زبیر احمد
محفلین
اسرارِ خودی لکھتے وقت رفتہ رفتہ اقبالؒ کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ مثنوی وہ از خود نہیں لکھ رہے بلکہ انہیں اس کو لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے. مہاراجہ کرشن پرشاد کے نام اپنے خط محررہ ١٤ اپریل ١٩١٦ء میں تحریر کرتے ہیں؛
"یہ مثنوی جس کا نام اسرارِ خودی ہے، ایک مقصد سامنے رکھ کر لی گئی ہے. میری فطرت کا طبعی اور قدرتی میلان سکر و مستی و بیخودی کی طرف ہے. مگر قسم ہے اُس خدائے واحد کی جس کے قبضہ میں میری جان و مال و آبرو ہے، میں نے یہ مثنوی از خود نہیں لکھی. بلکہ مجھے اس کو لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا مضمون لکھنے کے لیے کیوں انتخاب کیا گیا. جب تک اس کا دوسرا حصہ ختم نہ ہو لے گا، میری روح کو چین نہ آئے گا. اس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ بس میرا یہی ایک فرض ہے اور شاید میری زندگی کا اصل مقصد ہی یہی ہے. مجھے یہ معلوم تھا کہ اس کی مخالفت ہوگی کیونکہ ہم سب انحطاط کے زمانہ کی پیداوار ہیں اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے تمام عناصر و اجزا و اسباب کو اپنے شکار (خواہ وہ شکار کوئی قوم ہو خواہ فرد) کی نگاہ میں محبوب و مطلوب بنا دیتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بدنصیب شکار اپنے تباہ و برباد کرنے والے اسباب کو اپنا بہتری مُربّی تصور کرتا ہے مگر ؏
مَن صَدائے شاعرِ فَرداستَم
اور ؎
نا اُمیدستم زِ یارانِ قدیم
طور من سوزد کہ مے آید کلیم
نہ خواجہ حسن نظامی رہے گا نہ اِقبالؒ. یہ بیج جو مردہ زمین میں اِقبالؒ نے بویا ہے، اُگے گا، ضرور اُگے گا اور علی الرغم مخالفت بار آور ہو گا. مجھ سے اس کی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے. اَلْحَمْدُ لِلّٰہ "
(از : جاوید نامہ)
"یہ مثنوی جس کا نام اسرارِ خودی ہے، ایک مقصد سامنے رکھ کر لی گئی ہے. میری فطرت کا طبعی اور قدرتی میلان سکر و مستی و بیخودی کی طرف ہے. مگر قسم ہے اُس خدائے واحد کی جس کے قبضہ میں میری جان و مال و آبرو ہے، میں نے یہ مثنوی از خود نہیں لکھی. بلکہ مجھے اس کو لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا مضمون لکھنے کے لیے کیوں انتخاب کیا گیا. جب تک اس کا دوسرا حصہ ختم نہ ہو لے گا، میری روح کو چین نہ آئے گا. اس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ بس میرا یہی ایک فرض ہے اور شاید میری زندگی کا اصل مقصد ہی یہی ہے. مجھے یہ معلوم تھا کہ اس کی مخالفت ہوگی کیونکہ ہم سب انحطاط کے زمانہ کی پیداوار ہیں اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے تمام عناصر و اجزا و اسباب کو اپنے شکار (خواہ وہ شکار کوئی قوم ہو خواہ فرد) کی نگاہ میں محبوب و مطلوب بنا دیتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بدنصیب شکار اپنے تباہ و برباد کرنے والے اسباب کو اپنا بہتری مُربّی تصور کرتا ہے مگر ؏
مَن صَدائے شاعرِ فَرداستَم
اور ؎
نا اُمیدستم زِ یارانِ قدیم
طور من سوزد کہ مے آید کلیم
نہ خواجہ حسن نظامی رہے گا نہ اِقبالؒ. یہ بیج جو مردہ زمین میں اِقبالؒ نے بویا ہے، اُگے گا، ضرور اُگے گا اور علی الرغم مخالفت بار آور ہو گا. مجھ سے اس کی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے. اَلْحَمْدُ لِلّٰہ "
(از : جاوید نامہ)