تبسم جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں ۔ صوفی تبسّم

فرخ منظور

لائبریرین
جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں
ہم ہوئے کس سے جدا یاد نہیں
ایک شعلہ سا اُٹھا تھا دل میں
جانے کس کی تھی صدا یاد نہیں
ایک نغمہ سا سنا تھا میں نے
کون تھا شعلہ نوا یاد نہیں
روز دہراتے تھے افسانۂ دل
کس طرح بھول گیا یاد نہیں
اک فقط یاد ہے جانا اُن کا
اور کچھ اس کے سوا یاد نہیں
تو مری جانِ تمنّا تھی کبھی
اے مری جانِ وفا یاد نہیں
ہم بھی تھے تیری طرح آوارہ
کیا تجھے بادِ صبا یاد نہیں
ہم بھی تھے تیری نواؤں میں شریک
طائرِ نغمہ سرا یاد نہیں
حالِ دل کیسے تبسّم ہو بیاں
جانے کیا یاد ہے، کیا یاد نہیں
(صوفی تبسّم)
 
Top