نیرنگ خیال
لائبریرین
آج فراغت پاتے ہی، ماضی کا دفتر کھولا ہے
تنہائی میں بیٹھ کر، اپنا ایک ایک زخم ٹٹولا ہے
چھان چکا ہوں جسم اور روح پر آئی خراشوں کو
الٹ پلٹ کر دیکھ لیا ہے ارمانوں کی لاشوں کو
کمرے میں اسے کہیں رکھا تھا، یا دل میں کہیں دفنایا تھا
جانے وہ انمول خزانہ میں نے کہاں چھپایا تھا
ساری عمر کا حاصل تھی، یہ کھونے والی چیز نہ تھی
سوچ رہا ہوں یاد تیری گم ہونے والی چیز نہ تھی
ورق ورق دیکھتا ہوں اپنی گرد آلود کتابوں کو
جیسے کوئی بیداری میں ڈھونڈ رہا ہو خوابوں کو
عقل کے ہاتھوں سے اکثر نادانی ہو جاتی ہے
بہت سنمبھال کر رکھنے سے بھی چیز کبھی کھو جاتی ہے
اپنے سارے گھر والوں کو دیوانہ سا لگتا ہوں
اس کمرے سے اس کمرے میں کھویا کھویا پھرتا ہوں
سوچ سمجھ کر دنیا کی نظروں سے بچا کر رکھا تھا
میں نے تو اس کو اپنے لیے بچا کر رکھا تھا
کمرے میں اسے کہیں رکھا تھا یا دل میں کہیں دفنایا تھا
جانے وہ انمول خزانہ میں نے کہاں چھپایا تھا
نامعلوم