نیرنگ خیال
لائبریرین
جاوید اختر کی شاعری
پیڑ سے لپٹی سوچ کی بیل
پروفیسر گوپی چند نارنگ
پیڑ سے لپٹی سوچ کی بیل
پروفیسر گوپی چند نارنگ
’ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے، شاعر تووہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے‘۔ یہاں غالب نے شخص کو شاعری سے جدا کیا ہے ،جبکہ جو شخصیت کا نشیب وفراز ہے یا زندگی کی واردات ہے وہ تو شاعری میں جھانکے گی ہی لیکن شاعری محض آئینۂ ذات بھی نہیں، ہرچندکہ طوطی کوشش جہت سے مقابل ہے آئینہ، اور اسی کو دیکھ کر طوطی مشقِ نازکرتی ہے۔ شاعر کو مشرقی روایت میں طوطیِ شیریں مقال کہا جاتاہے، لیکن اپنے ہی عکس کو وہ اپنا ’غیر‘ تصور کرتی ہے تبھی محوِ کلام ہوتی ہے جبکہ سخن غیاب سے یعنی آئینہ کے پیچھے سے آتاہے، دوسرے لفظوں میں حالات و حوادث سے۔ گویا آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔ اسی لیے بعض علما نے شاعری کو شخصیت کامن وعن عکس نہیں اس سے گریز قرار دیاہے۔ یعنی واردات سے تومفر نہیں لیکن شاعری واردات کی وہ شکل ہے جس کی باطنی تخلیقی عمل سے قلبِ ماہیت ہو جاتی ہے۔پیشتر اِس کے کہ ہم جاوید اختر کی شاعری اور لاوا سے رجوع ہوں،اس بات کو یوں کہہ لیں کہ شاعری بلاشبہ زندگی کی گھنی واردات سے اُگتی ہے لیکن چشمِ تخیل ‘ غیاب سے بھی محوِ گفتگو رہتی ہے اور یوں شاعری جو صفحۂ قرطاس پر اتر تی ہے اس کی اپنی ایک تخلیقی شخصیت ہوتی ہے، شب و روز یعنی سیاہ و سفید کی میکانکی گردش سے الگ، وقت کے محور پر زندہ رہنے والی جو مستقبل سے بھی ہم کلام ہونے کی توفیق رکھتی ہے۔
مزید یہ کہ غالب نے مقطع میں لفظ ’بدنام‘ کو ایسی جگہ رکھا ہے کہ لفظ ’اچھا‘ کی اچھائی اور نمایاں ہوگئی ہے ‘ اور ’بدنام‘ بطور تعریض آیا ہے بمراد نیک نامی و شہرت ۔ بلاتشبیہ اتنی بات تو کہی جاسکتی ہے کہ کون نہیں جانتا کہ جاوید اختر کی شہرت ان کی شاعری سے کئی قدم آگے چلتی ہے، حالانکہ ہم کو اُس جاوید اختر سے مطلب نہیں جسے سلولائیڈ کی دنیا والے جانتے ہیں اور نہ جاننے کی طرح جانتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ عکس کی دنیا ہے جس کا رنگ ونوربھی سب عکس ہے Simulacra 151 یعنی اصل کہیں نہیں ہے، فقط ماسٹر ہے جو خود عکس ہے، جو ہے نہیں بنادیا گیا ہے، گویا یہ نمائش سراب کی سی ہے۔ جبکہ زبان اگرچہ وضعی ہے لیکن شعر اگر خونِ جگرسے لکھا گیا ہے اور باطن کی آگ سے آیا ہے تو نہ صرف اصل بلکہ زندگی کی صداقت و بصیرت کارازدان ہے جیسے کہ آگے چل کر ہم دیکھیں گے۔
