محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
جناب پیٹر ڈیوس اینمل فارم کے دیباچے ’کتاب پر تبصرہ‘میں رقم طراز ہیں
’۲ دسمبر کو ڈوائٹ میکڈانلڈ نے جو امریکی جرنل پالٹکس کا ایڈیٹر اور آرول کا دوست تھا، لکھا کہ وہ اینمل فارم سے خاطر خواہ محظوظ ہوا ہے جس کا انطباق روس پر ہو سکتا ہے، لیکن آرویل نے روس کے انقلابی فلسفے پر کسی قسم کی روشنی نہیں ڈالی ہے۔ اس کے جواب میں آرویل نے لکھا کہ ایمل فارم بنیادی طور پر روسی انقلاب پر ایک طنزیہ تحریر ( Satire)ہے، جس کا اطلاق بڑے پیمانے پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ پرتشدد سازش پر مبنی انقلاب جس کی قیادت اقتدار کے بھوکے کررہے ہوں، اس سے صرف آقاؤں کی تبدیلی ہی ممکن ہوسکتی ہے۔‘‘
اینمل فارم ترجمہ از سید علاؤالدین : پبلشر سٹی بک پوائینٹ۔اردو بازار کراچی۔ ۲۰۰۵
اینمل فارم ہماری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے ۔ یہ کہانی جہاں کمیونزم پر ایک گہرا طنز ہے وہیں پر تشدد انقلاب پر بھی ایک عمیق مطالعہ ہے، جس کی قیادت مرورِ زمانہ کے ہاتھوں ایسے افراد کو مل جائے جو اقتدار کے بھوکے ہوں اور اپنی شخصی آمریت کے قیام کے لیے اس انقلاب اور عوام کی سیدھی سادی پرجوش تحریک کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے دریغ نہ کریں۔
اس ناول کی سیدھی سادی کہانی کو مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ مسٹر جونز کے جانور فارم کے جانور جو اسکے مظالم کا نشانہ بنتے بنتے تھک چکے تھے ، انہیں بوڑھے میجر کا خواب ، اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آتا ہے اور وہ اس کے لیے جد و جہد کرتے ہیں۔ اس جد و جہد کے نتیجے میں وہ مسٹر جونز کو اس فارم سے بیدخل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ قیادت کے اہل جانوروں کو راستے سے ہٹا کر ایسے جانور قیادت پر فائز ہوجاتے ہیں جو آمریت پسند ہیں ۔ آہستی آہستہ یہ عوامی انقلاب ایک آمریت میں تبدیل ہوجاتا ہے اور تمام جانور بے بسی کی تصویر بنے اس تبدیلی کو دیکھتے ہیں۔
گو اس ناول کے تمام واقعات روسی انقلاب کے اصل واقعات کی کاپی ہیں لیکن بقول مصنف اس کا اطلاق بڑے پیمانے پر بھی کیا جاسکتا ہے۔
ہم نے ان واقعات کو پڑھا تو اس نے ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔ اس ناول کا انطباق ہم اپنی مختصر تاریخ پر بھی کرسکتے ہیں ۔ بوڑھے میجر کا خواب، اینمل فارم کی آزادی، اسنو بال کا قتل، پون چکی کی تعمیر، مسٹر جونز کا فارم پر حملہ ، جانوروں کا اپنے وطنِ مالوف کا دفاع کرنا، اقتدار کے بھوکے آمریت پسندوں کا اقتدار پر قبضہ اور آئین کی اپنی مقصد براری کے لیے اوٹ پٹانگ تشریح، یہ سب واقعات ہمیں اپنی تاریخ میں بھی ملے اور ہم نے اس کہانی کو ایک نئے انداز سے لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ کہانی آپ کے سامنے ہے۔ طنز و مزاح کے سیکشن میں
گاندھی گارڈن ایک طنزیہ کے نام سے
ہماری تشریح کس حد تک درست ہے اور ہم اس تحریر میں کہاں تک کامیاب ہوپائے ہیں، اس کا فیصلہ کرنا آپ کا کام ہےسو قلم اٹھائیے اور لکھئے۔