کاشفی
محفلین
غزل
(حکیم آزاد انصاری)
جانتے ہیں، قادرِ ہر کار تم، بیکار ہم
مانتے ہیں، فاضلِ مختار تم، ناچار ہم
اب ہمیں جب دیکھئے، ہم شاغلِ تسبیحِ دوست
اب ہمیں جب پوچھئے، محوِ خیالِ یار ہم
حُسن کی اقلیم کے مغرور شاہنشاہ تم
عشق کی سرکار کے بدبخت خدمتگار ہم
آج فرصت مل چکی ہے آرزوئے زیست سے
آج رخصت چاہتے ہیں اے غمِ دلدار ہم
چھوڑ بیٹھے عشق میں قیدِ مذاہب کا خیال
توڑ بیٹھے رشتہ ہائے سجہ و زنار ہم
یہ بھی الفت کوئی الفت ہے کہ یک رنگی نہیں
یہ بھی نسبت کوئی نسبت ہے کہ گل تم خار ہم
کاش !ہمدردوں کے دل تابِ سماعت لا سکیں
آج کرنا چاہتے ہیں درد کا اظہار ہم
المدد، اے رہمنائے راہِ الفت! المدد
پہلی منزل ہے اور اس پر موت سے دوچار ہم
خود ہمیں رحم آگیا کون و مکاں کے حال پر
ورنہ لا سکتے تھے تابِ جلوہ دیدار ہم
جب صدا آئی کہ“بارِ عشق اٹھاسکتا ہے کون“
ہم بڑھے اور بے دھڑک بولے کہ “ہم سرکار ہم“
کاش! مرکز کی کوشش مرکز کی جانب کھنچ لے
گردِ مرکز گھومتے ہیں صورتِ پرکار ہم
دوستوں کو وحشتیں ہیں دشمنوں کو نفرتیں
یار پر بھی بار ہم، اغیار پر بھی بار ہم
اب ہمیں آزاد! تم آزاد کہنا چھوڑ دو
قیدیء اوبار ہم ، زندانیء افکار ہم
(حکیم آزاد انصاری)
جانتے ہیں، قادرِ ہر کار تم، بیکار ہم
مانتے ہیں، فاضلِ مختار تم، ناچار ہم
اب ہمیں جب دیکھئے، ہم شاغلِ تسبیحِ دوست
اب ہمیں جب پوچھئے، محوِ خیالِ یار ہم
حُسن کی اقلیم کے مغرور شاہنشاہ تم
عشق کی سرکار کے بدبخت خدمتگار ہم
آج فرصت مل چکی ہے آرزوئے زیست سے
آج رخصت چاہتے ہیں اے غمِ دلدار ہم
چھوڑ بیٹھے عشق میں قیدِ مذاہب کا خیال
توڑ بیٹھے رشتہ ہائے سجہ و زنار ہم
یہ بھی الفت کوئی الفت ہے کہ یک رنگی نہیں
یہ بھی نسبت کوئی نسبت ہے کہ گل تم خار ہم
کاش !ہمدردوں کے دل تابِ سماعت لا سکیں
آج کرنا چاہتے ہیں درد کا اظہار ہم
المدد، اے رہمنائے راہِ الفت! المدد
پہلی منزل ہے اور اس پر موت سے دوچار ہم
خود ہمیں رحم آگیا کون و مکاں کے حال پر
ورنہ لا سکتے تھے تابِ جلوہ دیدار ہم
جب صدا آئی کہ“بارِ عشق اٹھاسکتا ہے کون“
ہم بڑھے اور بے دھڑک بولے کہ “ہم سرکار ہم“
کاش! مرکز کی کوشش مرکز کی جانب کھنچ لے
گردِ مرکز گھومتے ہیں صورتِ پرکار ہم
دوستوں کو وحشتیں ہیں دشمنوں کو نفرتیں
یار پر بھی بار ہم، اغیار پر بھی بار ہم
اب ہمیں آزاد! تم آزاد کہنا چھوڑ دو
قیدیء اوبار ہم ، زندانیء افکار ہم