جاوید اختر کی شخصیت کا ایک پہلو اور بھی ہے وہ بھی کم نمایا ں نہیں ۔ اردو کا شاید ہی کوئی شاعر ہوگا جو ددھیالی اور ننھیالی رشتوں سے اتنی جید اور تاریخ سازہستیوں سے جڑاہوا ہو اور علمی و شعری وراثت کڑی در کڑی اور سینہ در سینہ چلی آتی ہو۔ علامہ فضل حق خیرآبادی کا نام کون نہیں جانتا، بلا کے ذہین اپنے زمانے کے فاضلِ اجل تھے۔ غالب ان کے بہ دل مداح اور معترف تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دیوان کے انتخاب میں بھی ان کا مشورہ شامل تھا۔ غدر کے فتویٰ پر انھوں نے دستخط کیے تھے اور انگریزوں کے خلاف بغاوت کے الزام میں کالے پانی کی سزا پائی تھی اور پیشتر اس کے پروان�ۂ رہائی انڈمان پہنچتا ، وہ قیدِفرنگ اور قیدِ جسم دونوں سے آزاد ہوگئے۔ان کا مزارآج بھی انڈمان میں سمندر کے نیلے پانیوں کے کنارے ایک اونچے ٹیلے پر سرسبز پیڑوں سے ڈھکا ہوامرجعِ خلائق ہے۔ مولانا ان کے دادا کے دادا تھے۔ جاوید اختر کے دادا مضطر خیرآبادی اپنے زمانے کے قادرالکلام شاعر تھے۔ جاوید اختر، ترقی پسند شاعر جاں نثار اختر اور ’زیرلب‘ کی صفیہ اختر کے بیٹے اورجوانا مرگ شاعر مجازکے بھانجے ہیں۔ کیفی اعظمی سے بھی نسبت ہے، گویاایں ہمہ خانہ آفتاب است، اورلوح و قلم کی دولت سینہ بہ سینہ چلی آئی ہے۔ البتہ جاں نثار اختر اور مجاز نے اسے ایسی فیاضی سے لٹایا اور ٹھکانے لگا یاکہ بے سہارا والدہ کی دردناک موت کے بعد جب نوجواں ’جادو‘ بمبئی پہنچا تو اسے فٹ پاتھ کی بے اماں زندگی کے سوا کچھ نہ ملا۔ یوں اُس نے حالات و مصائب سے نبردآزما ہونا اور زمانے کے سردوگرم کو سمونا شروع ہی سے سیکھ لیا۔ جہدِ حیات واحد کلید ہے جو بند دروازوں کو کھول دیتی ہے۔ اندر کا لاوا جب زبان کا سونا بن کرباہرآیا تو اثر انگیز لفظوں میں ڈھلنے لگا۔ پُرکھوں اور بڑوں کا فیضان تو برابر پہنچا لیکن خونِ جگر کی کشید نے کسی کو حاوی نہیں ہونے دیا۔ جاوید اختر کی شاعری ہر جگہ ان کی اپنی شاعری ہے،اس میں ان کی اپنی آواز ہے، اپنا لہجہ اور اپنا پیرایۂ بیان ہے۔
البتہ کبھی کبھی باپ داداؤں سے بڑھ کر نگڑداداؤں یا پرُکھوں کا لاشعوری رشتہ خون میں حرف زن ہوتاہے۔ جرأت و حوصلہ مندی، نبرد آزمائی اور ذات پر اعتماد و یسے بھی آرکی ٹائپ ہیں جو لاشعوری رشتوں سے آتے ہیں۔ فقط ایک اشارہ کرتا ہوں بات واضح ہوجائے گی۔
تذکرۂ غوثیہ میں ایک دلچسپ واقعہ ان کے جدّ مولانا فضل حق خیرآبادی کے ضمن میں روایت ہوا ہے کہ مولانا فضل حق ،مولوی فضل امام خیرآبادی کے صاحبزادے اور معقولی علما میں خاص مرتبہ رکھتے تھے۔ عربی میں بھی شعر کہتے تھے۔ قابلیت ایسی کہ چھوٹی عمر میں ہی بڑی شہرت حاصل کرلی تھی۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ مولانا نے ایک قصیدہ عربی زبان میں امراء القیس کے قصیدہ پرکہا اور مولانا شاہ عبدالعزیز (شاہ ولی اللہ کے بڑے صاحبزادے) کی خدمت میں لائے۔ شاہ صاحب قبلہ نے ایک مقام پر اعتراض کیا۔ اس کے جواب میں انھوں نے بیس شعر متقدمین کے پڑھ دیے۔ مولوی فضلِ امام (والد ماجد) نے ٹوکا کہ بس حدِادب۔ انھوں نے جواب دیا کہ حضرت یہ کوئی علمِ تفسیر و حدیث تو ہے نہیں ‘ شاعری ہے۔ اس میں بے ادبی کی کیابات ہے۔مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب جن کے آگے کوئی دم نہیں مارسکتا تھا،سن کرانھوں نے فرمایا ’’برخوردار تو سچ کہتا ہے مجھ کو سہو ہواتھا‘‘۔
