے کے یا مطمئن انسان کے؟ واضح نہیں، شعر نکال دیں

مختصر سی زندگی ہے پھر یہاں سے کُوچ ہے
پھر بنانے ہیں جہاں میں اس قدر سامان کیوں
--------- فاعل پھر غائب ہے کہ کون بناتے ہیں؟ یہی مضمون اوپر بھی ہے

چھوڑ دے گی موت ہم کو کیا یہاں سے بھاگ کر
ٹل نہ پائے گی کہیں پر جا بسیں جاپان کیوں
----------- یہ جاپان قافیہ 'گھسانے' کی کوشش یے، شعر نکال دیا جائے

مختصر کو بھولئے اور مستقل کا سوچئے
اِس کی خاطر اُس کا چاہیں ہم بھلا نقصان کیوں
------------ کس کا نقصان؟ یہ بھی واضح نہیں

رب کے رستے پر نہ گزری گر ہماری زندگی
رحم ہم پر پھر کرے گا سوچئے رحمٰن کیوں
------------ اس کے رستے ہی کہا جائے تو دونوں مصرعوں میں ربط پیدا ہو۔ رب اور رحمن کو کوئی الگ الگ شخص بھی سمجھ سکتے ہیں.

تلخ باتیں کہہ رہا ہوں ، پر حقیقت ہیں سبھی
سُن کے سچی باتیں میری ہو گئے حیران کیوں
------- باتیں جمع ہے، حقیقت واحد، باتیں دونوں مصرعوں میں دہرایا گیا ہے، پھر حیران کون ہوا؟ یہ بھی واضح نہیں

گر کریں گے یاد رب کو ، دل کا اس میں ہے سکوں
دل ہمارے ہو گئے ہیں سوچئے ویران کیوں
---------------- پہلے مصرع کے پہلے ٹکڑے میں فعل کی بات ہو رہی ہے لیکن دوسرے میں محض 'اس میں' اسم 'یاد' کا خیال آتا ہے، یاد کرنے کے عمل کی بات ہونی چاہیے، یعنی 'اس عمل میں' کہنا چاہیے۔ دوسرا مصرع بے ربط ہے

دل میں ارشد کے مچا طوفان ہے جذبات کا
ہے خدایا دل میں اس کے اس قدر ہیجان کیوں
-------یا
اس کے جذبوں نے مچایا اس قدر گھمسان کیوں
---------- متبادل مصرع میں جذبے دہرایا گیا ہے، پہلا متبادل بہتر ہے۔ مفہوم تو آپ کے دل میں ہی ہے کہ طوفان اور ہیجان کیوں ہے، کچھ اشارہ تو ہو!
 

الف عین

لائبریرین
اوپر کا مراسلہ کاپی کر کے رکھا تھا، اس لیے پہلے اس کو مکمل کیا تو دیکھ رہا ہوں کہ راحل میاں بھی دیکھ چکے ہیں اور کچھ اچھے مشورے دیے ہیں۔ اب یہ سوچنا آپ کا کام ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ مصرع کیوں نہیں آئے۔ کیا وہی عمل اب بھی جاری ہے کہ جیسے ہی وزن پورا لگا، آپ فوراً غزل مکمل کر کے پوسٹ کر دیتے ہیں۔ میرے مشورے پر عمل نہیں کرتے۔ محض ایک غزل کے کچھ اشعار میں یہ مشق کی کہ الفاظ بدل بدل کر ممکن مصرعے کہے، لیکن پھر کچھ نہیں کیا، اور نہ اس مشق سے کچھ سیکھا!
 
الف عین
( محترم اگر حکم دیں تو مشق بھی ساتھ لگا دیا کروں۔آپ کا کام بڑھ جائے گا کہ اس کو بھی دیکھیں ) اور دل لگی میں ل کا اتصال کیا قابلِ قبول ہے
----------
جانتے تھے لوگ مجھ کو پھر بنے انجان کیوں
مجھ کو حیرت ہے کہ وہ بھولے مری پہچان کیوں
-----------
چور ڈاکو آ گئے تھے گھر مرے کو لوٹنے
کام جن کا تھا حفاظت سو گئے دربان کیوں
----------
مشکلوں میں دوسروں کے کام آنا چاہئے
ان کے چہروں پر بھلا یہ آ گئی مسکان کیوں
-----------
اس جہاں کو بھول کر کچھ آخرت کی فکر ہو
جو جگہ ہے مستقل اس کا کریں نقصان کیوں
-----------
اس کے رستے پر نہ گزری گر ہماری زندگی
رحم ہم پر پھر کرے گا سوچئے رحمٰن کیوں
--------------
تلخ باتیں کہہ رہا ہوں ، پر حقیقت ہیں سبھی
ہو گئے ناراض مجھ سے سُن کے یہ نادان کیوں
-----------
اپنے رب کی یاد سے غافل ہیں تو ہیں بےسکوں
سوچنا کیا دل ہمارے ہوگئے ویران کیوں!
-----------
کیا جوابِ جرم دو گے رب کے ارشد سامنے
جب وہ پوچھے گا تجھے بھولے مرے فرمان کیوں
-----------
 

الف عین

لائبریرین
مشق کا ثبوت تو مجھ کو نہیں ملتا۔ کیا یہ مصرع اس طرح ہی گوارا لگا تھا
چور ڈاکو آ گئے تھے گھر مرے کو لوٹنے
بجائے
چور ڈاکو آ گئے تھے میرے گھر کو لوٹنے
سامنے کا رواں مصرع تھا!
مطلع اور یہ شعر تو ہو ہی گیا، باقی اشعار

مشکلوں میں دوسروں کے کام آنا چاہئے
ان کے چہروں پر بھلا یہ آ گئی مسکان کیوں
----------- کن کے چہروں پر؟

اس جہاں کو بھول کر کچھ آخرت کی فکر ہو
جو جگہ ہے مستقل اس کا کریں نقصان کیوں
----------- ٹھیک

اس کے رستے پر نہ گزری گر ہماری زندگی
رحم ہم پر پھر کرے گا سوچئے رحمٰن کیوں
-------------- درست

تلخ باتیں کہہ رہا ہوں ، پر حقیقت ہیں سبھی
ہو گئے ناراض مجھ سے سُن کے یہ نادان کیوں
----------- ٹھیک

اپنے رب کی یاد سے غافل ہیں تو ہیں بےسکوں
سوچنا کیا دل ہمارے ہوگئے ویران کیوں!
----------- دوسرا مصرع واضح نہیں، پہلے میں بھی 'تو' طویل کھنچتا ہے

کیا جوابِ جرم دو گے رب کے ارشد سامنے
جب وہ پوچھے گا تجھے بھولے مرے فرمان کیوں
----------- شتر گربہ ہے، پہلا مصرع میں عجیب الفاظ کی ترتیب ہے، جوابِ جرم بھی درست نہیں
کیا صفائی دو گے ارشد اپنے رب کے سامنے
جب وہ پوچھے گا کہ تم بھولے...
بہتر نہیں لگتا، کاش یہ آپ کے ذہن میں بھی آیا ہوتا!
 
Top