طارق شاہ
محفلین
غزلِ
زمانہ آج نہیں ڈگمگا کے چلنے کا
سنبھل بھی جا، کہ ابھی وقت ہے سنبھلنے کا
بہار آئے، چلی جائے، پھر چلی آئے
مگر یہ درد کا موسم نہیں بَدلنے کا
یہ ٹِھیک ہے، کہ سِتاروں پہ گُھوم آئے ہم
مگر کِسے ہے سلِیقہ زمِیں پہ چلنے کا
پِھرے ہیں راتوں کو آوارہ ہم نے دیکھا ہے !
گلی گلی میں سماں چاند کے نِکلنے کا
تمام نشۂ ہستی، تمام کیفِ وجُود
وہ ایک لمحہ تِرے جسم کے پِگھلنے کا
سِوائے گردِ ملامت مِلا بھی کیا ہم کو
بہت تھا شوق زمانے کے ساتھ چلنے کا
ہمَیں تو اِتنا پتہ ہے کہ جب تلک ہم ہیں !
رواجِ چاکِ گریباں نہیں بدلنے کا
جانثاراختر