جاوید اختر کا مجموعہ ’ترکش‘ برسوں پہلے منظر عام پر آیاتھا۔ قرۃ العین حیدر نے اس پر صاد کیاتھا۔ جادو کے بچپن کی نشو ونما اور ایک نحیف و نزار حوصلہ مند خاتون کی ہمت وپامردی کا نہایت دردناک رپور تاژ تھا جس سے باطن میں حزن و ملال کی ایک چادرسی پھیل جاتی ہے۔ جاوید اختر نے غزلیں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی لیکن ان کا جادو نظموں میں چلا، جیسے ’وقت‘، ’وہ کمرہ یاد آتاہے‘، ’ ایک مہرے کا سفر‘، ’مری آوارگی‘، ’بھوک‘ ،’مدرٹریزا‘ گویا ان کا ٹریڈ مارک بن گئیں۔ لیکن یہ نظمیں جدید نظم کی اس روایت سے خاصی مختلف ہیں جو ن۔ م۔ راشد، میراجی اور اخترالایمان سے چلی آتی تھی یا جو مجاز و جاں نثار اختر و مخدوم و سردار جعفری و کیفی اعظمی سے عبارت تھی۔ خود جاوید اختر کی اپنی آواز کیاتھی؟ اپنے مسائل، اپنی سوچ ، اپنی شعری تشکیل، اپنے پیکر یااپنا پیرایۂ بیان کیاتھا جسے خود جاوید اختر کی شاعری نے وضع کیاتھا، یا جس پر کسی کی چھاپ نہیں تھی۔ اس سے آج تک کسی نے بحث نہیں کی ، داد البتہ سب دیتے ہیں۔ ایسے میں یہ دیکھنے کی کوشش ضروری ہے کہ ترکش میں کیا تیر ہیں جو کاری ہیں۔ شاعری شیوہ بیانی ہے، حسُن والوں کے غمزہ و ادا کا ایک نام نہیں ہوتا۔ شاعری کی کرشمہ کاری کی تحلیل یوں بھی آسان نہیں کہ جہاں لاوا ہے وہاںآگ بھی ہے، جہاں آگ ہے وہاں راکھ بھی ہے، جو جلتا ہے وہ بجھتا بھی ہے، جہاں تشکیل ہے وہاں تناؤ بھی ہوگا، کچھ شرار کا شتن اور شرارنو شتن کا عمل بھی ہوگا۔تنقید بازیافت کی سعی کرسکتی ہے۔
جاوید اختر کی نظموں میں چھوٹی بڑی ہر طرح کی نظمیں ہیں۔ ان کی بُنَت یا ساخت میں ایک چیز جو باربار متوجہ کرتی ہے وہ جاوید اختر کے ذہنی تجسس یا تفکر و تعقل کی کار کردگی ہے، یعنی ان کی سوچ کسی مئلہ کی کنہٖ کو پانے کی، کسی لاینحل نکتہ یا گتھی کو کھولنے کی یا کائنات کے اسرار، یا انسان کے باطن یا زندگی کے رازوں کو جاننے کی سعی ہے۔ ’یہ کھیل کیاہے‘، ’کائنات ‘ ، ’عجیب قصہ ہے‘، ’برگد‘، ’بروقت ایک اور خیال ‘ ان سب نظموں میں قدرِ مشترک ان کا ذہنی تجسس ہے، زندگی کے بھید کوجاننے یا رازکو پانے کی سعی و جستجو۔ دوسری بات یہ کہ بالعموم نظموں کی تشکیل میں جاوید اختر چھوٹے چھوٹے مصرعوں سے کام لیتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ لمبی بحروں میں انھوں نے لکھا نہیں، متعدد غزلیں طویل زمینوں میں ہیں، لیکن نظموں میں وہ پارہ پارہ کرکے چلتے ہیں، کڑی در کڑی موضوع کی شعری تشکیل میں درجہ بدرجہ گہرائی میں جاتے ہوئے نظم کی تعمیرکرتے ہیں۔تیسری خصوصیت یہ ہے کہ سوال پر سوال اٹھاتے ہیں۔ چوتھے یہ کہ ان درجہ بدرجہ سوچتے ہوئے سوالوں میں وہ قاری کو ساتھ رکھتے ہیں اور مکالمہ کرتے ہوئے، مصرع در مصرع سوال اٹھاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ پانچویں اور آخری بات یہ کہ ان نظموں میں فقط سوچ کی استفہامیہ ہی نہیں استعجابیہ فضا بھی ملتی ہے :
میں سوچتا ہوں
یہ مہرے کیا ہیں
اگر میں سمجھوں
