جانے کیا اس میں بھید بھاؤ ہے- نئی غزل

ان کے لہجے میں جو رچاؤ ہے
جانے کیا اس میں بھید بھاؤ ہے

یہ نگر کھوکھلا ہے اندر سے
ظاہری سب یہ رکھ رکھاؤ ہے

تھک گیا ہوں سفر کی محنت سے
ڈالنا اب کہیں پڑاؤ ہے

ٹوٹ جائے نہ ایک دن یہ ڈور
اتنا سانسوں میں کیوں تناؤ ہے

دل میں اس کی حسین یادوں کا
اک دہکتا ہوا الاؤ ہے

یہ جو اک بے کلی سی دل میں ہے
لگ رہا ہے کہ چل چلاؤ ہے

زندگی ساری اس کے نام شکیل
کب محبت میں بھاؤ تاؤ ہے

محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر احباب و اساتذہ کی نذر
 

الف عین

لائبریرین
ویسے تو میں 'ؤ' پر ختم ہونے والے قوافی صرف یک حرفی پسند کرتا ہوں، بھاؤ پر وزن فاع، فعلن نہیں۔ لیکن جب پوری غزل میں یہی قوافی ہوں تو چل بھی سکتا ہے۔
مطلع ہی واضح نہیں، بقیہ اشعار تو درست لگ رہے ہیں
بھید بھاؤ کا مطلب ہوتا ہے تفرقہ یا تعصب، شاید تم نے کچھ اور سمجھا ہے!
 
ویسے تو میں 'ؤ' پر ختم ہونے والے قوافی صرف یک حرفی پسند کرتا ہوں، بھاؤ پر وزن فاع، فعلن نہیں۔ لیکن جب پوری غزل میں یہی قوافی ہوں تو چل بھی سکتا ہے۔
مطلع ہی واضح نہیں، بقیہ اشعار تو درست لگ رہے ہیں
بھید بھاؤ کا مطلب ہوتا ہے تفرقہ یا تعصب، شاید تم نے کچھ اور سمجھا ہے!
جی یہی چوک ہوئی میں نے پہیلی، چھپی ہوئی بات کے معنوں میں سمجھا تھا، جو شائد صرف بھید کا مفہوم ہے
تبدیل کرتا ہوں
 
ویسے تو میں 'ؤ' پر ختم ہونے والے قوافی صرف یک حرفی پسند کرتا ہوں، بھاؤ پر وزن فاع، فعلن نہیں۔ لیکن جب پوری غزل میں یہی قوافی ہوں تو چل بھی سکتا ہے۔
مطلع ہی واضح نہیں، بقیہ اشعار تو درست لگ رہے ہیں
بھید بھاؤ کا مطلب ہوتا ہے تفرقہ یا تعصب، شاید تم نے کچھ اور سمجھا ہے!

سر آپ کی رہنمائی کے مطابق یوں بدل دیا ہے، ایک اضافی مطلع کے ساتھ

ان کے لہجے میں جو رچاؤ ہے
کیا کہیں ہم سے کیا لگاؤ ہے

آنکھ پرنم، دلوں پہ گھاؤ ہے
کیوں زمانے میں بھید بھاؤ ہے

یہ نگر کھوکھلا ہے اندر سے
ظاہری سب یہ رکھ رکھاؤ ہے

ٹوٹ جائے نہ ایک دن یہ ڈور
اتنا سانسوں میں کیوں تناؤ ہے

یہ جو اک بے کلی سی دل میں ہے
لگ رہا ہے کہ چل چلاؤ ہے

تھک گیا ہوں سفر کی محنت سے
ڈالنا اب کہیں پڑاؤ ہے

دل میں اس کی حسین یادوں کا
اک دہکتا ہوا الاؤ ہے

زندگی ساری اس کے نام شکیل
کب محبت میں بھاؤ تاؤ ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جی یہی چوک ہوئی میں نے پہیلی، چھپی ہوئی بات کے معنوں میں سمجھا تھا، جو شائد صرف بھید کا مفہوم ہے
تبدیل کرتا ہوں
آپ نے ٹھیک سمجھا ۔ بھید بھاؤ بمعنی راز یا پوشیدہ بات عام مستعمل ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ استادِ محترم کے علاقے میں اِن معنوں میں استعمال نہ کیا جاتا ہو ۔
 

فہد اشرف

محفلین
آپ نے ٹھیک سمجھا ۔ بھید بھاؤ بمعنی راز یا پوشیدہ بات عام مستعمل ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ استادِ محترم کے علاقے میں اِن معنوں میں استعمال نہ کیا جاتا ہو ۔
پچھلے کچھ دنوں سے مجھے انتظار حسین کے افسانوں کی چاٹ لگی ہوئی ہے۔ ان کے یہاں بھی بھید بھاؤ بمعنی راز و اسرار کے پڑھ کے مجھے تھوڑی حیرت ہوئی تھی کہ بھید بھاؤ تو تفرقہ اور امتیاز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، انتظار حسین جنہیں ہندی و ہندوستانی کلچر کی اچھی سمجھ تھی وہ ایسا کیوں لکھیں گے۔ پھر تھوڑا سوچنے کے بعد یہ سمجھ میں آیا کہ شاید بھید اور بھاؤ الگ الگ استعمال ہوئے ہیں، یعنی بھید بمعنی اسرار اور بھاؤ بمعنی جذبات وغیرہ کے۔
وہ جملہ یہاں نقل کر رہا ہوں۔
"میں نے پراکرتی کے بھید جانے، پر ناری کے بھید بھاؤ نہیں جانے۔"
(پتے)
 

الف عین

لائبریرین
بھید بھاؤ شاید پاکستان کے کچھ علاقوں میں اسرار و رموز کی طرح غلط استعمال کیا جاتا ہو، اور اسی استعمال کو سنتے سنتے انتظار حسین مرحوم بھی انہیں معنوں میں لکھ گئے ہوں، ورنہ بھید بھاؤ پورا مرکب ہی تفرقہ اور تعصب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی شعری اسناد بھی مل جائیں پاکستانی شاعری میں!
 
بھید بھاؤ شاید پاکستان کے کچھ علاقوں میں اسرار و رموز کی طرح غلط استعمال کیا جاتا ہو، اور اسی استعمال کو سنتے سنتے انتظار حسین مرحوم بھی انہیں معنوں میں لکھ گئے ہوں، ورنہ بھید بھاؤ پورا مرکب ہی تفرقہ اور تعصب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی شعری اسناد بھی مل جائیں پاکستانی شاعری میں!
استادِ محترم ! ہم تو رشتے نبھانے والے ہیں، آپ کو استاد مان لیا تو پھر کیا پاکستان کیا بھارت، بس مان لیا۔ دوسرا آپ کی اصلاح سے ایک اضافی شعر مل گیا۔
باقی اس گفتگو سے یہ تسلی ہو گئی کہ میری اردو بس یہی کچھ مرحوم انتظار حسین جتنی ہی بری ہے۔ :)
اپنی کم علمی سے بخوبی واقف ہوں، یونہی جملہ ذہن میں آیا تو جڑ دیا، ناگوار گزرا ہو تو معافی کا خواستگار ہوں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بھید بھاؤ شاید پاکستان کے کچھ علاقوں میں اسرار و رموز کی طرح غلط استعمال کیا جاتا ہو، اور اسی استعمال کو سنتے سنتے انتظار حسین مرحوم بھی انہیں معنوں میں لکھ گئے ہوں، ورنہ بھید بھاؤ پورا مرکب ہی تفرقہ اور تعصب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی شعری اسناد بھی مل جائیں پاکستانی شاعری میں!
اعجاز بھائی ، ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ انتظار حسین نے اسے بالکل درست استعمال کیا ہے ۔ کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معانی ہونا تو عام بات ہے ۔ ان معانی کو غلط کس طرح کہا جاسکتا ہے ۔ بھید بھا ؤ تفرقہ اور تمیز کے علاوہ راز اور پوشیدہ بات کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بھید بھاؤ کا اصل معنی تو راز ہی ہے ۔ تفرقہ اور امتیاز کے معانی میں تو بہت بعد میں استعمال ہونا شروع ہوا ۔ بھید بھاؤ کم از کم ۲۷۰ سال پہلے بمعنی راز استعمال ہوا اور "قصۂ مہروز و دلبر" میں ملتا ہے ۔ میں اس کتاب کا عکس ذیل میں لگا رہا ہوں ۔ یہ قصہ اردو کی قدیم ترین کہانیوں میں سے ایک ہے ۔ بلکہ ڈاکٹر مسعود حسین خان (سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن) کی تحقیق کے مطابق یہ قصہ شاید اردو کا اولین ناولٹ ہے ۔ یہ قصہ مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کے دور میں ۱۷۳۲ سے ۱۷۵۹ کے درمیان عیسوی خان بہادر نے لکھا تھا جس کا اب صرف ایک قلمی مسودہ باقی بچا ہے اور حیدرآباد دکن میں ہے ۔ اسی قلمی نسخے کی مدد سے یہ کتاب پہلی دفعہ ۱۹۱۱ میں مخزن پریس دہلی سے طبع ہوئی تھی ۔ اس کا عکس ذیل میں دیکھ لیجئے ۔
الف عین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پچھلے کچھ دنوں سے مجھے انتظار حسین کے افسانوں کی چاٹ لگی ہوئی ہے۔ ان کے یہاں بھی بھید بھاؤ بمعنی راز و اسرار کے پڑھ کے مجھے تھوڑی حیرت ہوئی تھی کہ بھید بھاؤ تو تفرقہ اور امتیاز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، انتظار حسین جنہیں ہندی و ہندوستانی کلچر کی اچھی سمجھ تھی وہ ایسا کیوں لکھیں گے۔ پھر تھوڑا سوچنے کے بعد یہ سمجھ میں آیا کہ شاید بھید اور بھاؤ الگ الگ استعمال ہوئے ہیں، یعنی بھید بمعنی اسرار اور بھاؤ بمعنی جذبات وغیرہ کے۔
وہ جملہ یہاں نقل کر رہا ہوں۔
"میں نے پراکرتی کے بھید جانے، پر ناری کے بھید بھاؤ نہیں جانے۔"
(پتے)
فہد اشرف بھائی ، اوپر مراسلہ نمبر ۱۶ اور ۱۷ کو دیکھ لیجئے ۔ آپ کو اپنے اشکال کا جواب مل جائے گا۔ :)
بھید بھاؤ کھلنا ایک عام محاورہ ہے اور اس کے معنی ہے راز کا کھلنا یا کسی پوشیدہ بات کا ظاہر ہونا ۔
 
Top