اساتیذِ محترم، السلام علیکم!
چند دن پہلے کہی گئی ایک غزل پوسٹ مارٹم کی خواہش مند ہے:
جانے دنیا کو کس کی نظر کھا گئی
ہر طرف جو یہ کالی گھٹا چھا گئی
خون مسلم کا ارزاں ہوا اس قدر
اس کی سرخی ہر اک چیز میں آ گئی
ہو گیا بھائی بھائی کا دشمن یہاں
دَورِ ظلمت میں ایسی ہوا آگئی
بھوکے بچے بھی مارے ہیں جلاد نے
دیکھ کر آدمیت بھی شرما گئی
کیسے مِٹ پائے گی یہ زمیں کی ہوس
جانے کتنے زمیں یہ بشر کھا گئی
جا چھپے ہیں وہ ماؤں کی آغوش میں
خوف سے بچوں میں یہ ادا آ گئی
ہوں گے راقم یہاں پھر اجالے کبھی؟
سوچ کر روح میری یہ تھرا گئی
چند دن پہلے کہی گئی ایک غزل پوسٹ مارٹم کی خواہش مند ہے:
جانے دنیا کو کس کی نظر کھا گئی
ہر طرف جو یہ کالی گھٹا چھا گئی
خون مسلم کا ارزاں ہوا اس قدر
اس کی سرخی ہر اک چیز میں آ گئی
ہو گیا بھائی بھائی کا دشمن یہاں
دَورِ ظلمت میں ایسی ہوا آگئی
بھوکے بچے بھی مارے ہیں جلاد نے
دیکھ کر آدمیت بھی شرما گئی
کیسے مِٹ پائے گی یہ زمیں کی ہوس
جانے کتنے زمیں یہ بشر کھا گئی
جا چھپے ہیں وہ ماؤں کی آغوش میں
خوف سے بچوں میں یہ ادا آ گئی
ہوں گے راقم یہاں پھر اجالے کبھی؟
سوچ کر روح میری یہ تھرا گئی