کہ یہ جومہرے ہیں
صرف لکڑی کے ہیں کھلونے
توجیتناکیاہے ہارنا کیا
نظم کا عنوان ہے ’یہ کھیل کیاہے‘۔ نظم جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے اندازہ ہوتا ہے کہ بات شطرنج کی نہیں، زندگی کی ہے ۔یہ جیت ہارزندگی کی ہے ۔شطرنج فقط استعارہ ہے، سیاہ و سفید مہرے دن اور رات ہیں اور یہ ساری سرگرمی ساری کشاکش جدوجہدِحیات کی ہے :
یہ کھیل کب ہے
یہ جنگ ہے جس کو جیتنا ہے
تو سوچتا ہوں
یہ مہرے سچ مچ کے بادشاہ و وزیر
سچ مچ کے ہیں پیادے
اور ان کے آگے ہے
دشمنوں کی وہ فوج
رکھتی ہے جو کہ مجھ کو تباہ کرنے کے
سارے منصوبے
سب ارادے
پھر بادشاہ و وزیر تو طاقت اور مقتدرہ کے مظہر ہیں اور پیادے بے بس نادارانسان جن کی اپنی کوئی آواز نہیں ہے۔ یہاں سے جنگ کا استعارہ دوہرا ہوجاتا ہے ،یعنی یہ جنگ فقط ذاتی دفاع، منفعت یا بقا کی نہیں،بلکہ سماجی ظلم و بے انصافی کے استحصالی شکنجہ کے خلاف آگہی اور جدوجہد کادروا کرنے اور اس کے تےءں احساس کو گہرا کرنے کی ہے :
اس میں اس طرح کا اصول کیوں ہے
پیادہ جو اپنے گھر سے نکلے
پلٹ کے واپس نہ جانے پائے
اگر یہی ہے اصول
تو پھر اصول کیاہے
اگر یہی ہے کھیل
تو پھر یہ کھیل کیاہے
میں ان سوالوں سے جانے کب سے الجھ رہا ہوں
مرے مخالف نے چال چل دی ہے
اور اب میری چال کے انتظار میں ہے
اختتام پر پورے مبحث کو جس طرح سمیٹا اور ڈرامائی پیچ دیا ہے یہ بھی ان کی خصوصیتِ خاصہ ہے جس سے نظم کا لطف بڑھ جاتاہے۔
’کائنات‘ ایسی ہی ایک اور گرہ در گرہ تجسس مآب نظم ہے۔ آفاق کی وسعت، اس کا کراں تا کراں پھیلاؤ جس کی انتہا کی بھی انتہا نہیں، یہ ایک اور لاینحل مسئلہ ہے جس کو روٹین سمجھ کر بالعموم ہم بے تعلق، بے حس گزر جاتے ہیں۔ لیکن حکما و فلاسفہ، صوفیا و اولیا سب اس مسئلہ سے نبردآزما رہے ہیں۔ آئن سٹائن نے کہاتھا’ خدا پانسہ نہیں پھینکتا‘تب سے کوانٹم فزکس رازوں کے راز کھولنے میں لگی ہے لیکن راز کھل گئے ہوں ایسا نہیں ہے۔ زماں کی طرح مکاں بھی ایسا مسئلہ ہے جو سرّالاسرارہے۔ سوئٹزرلینڈ میں CERN اپنا کام کیے جاری ہے، Higgs Boson کی دریافت پر خوشی کی جو لہر اٹھی تھی وہ ہنوز غیر یقینی ہے۔ انجم عروجِ آدمِ خاکی سے لاکھ سہمیں، ستاروں کی گزر گاہیں ہنوز کہکشاؤں کی دھند میں لپٹی ہوئی ہیں۔ البتہ شاعر کی چشمِ تخیل اور وجدان جہاں پہنچتاہے صدیوں کے نوری فاصلے بھی اس کو نہیں پاٹ سکتے۔ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ جاوید اختر کی نگہِ تجسس ہرمنظر کو ٹٹولتی ہے، سوچتی ہے اور سوال قائم کرتی قاری کو افہام و تفہیم اور تحیر واستعجاب کے مکالمے میں شریک کرتی ہوئی چلتی ہے :
میں کتنی صدیوں سے تک رہا ہوں
یہ کائنات اور اس کی وسعت
تمام حیرت تمام حیرت
یہ کیا تماشایہ کیا سماں ہے ......
جسے سمجھتے ہیں ہم فلک ہے
کہ جس میں جگنو کی شکل میں
ہزاروں سورج پگھل رہے ہیں
شہاب ثاقب
آگ کے تیر جیسے چل رہے ہیں
کرورہا نوری برسوں کے فاصلوں میں پھیلی
یہ کہکشائیں ......
