ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
غزل
جانے کتنے راز چھپے ہیں ٹھہرے ٹھہرے پانی میں
کون اُتر کردیکھےاب اس یاد کے گہرے پانی میں
جل پریوں کی خاموشی تو منظر کا ا یک دھوکا ہے
فریادوں کا شور مچا ہے اندھے بہرے پانی میں
کوئی سیپی موتی اُگلتی ہے ، نہ موجیں کوئی راز
حرص و ہوا کے ایسے لگے ہیں چار سُو پہرے پانی میں
جھیل کے نیلے آئینے پر پتھر پھینکنے والو تم !
ساحل پر اب بیٹھ کے دیکھو بگڑے چہرے پانی میں
چاہا ہم نے جھیل کنارے چاندنی راتوں میں جن کو
ِکھلتے ہیں بَن بَن کے کنول وہ پھول سے چہرے پانی میں
ظہیر احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۳
جانے کتنے راز چھپے ہیں ٹھہرے ٹھہرے پانی میں
کون اُتر کردیکھےاب اس یاد کے گہرے پانی میں
جل پریوں کی خاموشی تو منظر کا ا یک دھوکا ہے
فریادوں کا شور مچا ہے اندھے بہرے پانی میں
کوئی سیپی موتی اُگلتی ہے ، نہ موجیں کوئی راز
حرص و ہوا کے ایسے لگے ہیں چار سُو پہرے پانی میں
جھیل کے نیلے آئینے پر پتھر پھینکنے والو تم !
ساحل پر اب بیٹھ کے دیکھو بگڑے چہرے پانی میں
چاہا ہم نے جھیل کنارے چاندنی راتوں میں جن کو
ِکھلتے ہیں بَن بَن کے کنول وہ پھول سے چہرے پانی میں
ظہیر احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۳
آخری تدوین: