جاوید چوہدری کا تازہ کالم

یوسف-2

محفلین
یہ ہے شریعت
والدہ نے سات دن دودھ پِلایا، آٹھویں دن دشمن اسلام ابو لہب کی کنیز ثوبیہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا، ثوبیہ نے دودھ بھی پلایا اور دیکھ بھال بھی کی، یہ چند دن کی دیکھ بھال تھی، یہ چند دن کا دودھ تھا لیکن ہمارے رسولؐ نے اس احسان کو پوری زندگی یاد رکھا، مکہ کا دور تھا تو ثوبیہ کو میری ماں میری ماں کہہ کر پکارتے تھے، ان سے حسن سلوک بھی فرماتے تھے، ان کی مالی معاونت بھی کرتے تھے، مدنی دور آیا تو مدینہ سے ابولہب کی کنیز ثوبیہ کے لیے کپڑے اور رقم بھجواتے تھے، یہ ہے شریعت۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضاعی ماں تھیں، یہ ملاقات کے لیے آئیں، دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور میری ماں، میری ماں پکارتے ہوئے ان کی طرف دوڑ پڑے، وہ قریب آئیں تو اپنے سر سے وہ چادر اتار کر زمین پر بچھا دی جسے ہم کائنات کی قیمتی ترین متاع سمجھتے ہیں، اپنی رضاعی ماں کو اس پر بٹھایا، غور سے ان کی بات سنی اور ان کی تمام حاجتیں پوری فرما دیں، یہ بھی ذہن میں رہے، حضرت حلیمہ سعدیہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، وہ اپنے پرانے مذہب پر قائم رہی تھیں، فتح مکہ کے وقت حضرت حلیمہ کی بہن خدمت میں حاضر ہوئی، ماں کے بارے میں پوچھا، بتایا گیا، وہ انتقال فرما چکی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، روتے جاتے تھے اور حضرت حلیمہ کو یاد کرتے جاتے تھے، رضاعی خالہ کو لباس، سواری اور ایک سو درہم عنایت کیے، رضاعی بہن شیما غزوہ حنین کے قیدیوں میں شریک تھی، پتہ چلا تو انھیں بلایا، اپنی چادر بچھا کر بٹھایا، اپنے ہاں قیام کی دعوت دی، حضرت شیما نے اپنے قبیلے میں واپس جانے کی خواہش ظاہر کی، رضاعی بہن کو غلام، لونڈی اور بکریاں دے کر رخصت کر دیا ، یہ بعد ازاں اسلام لے آئیں، یہ ہے شریعت۔

جنگ بدر کے قیدیوں میں پڑھے لکھے کفار بھی شامل تھے، ان کافروں کو مسلمانوں کو پڑھانے، لکھانے اور سکھانے کے عوض رہا کیا گیا، حضرت زید بن ثابتؓ کو عبرانی سیکھنے کا حکم دیا' آپؓ نے عبرانی زبان سیکھی اور یہ اس زبان میں یہودیوں سے خط و کتابت کرتے رہے، کافروں کا ایک شاعر تھا، سہیل بن عمرو۔ یہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں بھی کرتا تھا اور توہین آمیز شعر بھی کہتا تھا، یہ جنگ بدر میں گرفتار ہوا، سہیل بن عمرو کو بارگاہ رسالت میں پیش کیا گیا، حضرت عمرؓ نے تجویز دی، میں اس کے دو نچلے دانت نکال دیتا ہوں' یہ اس کے بعد شعر نہیں پڑھ سکے گا، تڑپ کر فرمایا '' میں اگر اس کے اعضاء بگاڑوں گا تو اللہ میرے اعضاء بگاڑ دے گا'' سہیل بن عمرو نے نرمی کا دریا بہتے دیکھا تو عرض کیا '' مجھے فدیہ کے بغیر رہا کر دیا جائے گا'' اس سے پوچھا گیا ''کیوں؟'' سہیل بن عمرو نے جواب دیا '' میری پانچ بیٹیاں ہیں، میرے علاوہ ان کا کوئی سہارا نہیں'' رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن عمرو کو اسی وقت رہا کر دیا، یہاں آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے، سہیل بن عمرو شاعر بھی تھا اور گستاخ رسول بھی لیکن رحمت اللعالمینؐ کی غیرت نے گوارہ نہ کیا، یہ پانچ بچیوں کے کفیل کو قید میں رکھیں یا پھر اس کے دو دانت توڑ دیں' یہ ہے شریعت۔

غزوہ خندق کا واقعہ ملاحظہ کیجیے' عمرو بن عبدود مشرک بھی تھا، ظالم بھی اور کفار کی طرف سے مدینہ پر حملہ آور بھی ۔ جنگ کے دوران عمرو بن عبدود مارا گیا، اس کی لاش تڑپ کر خندق میں گر گئی، کفار اس کی لاش نکالنا چاہتے تھے لیکن انھیں خطرہ تھا، مسلمان ان پر تیر برسا دیں گے، کفار نے اپنا سفیر بھجوایا، سفیر نے لاش نکالنے کے عوض دس ہزار دینار دینے کی پیش کش کی، رحمت اللعالمینؐ نے فرمایا ''میں مردہ فروش نہیں ہوں، ہم لاشوں کا سودا نہیں کرتے، یہ ہمارے لیے جائز نہیں'' کفار کو عمرو بن عبدود کی لاش اٹھانے کی اجازت دے دی، خیبر کا قلعہ فتح ہوا تو یہودیوں کی عبادت گاہوں میں تورات کے نسخے پڑے تھے، تورات کے سارے نسخے اکٹھے کروائے اور نہایت ادب کے ساتھ یہ نسخے یہودیوں کو پہنچا دیے اور خیبر سے واپسی پر فجر کی نماز کے لیے جگانے کی ذمے داری حضرت بلالؓ کو سونپی گئی، حضرت بلالؓ کی آنکھ لگ گئی، سورج نکل آیا تو قافلے کی آنکھ کھلی، رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ سے فرمایا ''بلال آپ نے یہ کیا کیا'' حضرت بلالؓ نے عرض کیا ''یا رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس ذات نے آپؐ کو سلایا، اس نے مجھے بھی سلا دیا'' تبسم فرمایا اور حکم دیا ''تم اذان دو'' اذان دی گئی، آپؐ نے نماز ادا کروائی اور پھر فرمایا ''تم جب نماز بھول جاؤ تو پھر جس وقت یاد آئے اسی وقت پڑھ لو'' یہ ہے شریعت۔

حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سفر کر رہے تھے، کفار جنگ بدر کے لیے مکہ سے نکلے، کفار نے راستے میں حضرت حذیفہؓ کو گرفتار کر لیا، آپ سے پوچھا گیا، آپ کہاں جا رہے ہیں، حضرت حذیفہؓ نے عرض کیا ''مدینہ'' کفار نے ان سے کہا '' آپ اگر وعدہ کرو، آپ جنگ میں شریک نہیں ہو گے تو ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں'' حضرت حذیفہؓ نے وعدہ کر لیا، یہ اس کے بعد سیدھے مسلمانوں کے لشکر میں پہنچ گئے' مسلمانوں کو اس وقت مجاہدین کی ضرورت بھی تھی، جانوروں کی بھی اور ہتھیاروں کی بھی لیکن جب حضرت حذیفہ ؓ کے وعدے کے بارے میں علم ہوا تو مدینہ بھجوا دیا گیا اور فرمایا ''ہم کافروں سے معاہدے پورے کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں صرف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہیں'' نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا، رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائی پادریوں کو نہ صرف ان کے روایتی لباس میں قبول فرمایا بلکہ انھیں مسجد نبویؐ میں بھی ٹھہرایا اور انھیں ان کے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی تھی' یہ عیسائی وفد جتنا عرصہ مدینہ میں رہا، یہ مسجد نبویؐ میں مقیم رہا اور مشرق کی طرف منہ کر کے عبادت کرتا رہا۔

ایک مسلمان نے کسی اہل کتاب کو قتل کر دیا، آپؐ نے مسلمان کے خلاف فیصلہ دیا اور یہ مسلمان قتل کے جرم میں قتل کر دیا گیا، حضرت سعد بن عبادہؓ نے فتح مکہ کے وقت مدنی ریاست کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا، یہ مکہ میں داخل ہوتے وقت جذباتی ہو گئے اور انھوں نے حضرت ابو سفیانؓ سے فرمایا ''آج لڑائی کا دن ہے، آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا'' رحمت اللعالمینؐ نے سنا تو ناراض ہو گئے، ان کے ہاتھ سے جھنڈا لیا، ان کے بیٹے قیسؓ کے سپرد کیا اور فرمایا ''نہیں آج لڑائی نہیں، رحمت اور معاف کرنے کا دن ہے''۔ مدینہ میں تھے تو مکہ میں قحط پڑ گیا، مدینہ سے رقم جمع کی، خوراک اور کپڑے اکٹھے کیے اور یہ سامان مکہ بھجوا دیا اور ساتھ ہی اپنے اتحادی قبائل کو ہدایت کی ''مکہ کے لوگوں پر برا وقت ہے، آپ لوگ ان سے تجارت ختم نہ کریں''۔ مدینہ کے یہودی اکثر مسلمانوں سے یہ بحث چھیڑ دیتے تھے ''نبی اکرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضیلت میں بلند ہیں یا حضرت موسیٰ ؑ '' یہ معاملہ جب بھی دربار رسالت میں پیش ہوتا، رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں سے فرماتے ''آپ لوگ اس بحث سے پرہیز کیا کریں''۔

ثماثہ بن اثال نے رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا اعلان کر رکھا تھا' یہ گرفتار ہو گیا، اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، اس نے انکار کر دیا، یہ تین دن قید میں رہا، اسے تین دن دعوت دی جاتی رہی، یہ مذہب بدلنے پر تیار نہ ہوا تو اسے چھوڑ دیا گیا، اس نے راستے میں غسل کیا، نیا لباس پہنا، واپس آیا اور دست مبارک پر بیعت کر لی۔ ابو العاص بن ربیع رحمت اللعالمین ؐکے داماد تھے، رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینبؓ ان کے عقد میں تھیں، یہ کافر تھے، یہ تجارتی قافلے کے ساتھ شام سے واپس مکہ جا رہے تھے، مسلمانوں نے قافلے کا مال چھین لیا، یہ فرار ہو کر مدینہ آگئے اور حضرت زینبؓ کے گھر پناہ لے لی، صاحبزادی مشورے کے لیے بارگاہ رسالت میں پیش ہو گئیں' رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''ابوالعاص کی رہائش کا اچھا بندوبست کرو مگر وہ تمہارے قریب نہ آئے کیونکہ تم اس کے لیے حلال نہیں ہو'' حضرت زینبؓ نے عرض کیا ''ابوالعاص اپنا مال واپس لینے آیا ہے'' مال چھیننے والوں کو بلایا اور فرمایا گیا ''یہ مال غنیمت ہے اور تم اس کے حق دار ہو لیکن اگر تم مہربانی کر کے ابوالعاص کا مال واپس کر دو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اجر دے گا'' صحابہؓ نے مال فوراً واپس کر دیا، آپ ملاحظہ کیجیے، حضرت زینبؓ قبول اسلام کی وجہ سے مشرک خاوند کے لیے حلال نہیں تھیں لیکن رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داماد کو صاحبزادی کے گھر سے نہیں نکالا، یہ ہے شریعت۔

حضرت عائشہ ؓنے ایک دن رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا '' زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا'' فرمایا، وہ دن جب میں طائف گیا اور عبدیالیل نے شہر کے بچے جمع کر کے مجھ پر پتھر برسائے، میں اس دن کی سختی نہیں بھول سکتا، عبدیالیل طائف کا سردار تھا، اس نے رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنا ظلم کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی جلال میں آ گئی' حضرت جبرائیل امین تشریف لائے اور عرض کیا، اگر اجازت دیں تو ہم اس پورے شہر کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیں، یہ سیرت کا اس نوعیت کا واحد واقعہ تھا کہ جبرائیل امین نے گستاخی رسول پر کسی بستی کو تباہ کرنے کی پیش کش کی ہو اور عبدیالیل اس ظلم کی وجہ تھا، عبد یالیل ایک بار طائف کے لوگوں کا وفد لے کر مدینہ منورہ آیا، رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؐ میں اس کا خیمہ لگایا اور عبد یالیل جتنے دن مدینہ میں رہا، رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز نماز عشاء کے بعد اس کے پاس جاتے' اس کا حال احوال پوچھتے، اس کے ساتھ گفتگو کرتے اور اس کی دل جوئی کرتے۔

عبداللہ بن ابی منافق اعظم تھا، یہ فوت ہوا تو اس کی تدفین کے لیے اپنا کرتہ مبارک بھی دیا' اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور یہ بھی فرمایا، میری ستر دعاؤں سے اگر اس کی مغفرت ہوسکتی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ بار اس کے لیے دعا کرتا'' یہ ہے شریعت۔ مدینہ کی حدود میں آپ کی حیات میں نو مسجدیں تعمیر ہوئیں، آپؐ نے فرمایا ''تم اگر کہیں مسجد دیکھو یا اذان کی آواز سنو تو وہاں کسی شخص کو قتل نہ کرو'' یہ ہے شریعت۔

ایک صحابیؓ نے عرض کیا ''یا رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی نصیحت فرمائیں'' جواب دیا ''غصہ نہ کرو'' وہ بار بار پوچھتا رہا، آپؐ ہر بار جواب دیتے ''غصہ نہ کرو'' یہ ہے شریعت اور اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا '' پیغمبرؐ اللہ کی بڑی رحمت ہیں، آپ لوگوں کے لیے بڑے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں، آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے چھٹ جاتے'' اور یہ ہے شریعت لیکن ہم لوگ نہ جانے کون سی شریعت تلاش کر رہے ہیں، ہم کس شریعت کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیا کوئی صاحب علم میری رہنمائی کرسکتا ہے؟۔ (روزنامہ ایکسپریس: 9۔ فروری 2014ء)
 

یوسف-2

محفلین
چڑیا گھر کی سیر کے دوران چند نابینا حضرات کو چڑیا گھر کے سب سے بڑے جانور ہاتھی سے ملوایا گیا۔جب انہوں نے ہاتھی کی بڑی تعریف سنی تو اسے ہاتھوں سے ٹٹول کر اسے "پہچاننے" کی کوشش کی کہ یہ جانور کیسا ہے۔سیر سے واپسی پر جب ان نابینا حضرات سے ہاتھی کو" ڈیفائن" کرنے کو کہاگیا تو ایک نے کہا کہ ہاتھی ایک موٹی رسی کی مانند ہے کیونکہ اس نے ہاتھی کے صرف سونڈکوہی ٹٹول کر "دیکھا " تھا۔ دوسرے نے کہا کہ ہاتھی ایک دستی پنکھے کی طرح ہے۔ موصوف نے ہاتھی کے صرف کانوں کو ہاتھ لگا کر "دیکھا" تھا۔تیسرے نے کہا کہ ہاتھی تو عمارتی ستونوں کی مانند ہے کہ اس نے ہاتھی کی ٹانگوں کو چھو کر ہاتھی کا تصورکیا تھا۔ غرضیکہ جس جس نابینا نے ہاتھی کے جس جس حصے کو ٹٹول کر ہاتھی کا تصور کیاتھا، انہیں ہاتھی ویسا ہی نظر آیا۔

ہم یہی حال اسلام اور شریعت کے ساتھ کر رہے ہیں۔ معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے اپنے حالیہ کالم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اعلیٰ اخلاقِ حسنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ: "یہ ہے شریعت۔لیکن ہم لوگ نہ جانے کون سی شریعت تلاش کر رہے ہیں؟ ہم کس شریعت کا مطالبہ کر رہے ہیں؟کیا کوئی صاحب علم میری رہنمائی کرسکتا ہے"۔گو میرا شمار اہل علم میں نہیں ہوتا، تاہم قرآن و حدیث کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے مجھے یہ بخوبی علم ہے کہ'اخلاقِ حسنہ' ، دینِ اسلام کا ایک اہم جزو ضرورہے،لیکن یہ کُل اسلام ہرگز نہیں ہے۔ دراصل اسلام کو ڈیفائن کرنے کے معاملہ میں ہم متذکرہ بالانابینا حضرات کی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں اور دانستہ یا نادانستہ اسلام کے کسی ایک پسندیدہ جزو کو پکڑ کر اسے ہی کُل اسلام سمجھ لیتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ اسلام پر گفتگو کرنے والے ہمارے دانشور اہل قلم کی بھاری اکثریت قرآن و حدیث کی زبان عربی سے نابلد ہونے کے سبب اسلام کو اس کے اصل مآخذ سے پڑھ کر سمجھنے سے ہی قاصر ہے۔عربی زبان سے ناواقفیت کا المیہ اپنی جگہ، لیکن اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہم میں سے بیشترمسلمان قلمکار ترجمہ کے ذریعہ سے بھی قرآن و حدیث کو اول تا آخر" مکمل" پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔مکمل پڑھے ہوئے سے میری مراد یہ ہے کہ قرآن کو الحمد سے لے کر والناس تک اور حدیث میں کم از کم صحیحین یعنی بخاری و مسلم کی جملہ کتب اور ابواب کو اول تا آخر کسی بھی زبان میں ترجمہ سے سمجھ کر پڑھنا۔ جب ہم دین اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن و حدیث کو ہی مکمل طور پر نہیں پڑھیں گے تو مکمل اسلام یا اسلامی شریعت کو کیسے جان پائیں گے۔ پھر ہم اسلام کو 'ڈیفائن' کرنے کے لئے انہی نابینا حضرات کی طرح کا مظاہرہ کریں گے کہ ہمیں اسلام کی جو بات معلوم ہو یا جو بات پسند ہو، اسی کو مکمل اسلام سمجھ بیٹھیں گے۔

یوں تواسلام کی مکمل تعریف قرآن ا ور احادیث میںہمیں جگہ جگہ مل جاتی ہے لیکن سورة العصرکو ایک ایسے کوزہ قرار دیا جاسکتا ہے جس میں اسلام کے سمندر کو اللہ تبارک تعالیٰ نے بڑی خوبصورتی سے سمو دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سورة میں فرماتے ہیں: "قسم ہے زمانے کی ! یقیناََ، انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو (۱) ایمان لائے (۲) اور کرتے رہے نیک عمل(۳)اور نصیحت کرتے رہے ایک دوسرے کو حق کی (۴) اورتلقین کرتے رہے ایک دوسرے کو صبر کی"۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ اس سورة کی رو سے صرف وہی لوگ کامیاب کہلائیں گے جو مرنے کے بعد بعد از حساب کتاب جنت میں داخل ہونے کے اہل قرار پائیں گے۔اوراس دنیا کے امتحان میں وہی لوگ کامیاب ہوں گے، جن لوگوں نے ان چاروں "سبجیکٹ" میں کم از کم پاسنگ مارکس توحاصل کئے ہوں۔گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام یا اسلامی شریعت بھی در اصل انہی چاروں "سبجیکٹ" کے تمام مضامین کے مجموعے کا نام ہے۔آئیے پر ہر سبجیکٹ کا انفرادی جائزہ لیتے ہیں۔

ا۔ ایمان اور عقائد: اللہ، اللہ کے فرشتوں، اللہ کی طرف سے بھیجے گئے تمام انبیاءعلیہ السلام( بشمول آخری نبی حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)،ا للہ کی نازل کردہ تمام الہامی کتب (بشمول آخری کتاب، قرآن مجید کا وہ نسخہ جو دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں حفاظ کے سینوں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے آج تک محفوظ رہتاچلا آیا ہے)،روز حشر، جنت ، دوزخ وغیرہ پر بعینہ اسی طرح ایمان لانا، جس طرح کہ قرآن مجید اور صحیح احادیث (صحیح بخاری، صحیح مسلم سمیت صحاح ستہ کی تمام صحیح احادیث، ضعیف یا موضوع احادیث نہیں) میں مذکور ہے۔

۲۔ نیک اعمال:ا عمال کے دو بنیادی اجزا یعنی عبادات اور دیگرمعاملاتِ دنیوی کو بالترتیب قرآن، صحیح احادیث، سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیرت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور اجماع امت کے مطابق ادا کرنا تاکہ یہ اعمال "نیک اعمال" بن سکیں۔عبادات اور مذہبی رسومات (نماز، روزہ، حج، زکوٰة، عمرہ،زیارات قبور، جہاد،تلاوت قرآن، نماز جنازہ اور تدفین وغیرہ ) کے معاملہ میں جائز اور ناجائز کا اُصول یہ ہے کہ یہ تمام کام بعینہ اُسی طرح ادا کئے جائیں ، جس طرح قرآن مجید اور صحیح احادیث میں بیان کیے گئے ہیںاور جن کاعملی نمونہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور دور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ملتا ہے۔ صرف یہی طریقہ عبادت اور مذہبی رسومات جائز ہیں۔ اس کے علاوہ تمام طریقہ عبادت اور مذہبی رسومات ناجائز اور حرام ہیں۔ اس کے برعکس دیگرمعاملاتِ دنیوی ( جیسے کھانا پینا، سونا جاگنا، سفر، ذریعہ معاش، نکاح، طلاق، تربیت اولاد، لین دین، دوسرے انسانوں سے تعلقات وغیرہ ) میں سب کچھ اور سارے طریقے "جائز اور حلال" ہیں سوائے اُن باتوں اور طریقوں کے جنہیں صاف صاف طریقہ سے بالترتیب قرآن مجید، صحیح احادیث، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیرت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور اجماع امت میں "ناجائز اور حرام" قرار دیا گیا ہے۔ "اجماع امت" یہ ہے کہ اگرکسی معاملہ میں قرآن، صحیح احادیث، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورسیرت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے واضح ہدایت نہ مل رہی ہوں اور ہدایت کی ضرورت بھی ہو تو یہ دیکھا جائے گاکہ ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک کے علمائے اسلام کی بھاری اکثریت اس معاملہ میں کیا رائے رکھتی ہے۔ اسی اکثریتی رائے کو حق قرار دیا جائے گا کیونکہ ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے:
" ان امتی لا تجتمع علی ضلالة بے شک میری امت گمراہی پر کبھی متفق نہ ہوگی"۔​

یعنی نیک اعمال کے دو بنیادی حصے ہیں۔ ایک عبادات اور مذہبی رسومات اور دوسرے دیگر تمام دنیوی معاملات۔دنیوی معاملات میں ایک اہم حصہ لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اورلوگوں کے ساتھ تعلقات کے دائرہ کار میں خوش اخلاقی اور حسن سلوک اسلامی شریعت کاایک نمایاں وصف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ اخلاقیات کے بلند ترین درجہ پر فائز تھے۔ محترم جاوید چوہدری نے انہی اخلاق حسنہ کا انتخاب پیش کرکے اپنے جادو بھرے قلم سے یہ بار بار باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہی تو شریعت ہے۔ گویا اس کے علاوہ شریعت میں کچھ نہیں ہے۔ نہ ایمانیات و عقائد، نہ عبادات و مذہبی رسومات، نہ معاملات ، نہ تلقین و تبلیغ حق اور نہ ہی صبر۔ بس صرف اور صرف انسانی تعلقات میں بلند اخلاقیات ہی کُل شریعت اسلامی ہے۔

۳۔ حق کی نصیحت: دین اسلام پورے کا پورا حق ہے۔ اس کی تلقین اور تبلیغ ہر مسلمان پر فرض عین ہے اور سورة عصر کی رو سے اس پر عمل کئے بغیر کوئی انسان اُخروی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ امر بالمعروف اور نی عن المنکر ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور وسائل کے مطابق اپنے گرد و پیش کے لوگوں کو معروف کا حکم دے اور انہیں منکرات سے روکے۔ قرآن میںاکثر مقامات پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے، انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ سورة آل عمران۔۴۰۱ میں ارشادِ ربانی ہے: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیک کاموں کا حکم کرے اور بُرے کاموں سے روکے۔ارشاد نبوی ہے :تم میں سے جو شخص برائی دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکنے اور اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے ہی اسے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور ترین درجہ ہے (مسلم، مشکوٰة )۔ہمیں اپنا اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ ہم میں سے کتنے مسلمان ہیں جوحق کی نصیحت کے معاملہ میں قرآن و حدیث کے احکامات پرعمل پیرا ہیں ۔

4۔ صبر کی تلقین: ایک اچھے مسلمان میںصبر و شکر کا وصف نمایاں طور پر نظر آنا چاہئے۔ اول تو ہم سب پر اللہ کے اتنے احسانات ہیں اوراللہ نے اتنی نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں کہ ہیں اگرہم ان سب کا شکریہ ادا کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرسکتے کہ بلا شبہ انسان بڑا ناشکرا ہے۔لیکن اس کے باوجود اگرکبھی ہماری ہی غلط حرکتو ں کی وجہ سے یا اللہ کی طرف سے آنے والی آز مائش کی بدولت ہمیں کبھی کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑ جائے تو رونے دھونے اور شکوہ شکایات میں ہم پیش پیش ہوے ہیں۔جبکہ سورة العصر کی رو سے کامیابی کا چوتھا اہم ترین ستون ہی صبر کرنا اور صبر کی تلقین کرنا ہے۔ اس مختصر سی تحریر کے ذریعہ شریعت کا ایک مکمل اور جامع تصور پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اللہ کمی بیشی معاف کرے۔
٭ ٭٭
 

x boy

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ ، پڑھ کر قلب کی تشفی ہوئی روحانی سکون ملا۔
جزاک اللہ
 

x boy

محفلین
میں نے متعدد بار قرآن الکریم میں پایا ،، اندھو کو راستہ نہیں دکھا سکتے ، گنگو گونگو کو باتیں نہیں سنا سکتے ،،
یوسف بھائی کچھ لوگ جان بوجھ کر جھٹلاتے ہیں اور اپنے ابلیسی گروہ کا کارندہ ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں
جبکہ ان کے ماں باپ مسلمان اور اسلام پر عمل والے پیدا کیے گئے ہیں۔
 
آخری تدوین:

سعود الحسن

محفلین
یہ ہے شریعت لیکن ہم لوگ نہ جانے کون سی شریعت تلاش کر رہے ہیں، ہم کس شریعت کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیا کوئی صاحب علم میری رہنمائی کرسکتا ہے؟۔

چڑیا گھر کی سیر کے دوران چند نابینا حضرات کو چڑیا گھر کے سب سے بڑے جانور ہاتھی سے ملوایا گیا۔جب انہوں نے ہاتھی کی بڑی تعریف سنی تو اسے ہاتھوں سے ٹٹول کر اسے "پہچاننے" کی کوشش کی کہ یہ جانور کیسا ہے۔سیر سے واپسی پر جب ان نابینا حضرات سے ہاتھی کو" ڈیفائن" کرنے کو کہاگیا تو ایک نے کہا کہ ہاتھی ایک موٹی رسی کی مانند ہے کیونکہ اس نے ہاتھی کے صرف سونڈکوہی ٹٹول کر "دیکھا " تھا۔ دوسرے نے کہا کہ ہاتھی ایک دستی پنکھے کی طرح ہے۔ موصوف نے ہاتھی کے صرف کانوں کو ہاتھ لگا کر "دیکھا" تھا۔تیسرے نے کہا کہ ہاتھی تو عمارتی ستونوں کی مانند ہے کہ اس نے ہاتھی کی ٹانگوں کو چھو کر ہاتھی کا تصورکیا تھا۔ غرضیکہ جس جس نابینا نے ہاتھی کے جس جس حصے کو ٹٹول کر ہاتھی کا تصور کیاتھا، انہیں ہاتھی ویسا ہی نظر آیا۔

ہم یہی حال اسلام اور شریعت کے ساتھ کر رہے ہیں۔ معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے اپنے حالیہ کالم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اعلیٰ اخلاقِ حسنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ: "یہ ہے شریعت۔لیکن ہم لوگ نہ جانے کون سی شریعت تلاش کر رہے ہیں؟ ہم کس شریعت کا مطالبہ کر رہے ہیں؟کیا کوئی صاحب علم میری رہنمائی کرسکتا ہے"۔گو میرا شمار اہل علم میں نہیں ہوتا، تاہم قرآن و حدیث کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے مجھے یہ بخوبی علم ہے کہ'اخلاقِ حسنہ' ، دینِ اسلام کا ایک اہم جزو ضرورہے،لیکن یہ کُل اسلام ہرگز نہیں ہے۔ دراصل اسلام کو ڈیفائن کرنے کے معاملہ میں ہم متذکرہ بالانابینا حضرات کی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں اور دانستہ یا نادانستہ اسلام کے کسی ایک پسندیدہ جزو کو پکڑ کر اسے ہی کُل اسلام سمجھ لیتے ہیں۔

حضرت میں آپ کی تحریر کا شان نزول نہیں سمجھ سکا، اس پورے کالم میں انسانوں اور خاص کر غیر مسلموں سے اسلام میں حسن سلوک کو بیان کیا گیا ہے اور جگہ جگہ کہا گیا ہے کہ یہ ہے شریت کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ صرف یہی شریعت ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور چیز شریعت نہیں ۔ اگر آپ شریعت کے اس پہلو سے متفق نہیں تھے تو اس حوالے سے یعنی انسانوں اور غیر مسلموں سے حسن سلوک یا اگر آپ مناب سمجھتیں ہیں تو بدسلوکی کے حوالے سے بات کرتے، پھر آپ کو یہ خیال کیوں آگیا کہ مکمل شریعت کا بیان شروع کردیں، جو اس کالم کا موضوع بحث نہیں ہے۔

جہاں تک آپ کی ہاتھی کو ہاتھوں سے ٹٹول کر "پہچاننے" کی کوشش ، ذکر ہے تو یہ حوالہ عام لوگوں پر نہیں بلکہ ان علما پر آتا ہے جو اسلام کو ہاتھی سمجھ کر اپنے اپنے طور پر ٹٹولتے ہیں اور پھر اپنی مرضی اور پسند کی شریعت کی تبلیغ شروع کردیتے ہیں اور بد قسمتی سے ان نابینا عالموں کی تعداد چار نہیں بلکہ سینکڑوں میں پہنچ چکی ہے اور اکثر صورتوں میں اس نابینا عالم کی بات سے اتفاق نہ کرنے والے سیدھے کافر اور جہنمی قرار پاتے ہیں، جیسا کہ آپ کی تحریر سے بھی ظاہر ہو رہا ہے، لہذا ایک عام آدمی کے پاس کافر کہلوانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ یا تو لاتعلق ہو جائے یا اسلام کو خود ہی سمجھنے کی
کوشش کرے۔ لیکن بحرحال کسی نہ کسی سے کافر کہلوانا اس کا مقدر ہے۔
 
Top