اورآخر میں پھر سوالوں کا سوال :
سوال یہ ہے
وہاں سے آگے کوئی زمیں ہے
کوئی فلک ہے
اگر نہیں ہے
تو یہ ’نہیں‘ کتنی دور تک ہے
یہ نہیں کہ شاعر کے پاس ان سوالوں کا کوئی حل ہے یا کائنات کے راز جاننے کاکوئی ’مول منتر‘ ہے۔ لیکن اول تو قاری کے ذہن میں تجسس کا شرارہ رکھ کر شاعر عام روٹین سے بے تعلقی یا خوش فہمی کاخول توڑ تاہے یا یوں کہاجائے کہ تعقل و تفکر کی سعی وجستجوسے پیچیدہ سوالوں کے تئیں احساس کو جگاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مذہب کے ٹھیکیدار جس طرح صداقت کی ساری کنجیاں اپنے پاس رکھتے ہیں یا عام انسان کے سوال پوچھنے کی صلاحیت کوبھی سلب کر دیناچاہتے ہیں جو فاشزم کا پہلاسبق ہے ،شاعر اس پر چوٹ کرتا ہے۔ مذہب انسان کی صلاح وفلاح کے لیے ہے، لیکن خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں کچھ لوگ مذہب کو ذاتی شئے بناکر سادہ لوح عوام میں اس کا سودا کرتے ہیں۔ ’واعظ‘ استعارتاً آیا ہے یہ برہمن یامولوی بھی ہو سکتا ہے یا گبر و مجوسی یا پارسی و پادری بھی۔یوں نظم دوہری معنویت پر ختم ہوتی ہے۔ اس میں شاید ہی کسی کو کلام ہو کہ تفکروتجسس کے اعتبار سے ’ترکش‘ کے زمانے کی نظم ’وقت‘ کی طرح یہ نظمیں بھی گہرے غور و فکر کا تقاضاکرتی ہیں۔
تفکرآلود لہجہ اور سوچ کی یہی دھار چھوٹی نظموں میں بھی ملتی ہے۔ البتہ ان نظموں کے مسائل اور سوال مختلف ہیں۔ مگرتعقل و تجسس ،کچھ سوچنے کھوجنے کی لگن، اور استفہامیہ مکا لمہ میں قاری کے وجود کی شمولیت کا پیرایہ وہی ہے ،جس کا اشارہ اوپر کیاگیا۔ مثلاً ’عجیب قصہ ہے‘ ’برگد‘ ’خداحافظ‘ ’آنسو ‘ ’زبان‘ ایسی ہی جیتی جاگتی سوچنے پر مجبور کرتی ہوئی نظمیں ہیں۔ ’عجیب قصہ ہے‘ جتنی انسانی رشتوں پر ہے جتنی اس مسئلہ پر کہ آئیڈیل یا منزل کو پانے کی خلش اس کی تڑپ اور جستجو میں ہے کامیابی میں نہیں۔ کئی بار کا مرانی اور آسودگی اپنابالعکس بھی بن جاتی ہے، یا ہر انقلاب کامیابی کے بعداپنے آئینہ کازنگ کیوں بن جاتاہے۔ ’آنسو‘ درد مندی کی داستان کہتاہے۔’برگد‘ قصباتی ثقافت کی یادیں تازہ کرتاہے کہ ہر چیز جوں کی توں ہے، موڑ بھی، لوگ بھی ،راستے بھی لیکن اپنائیت اور ٹھنڈک کی ایک چھاؤں تھی جو وقت کی گردش میں کھوگئی ہے جس کو واپس نہیں لایا جاسکتا۔
’زبان‘ ایک الگ طرح کی نظم ہے اور زیرنظر مجموعہ کا مطلع سرِدیوان بھی ہے۔ زماں اورمکاں کی طرح زبان بھی رازوں کا راز ہے۔ ازل اور ابدسے بے خبر، خودکار، خودنگر، خودآگاہ اورخود مختار۔ اپنشد کہتا ہے کہ 'kCn%cz227 یعنی شبد برہمہ ہے۔ جدید مفکر ہائیڈیگر کہتا ہے Language is Being ۔ مابعدجدیدی لاکاں جو فرائید کا ناخلف شاگرد اور آنندوردھن کا معترف ہے، بدلیل بتاتا ہے کہ انسانی لاشعور زبان کی طرح ہے اور خود زبان انسانی لاشعور کی طرح ہے۔ دیکھا جائے تو غالب کو ابتدائے جوانی میں کیوں کہناپڑا تھا :
ہجومِ سادہ لوحی نپبۂ گوشِ حریفاں ہے
وگر نہ خواب کی مضمر ہیں افسانے میں تعبیریں
زبان بھی ذات یا کائنات کی طرح ایک نکتۂ لاینحل ہے۔ جاوید اختر اپنے سہج انداز میں مصرع بہ مصرع اس سوال کو اٹھاتے ہیں اور گرہ در گرہ اس کو کھولتے ہیں :
سوچ رہاہوں
یہ جواک آواز الف ہے
سیدھی لکیر میں
یہ آخر کس نے بھردی تھی
کیوں سب نے یہ مان لیاتھا
سامنے میری میز پہ اک جو پھل رکھا ہے
