فرخ منظور
لائبریرین
جاوید احمد غامدی صاحب کے ادارے المورد کی ویب سائٹ
http://www.al-mawrid.org/
http://www.al-mawrid.org/
جب تک کسی چیز کو اس کے بیان کرنے والے نظریے کے عین مطابق سمجھا نہ جائے وہ مشکوک ہی ہوتی ہے ۔ اور میرا یہ ماننا ہے کہ محض سنی سنائی باتوں یا دو چار ملاقاتوں سے کسی کو سمجھا نہیں جا سکتا ۔ محض اس بنیاد پر کسی کی شخصیت یا افکار کو مشکوک نہیں کہا جا سکتا کہ وہ معاملات کو کسی مخصوص عینک سے نہیں دیکھتا۔ مجھے بھی ان کے حوالے سے کچھ باتوں پر تحفظات ہیں مگر ان کی نیک نیتی شبہات سے بالاتر ہے ۔ بہرحال اس پر طویل بحث کی جا سکتی ہے اور ہو بھی چکی ہیں ، اسلئے اسے دوبارہ شروع کرنا بے فائدہ ہے ۔
وسلام
جب تک کسی چیز کو اس کے بیان کرنے والے نظریے کے عین مطابق سمجھا نہ جائے وہ مشکوک ہی ہوتی ہے ۔ اور میرا یہ ماننا ہے کہ محض سنی سنائی باتوں یا دو چار ملاقاتوں سے کسی کو سمجھا نہیں جا سکتا ۔ محض اس بنیاد پر کسی کی شخصیت یا افکار کو مشکوک نہیں کہا جا سکتا کہ وہ معاملات کو کسی مخصوص عینک سے نہیں دیکھتا۔ مجھے بھی ان کے حوالے سے کچھ باتوں پر تحفظات ہیں مگر ان کی نیک نیتی شبہات سے بالاتر ہے ۔ بہرحال اس پر طویل بحث کی جا سکتی ہے اور ہو بھی چکی ہیں ، اسلئے اسے دوبارہ شروع کرنا بے فائدہ ہے ۔
وسلام
آپ نے بالکل درست فرمایا اسی لیئے یہ لنک دے رہا ہوں جہاں دو عدد کتابیں مکمل حوالاجات کے ساتھ غامدی صاحب کی علمی خیانت یا امانت سے متعلق ہیں۔آپ خود بھی اور باقی احباب بھی انکا مطالعہ کرلیں اور فیصلہ کرلیں کہ غامدی صاحب کی شخصیت صرف مشکوک ہے یا آپ کی رائے اب کچھ اور ہے۔
والسلام
میری کوشش ہوتی ہے کہ بحث برائے بحث سے گریز کروں ، مگر یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اس قسم کی کتابیں ہر مسلک کی ایک دوسرے کے بارے میں موجود ہیں ، ایک غامدی صاحب پر ہی کیا موقوف ۔ اور یہ بھی کہ ان میں کس قسم کی “تحقیق“ شامل ہوتی ہے اس کا بھی مجھے خاصا تجربہ ہے۔آپ نے بالکل درست فرمایا اسی لیئے یہ لنک دے رہا ہوں جہاں دو عدد کتابیں مکمل حوالاجات کے ساتھ غامدی صاحب کی علمی خیانت یا امانت سے متعلق ہیں۔آپ خود بھی اور باقی احباب بھی انکا مطالعہ کرلیں اور فیصلہ کرلیں کہ غامدی صاحب کی شخصیت صرف مشکوک ہے یا آپ کی رائے اب کچھ اور ہے۔
والسلام
میری کوشش ہوتی ہے کہ بحث برائے بحث سے گریز کروں ، مگر یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اس قسم کی کتابیں ہر مسلک کی ایک دوسرے کے بارے میں موجود ہیں ، ایک غامدی صاحب پر ہی کیا موقوف ۔ اور یہ بھی کہ ان میں کس قسم کی “تحقیق“ شامل ہوتی ہے اس کا بھی مجھے خاصا تجربہ ہے۔
میں خود جاوید احمد غامدی صاحب سے ہزار اختلاف رکھتا ہوں لیکن میرا اس سائٹ کا لنک دینے کا مقصد تھا کہ ہم میں مختلف مکتبۂ فکر کے علما کو پڑھنے کا اور ان کا نقطۂ نظر جاننے کا شوق پیدا ہو نہ کہ ایک دوسرے کے علما کو مشکوک قرار دینے کے بارے میں بحث کی جائے۔ میرے خیال میں کسی عالم کے فتوے کی بجائے ہم خود انہیں پڑھنے کے بعد کوئی فیصلہ کریں تو زیادہ بہتر ہے ورنہ تو یہاں ہر عالم نے ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ دے رکھا ہے۔
میں کچھ نہیں کہوں گا اپنی عبارت پر غور کیجئے گا ذرا۔
میرے خیال میں آپ اجتہاد بھی کرنے لگے ہیں۔
اللہ نے حضرت موسیٰ کو جن تین طاقتوں سے لڑنے کا حکم دیا تھا اس میں فرعون، قارون اور تیسرا ہامان بھی تھا جو مذہبی پیشوائیت کا نمائیندہ تھا۔ افسوس یہی ہے کہ مسلمان بھی مذہبی پیشوائیت کا شکار ہو چکے ہیں اور خود تحقیق کرنے کو شجرِ ممنوعہ سمجھتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کو اپنا وارث کہا ہے۔ نہ کہ ہر کسی کو۔
اگر آپ عالم ہیں تو بسم اللہ۔
نہیں تو کیا آپ کے علمی معیار کا پیمانہ کیا ہے؟
قبلہ آپ کے تو بچپن کے دوست آپ کو نہیں سمجھا سکے۔ تو میں کس باغ کی مولی ہوں۔
یہ میرے سوال کا جواب نہیں؟
جہاں تک میں سمجھا ہوں تو آپ نے معیار کا پیمانہ میرے بچپن کے اس دوست کو ٹہرایا جو حدیث کو انسانوں کے ہاتھ کا لکھا ہوا کہہ کر انکار کرتا ہے۔