طارق شاہ
محفلین
غزلِ
جانثاراختر
زمیں ہوگی کسی قاتل کا داماں ہم نہ کہتے تھے
اکارت جائے گا خونِ شہیداں ہم نہ کہتے تھے
عِلاجِ چاکِ پیراہن ہُوا، تو اِس طرح ہوگا
سِیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے
ترانے کچھ دبے لفظوں میں خود کو قید کرلیں گے
عجب انداز سے پھیلے گا زِنداں ہم نہ کہتے تھے
کوئی اِتنا نہ ہوگا لاش بھی لے جا کے دفنا دے
اِنھیں سڑکوں پہ مرجائے گا اِنسان ہم نہ کہتے تھے
نظرلپٹی ہے شُعلوں میں، لہو تپتا ہےآنکھوں میں
اُٹھا ہی چاہتا ہے، کوئی طوُفاں ہم نہ کہتے تھے
چَھلکتے جام میں بھیگی ہُوئی آنکھیں اُتر آئیں
ستائے گی کسی دِن یادِ یاراں ہم نہ کہتے تھے
نئی تہذیب کیسے لکھنؤ کو راس آئے گی
اُجڑ جائے گا یہ شہرِغزالاں ہم نہ کہتے تھے
جانثار اختر