اس کو سیب ہی کیوں کہتے ہیں
اس آواز کا اس پھل سے جو انوکھا رشتہ بناہے
کیسے بنا تھا
بیسویں صدی میں سوؤیری انقلاب کے بعد لفظ و معنی میں جو جوڑ تھا اس کا ٹانکا کھل گیا ہے۔ دیکھا جائے تو ابن قتیبہ اور قدامہ ابن جعفر سے ابن خلدون تک اور ہندی روایت میں ناگارجن اوربھرتری ہری سے شنکر آچاریہ تک شبدکو شبد اور اکھشر188v{kj189 کو اکھشر 188v{kj189 ہی کیوں کہاگیا۔ شاعر بغیر فقہی مباحث میں پڑے زبان کے بھید اور تحیر و استعجاب کی اس لامختتم کائنات کو کھولتا سوالوں کے سوال پر نظم کو کلائمکس پرلے آتاہے :
ساری چیزیں
سارے جذبے
سارے خیال
ان کی خبر اور
ان کے ہر پیغام کودینے پر فائز
ساری آوازیں
ان آوازوں کو اپنے گھر میں ٹھہراتی
اپنی امان میں رکھتی
ٹیڑھی میڑھی لکیریں
کس نے کنبہ جوڑا ہے
یہاں تک پہنچتے پہنچتے نظم مسئلہ کی گہرائی میں اتر جاتی ہے اور مسئلہ کو مزید غور و فکر کے لیے کھول دیتی ہے۔اکھشر کا مطلب ہے حصر، قائم، جو اپنی جگہ سے ہلایا نہ جا سکے، اٹل۔ جبکہ معنی سیّال ہے جتنا حاضر ہے اتنا غائب بھی ۔ رازوں کاراز یہ ہے کہ تبھی تو متن معنی پروری کرتا ہے اور قرأت کے تفاعل سے تناظر کے ساتھ ساتھ تعبیریں بدل جاتی ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ اس نظم سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس کو بار بار پڑھنا شرط ہے۔ مراۃالخیال سے بیدل کا ایک دلچسپ واقعہ نقل کیاجاتاہے جس سے اس نظم کی تعبیر کی ایک اور جہت وا ہوگی جس کو صاحبانِ ذوق خود پالیں گے۔بیدل کا مشہور مطلع ہے :
نشد آئینۂ کیفیتِ ما ظاہر آرائی
نہاں ماندیم چوں معنی بچندیں لفظ پیدائی
(آرائش ظاہری کے باوجود ہماری اندرونی کیفیت کبھی آشکارنہ ہوئی، اتنے لفظوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم معنی کی طرح پنہاں رہے )
شیخ ناصرعلی نے اعتراض کیا دوسرا مصرع خلافِ دستور ہے کیونکہ معنی تابع ہے لفظ کے۔ بیدل نے جواب دیا : وہ معنی جسے آپ تابعِ لفظ قرار دیتے ہیں اس کی اصلیت بھی ایک لفظ سے زیادہ نہیں۔ جو چیز حقیقت میں معنی کہلاتی ہے وہ کسی لفظ میں نہیں سماسکتی، مثلاً انسان کی ماہیت ان شرحوں اور تفصیلوں کے باوجود جو کتابوں میں درج ہیں، بالکل نہیں کھل سکی۔ ناصر علی یہ جواب سن کر دم بخود رہ گئے۔
کہنے کی ضرورت نہیں کہ شاعر کا ذہن و تخئیل، چشم زدن میں جہا ں پہنچتا ہے فلسفوں کو وہاں تک پہنچنے میں صدیاں طے کرنا پڑتی ہیں۔
ابھی ایسی کئی اور نظمیں ہیں جن کے بارے میں گفتگو کی جاسکتی ہے، مثلاً ’جھونپڑپٹی‘ ’گھر میں بیٹھے کیالکھتے ہو ‘، ’میلہ ‘ اور ’پیڑ سے لپٹی بیل‘۔ شبانہ اور کیفی کے نام نظموں میں بھی خلوص کی آنچ اور سوچ کی لاگ ہے۔ ’گھر میں بیٹھے کیا لکھتے ہو‘ میں شاعروں کو تکتکایا ہے کہ ذرا اپنے خول سے باہر نکل کربھی دنیا کا نظارہ کرو۔یہ نظم دراصل ان نقادوں اور بزعم خود دانشوروں کو بھی پڑھنی چاہیے جو رعایت لفظی کی سوئیاں چنتے رہتے ہیں یا شعر کے ہجے کرتے ہیں اور نہیں جانناچاہتے کہ پوراانسانی منظرنامہ بدل چکا ہے۔ ’جھونپڑپٹی‘ میں جو اپنی وضع کی الگ دنیاہے محبتوں ،چاہتوں، انسانی رشتوں، نیزمافیا ، نشہ اور جرائم کی ، کیا اسے کسی اور خدا نے بنایا ہے۔ عذاب ثواب سب بے سہاروں کے سر،کرانے والے خود چوباروں میں رہتے ہیں، دستِ غیب تو کہیں اور ہے ۔