امین شارق
محفلین
جو چاہتا ہے لوگوں کا بُرا
وہ خود مونھ کے بل گرتا ہے
یہ سُود بڑی گمراہی ہے
کیوں دیکھ کے دلدل گرتا ہے
یہ تو دستور ہے دنیا کا
جو آج اُٹھا کل گرتا ہے
اک پیڑ اگر کٹ جائے تو
پھر سارا جنگل گرتا ہے
کرتا ہے چھید وہ پتھر میں
قطرہ جو مسلسل گرتا ہے
اٹھتا ہے جنازہ بھائی کا
جب بہن کا آنچل گرتا ہے
گھبراکر الٹا بول گئے
بارش سے بادل گرتا ہے
یادِ محبوب سے اشکوں میں
بھیگ کے کاجل گرتا ہے
شارؔق شاعر ہوں گے ہم بھی
جانے کب یہ پھل گرتا ہے
جانے کب یہ پھل گرتا ہے