بستیاں الگ بسادی ہیں یا انھیں گندی نالیوں میں دھکیل دیا ہے تو کیا خدا سے بھی محروم کردیا ہے ،یا ان کا خدا آنکھیں بند رکھتا ہے۔’میلہ ‘ میں بھی فکر کی رَو تہ نشیں ہے اور نکتہ رسی کا حق ادا کیا ہے ۔یہ زندگی بھی ایک میلہ ہے جس میں بچے اور باپ کی خیالی تصویر اور مکالمہ ہے کہ وقت کا دائرہ کس طرح عمروں کی تعبیر کو بدل دیتا ہے اور وہی بچہ جو باپ کے کندھے سے لگ کر سوتا ہے، جب بڑا ہوجاتا ہے اور باپ بوڑھا توخود باپ کو بیٹے کے کندھے کی ضرورت ہوتی ہے۔
جاوید اختر کی غزلیں بھی اتنی ہی فکر انگیز اور دل خوش کن ہیں۔ غزل کا ہر شعر واحدہ ہوتاہے لیکن بعض غزلوں میں بھی رواں دواں کیفیت ہے۔ ان میں بھی جذباتیت کم اور تعقل و تفکر کی فضا ہے جو نظموں میں ہے۔ غزل کی ایمائیت میں حکیمانہ روایت کا اپنا مقام ہے، لیکن یہاں بھی جاوید اختر کا انداز الگ ہے۔ اکثر ان میں بھی تجسس و تفکر کی مربوط کیفیت ملتی ہے جو اپنا لطف رکھتی ہے۔ مثلاً آج کی صارفیت نے انسانی قدروں اور معاشرتی نقشے کو جیسے درہم برہم کردیا ہے، اس ضمن میں یہ اشعار ایک اور ہی درد دل کہتے نظر آتے ہیں، اور یہ کیفیت آج سے بیس تیس برس پہلے کی نہیں، آج کی زندگی کی ہے :
نگل گئے سب کی سب سمندر زمیں بچی اب کہیں نہیں ہے
بچاتے ہم اپنی جان جس میں وہ کشتی بھی اب کہیں نہیں ہے
بہت دنوں بعد پائی فرصت تو میں نے خود کو پلٹ کے دیکھا
مگر میں پہچانتا تھا جس کو وہ آدمی اب کہیں نہیں ہے
گزر گیا وقت دل پہ لکھ کر نجانے کیسی عجیب باتیں
ورق پلٹتا ہوں میں جو دل کے تو سادگی اب کہیں نہیں ہے
تم اپنے قصبوں میں جاکے دیکھو وہاں بھی اب شہر ہی بسے ہیں
کہ ڈھونڈتے ہو جو زندگی تم وہ زندگی اب کہیں نہیں ہے
یا جب جدوجہد کاباب بند ہو جاتاہے تو ولولے کیسے سرد پڑ جاتے ہیں اور تحریکیں کیسے خود اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرلیتی ہیں :
وہ زمانہ گزر گیا کب کا
تھا جو دیوانہ مرگیا کب کا
ڈھونڈتا تھا جو اک نئی دنیا
لوٹ کے اپنے گھر گیا کب کا
وہ جو لایا تھا ہم کو دریا تک
پار اکیلے اتر گیا کب کا
خواب در خواب جو تھا شیرازہ
اب کہاں ہے بکھر گیا کب کا
اسی طرح ذیل کے کچھ اشعار اس نوع کے ہیں کہ ان کی فکر آلود معنویت اور لطف و کیفیت دیکھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتی ہے :
احساس کا مسکن ہے ان افکار سے آگے
جنگل یہ عجب آتا ہے بازار سے آگے
کسی کی آنکھ میں مستی تو آج بھی ہے وہی
مگر کبھی جو ہمیں تھا خمار جاتا رہا
آج وہ بھی بچھڑ گیا ہم سے
چلیے یہ قصہ بھی تمام ہوا
کچھ بچھڑنے کے بھی طریقے ہیں
خیر جانے دو جو ہوا جیسے
شب کی دہلیز پر شفق ہے لہو
پھر ہوا قتل آفتاب کوئی
کبھی جو تلخ کلامی تھی وہ بھی ختم ہوئی
کبھی گلا تھا ہمیں اُن سے اب گلا بھی نہیں
میں کب سے کتنا ہوں تنہا تجھے پتہ بھی نہیں
ترا تو کوئی خدا ہے مرا خدا بھی نہیں
زندگی کی شراب مانگتے ہو
ہم کو دیکھو کہ پی کے پیاسے ہیں
نہ تو دم لیتی ہے تو اور نہ ہوا تھمتی ہے
زندگی زلف تری کوئی سنوارے کیسے
پُرسکوں لگتی ہے کتنی جھیل کے پانی پہ بط
پیروں کی بے تابیاں پانی کے اندر دیکھیے
آج میں نے اپنا پھر سودا کیا
اور پھر میں دور سے دیکھا کیا
زندگی بھر میرے کام آئے اصول
ایک اک کر کے انھیں بیچا کیا
نہ کوئی عشق ہے باقی نہ کوئی پرچم ہے
لوگ دیوانے بھلا کس کے سبب ہو جائیں
ہمارے ذہن کی بستی میں آگ ایسی لگی
کہ جو تھا خاک ہوا اک دکان باقی ہے
ڈھلکی شانوں سے ہر یقیں کی قبا
زندگی لے رہی ہے انگڑائی
یہ جاوید اختر کے آتش کدے کی کچھ چنگاریاں ہیں۔ لاوا جب جم جاتا ہے تو اس سے چٹانیں چوٹیاں اور وادیاں ابھرتی ہیں ۔ ہم نے ان کی ایک جھلک دیکھی، دوسری قرأتوں سے دوسرے مناظر نہ ابھریں ایسا ممکن نہیں ۔ کوئی ایک قرأت دوسرے امکانات کو ختم نہیں کرتی۔ اس مجموعہ کی آخری نظم’ پیڑسے لپٹی بیل ‘ کا شمار میں جاوید اختر کی حسّاس ترین نظموں میں کرتا ہوں۔ اس میں فکر وتجسس کی وہی سوال کرتی ہوئی استعاراتی کیفیت ہے ، وہی چھوٹے چھوٹے مصرعے، وہی استعجابیہ اور استفہامیہ فضاہے جو ان کے تخلیقی دستخط کا درجہ رکھتی ہے۔ بیل تو پیڑ کی ایک ڈال سے لپٹی بے مایہ چیز تھی۔ پیڑ کی خوشبواور رنگت اس میں سماتی چلی گئی اور بجائے خود یہ پیڑ کے وجود کا حصہ بن گئی۔’پیڑ کے یوں تو سو افسانے تھے، پر بیل کا کوئی ذکرنہیں تھا‘۔ پھر کیسے آج بیل اپنی بانہوں میں پیڑ کے وجود کو سنبھالے اس کی زندگی کا سہارا بنی ہوئی ہے؟
بیل اپنی بانہوں میں اب ہے پیڑ سنبھالے
دھیرے دھیرے
گھائل شاخوں پر
پتے پھر سے نکل رہے ہیں
دھیرے دھیرے
نئی جڑیں پھوٹی ہیں
اور دھرتی میں گہری اتر رہی ہیں
بیل پہ جیسے
ایک نئی مسکان کے ننھے پھول کھلے ہیں
زندگی کی نامہری اور نا امیدی کو امید سے بدل دینے کا منظر نامہ ہے۔ لیکن یہ پیڑ کیا ہے اور یہ بیل کون ہے جو آس و امید کااستعارہ اور نموکی نوید ہے، پھر لپٹی ہوئی بھی اسقدر ہے کہ الگ نہیں کی جاسکتی۔ یہ اشارہ ضروری ہے کہ جاوید اختر کی شاعری میں جذباتیت کا طوفان نہیں۔ یہاں جوش و خروش کی آندھیاں نہیں۔ حوصلہ مندی اور امید تو ہے لیکن باگیں کھچی ہوئی ہیں۔ لاوا توہے، آگ بھی اور تجسس آلودشرار کا شتن بھی جسے ہم دیکھتے آئے ہیں،لیکن وہ اکہری رومانیت نہیں جس کی ہیجان پسندی نے بعض نامی گرامی شعراکی شاعری کو جذبات کی دلدل بنادیاتھا۔ فولاد کا جوہر زہراب میں اگا یاجاتا ہے، یہاں ایک سنبھلی ہوئی کیفیت ہے ، فکر میں ڈوبی ہوئی، تجسس آلود سوال کرتی ہوئی، مسائل کو انگیز کرتی ہوئی اور قاری کو غوروفکر پر مجبور کرتی ہوئی۔یہاں زندگی کے نشیب و فراز، مسائل اور مظاہر کی نوعیت و ماہیت پر غور کرنے اور سوالوں کا جواب تلاش کرنے والا ایک مضطرب ذہن سامنے آتا ہے۔ غالب نے کہا تھا :
رشک ہے آسائشِ اربابِ غفلت پر اسد
اضطرابِ دل نصیبِ خاطرِ آگاہ ہے
یہ اضطرابِ دل اور خاطرِ آگاہ، حسّاس انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہیں۔ بچپن کے دکھوں اورمحرو میوں میں تابِ مقاومت اور اندر کے زخمی انسان کی مدافعت کی یہی ایک صورت تھی کہ زمانے کے وار کو کند کرنے، ہر بات پر سوچ کی دھاررکھنے اور جہد حیات کے لیے مہمیز کرنے والے ایک خلّاق ذہن کی نشو و نما ہوتی چلی گئی۔سورج اب نصف النہار سے آگے نکل آیا ہے۔پیڑ آندھیوں اور طوفانوں کوجھیل چکا ہے۔شاخ در شاخ لپٹی ہوئی باطن کی سوچ بیل ہی ہے جو بانہوں میں پیڑ کو سنبھالے ہوئے ہے، یہ ہر مرحلہ پر پیڑ کے ساتھُ اگتی اور پھیلتی رہی ہے۔ آج اگر اس میں رنگ ونور ہے تو یہ فقط پیڑ ہی کے لیے نہیں سب کے لیے خوش آئند ہے۔
ماخذ