جاوید چوہدری کے مخالفین کے لئے!

arifkarim

معطل
news-1415653340-7063.jpg

مجھے اس بات کابخوبی اندازہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے میرے قلم سے نکلے ہوئے ہرلفظ کوقارئین بہت پسند کرتے ہیں،چاہے وہ کالم کی شکل میں ہو یا شاعری کی صورت میں ہر لفظ میرے قارئین میں بہت مقبولیت حاصل کر جاتا ہے،کیونکہ مَیں نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ حق اورسچ لکھوں،جبکہ غریب آدمی کی آواز بنوں۔ مجھے فیس بُک پیج کے ذریعے قارئین کے حوصلہ افزا میسج ملتے رہتے ہیں، سبھی میسج میں ایک سے بڑھ کر ایک میرے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ کو سراہا جاتا ہے، (نوٹ: مَیں فارغ اوقات میں صرف فیس بُک اور ٹویٹر اکاؤنٹ پر لوگوں کی طرف سے کئے گئے میسج یا کامنٹس پڑھتا ہوں، اگر کسی نے میرے کالموں کے بارے میں اپنی رائے دینی ہو تو وہ صرف ان دونوں ذرائع سے مجھ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، باقی کسی ویب سائٹ پرکئے گئے کامنٹس کونہ میں پڑھتا ہوں اور نہ ہی کوئی اپناٹائم ضائع کرے)۔ اب چلتا ہوں مَیں اپنے اصل ٹاپک کی طرف پچھلے دنوں میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا میں جب بھی فیس بُک پرکوئی پوسٹ شیئر کرتا اس کو ہر کوئی پسندکرتا اور اس پوسٹ پر مختلف افراد مختلف انداز میں تعریفی کامنٹس بھی کرتے تھے، لیکن ہر پوسٹ پرمجھے ایک تنقیدی میسج بھی ضرور موصول ہوتاتھا،ہردفعہ کامنٹ کرنے والے کا نام نیا ہوتا تھا، مگر ان تمام کامنٹس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ایک ہی آدمی مختلف نام استعمال کر کے کامنٹس کررہاہو۔
غصے کی بات یہ تھی کہ اس کے کامنٹس بھی کوئی تعمیری نہیں ہوتے تھے بلکہ اس کی باتوں سے ایسامحسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ پاگل پن کامریض ہواور کسی پاگل خانے میں بیٹھ کرکامنٹس کر رہا ہو،کیونکہ اگرکسی ایک چیز کو 100 آدمی اعلیٰ کہیں اورایک آدمی کہے کہ یہ چیزٹھیک نہیں ہے تواس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اس چیزمیں کوئی خرابی نہیں ہے، بلکہ اس ایک آدمی کوکوئی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ یہ سلسلہ تقریباًتین روزتک چلتا رہا، میں چاہتا تو اسے بلاک کرکے آسانی سے جان چھڑوا سکتا تھا، لیکن مَیں نے سوچا کیوں نہ آج اس کوسبق ہی سکھایاجائے، ذرا سوشل میڈیا اور مختلف ویب سائٹس پرنقلی نام استعمال کر کے کامنٹس کرنے والوں کو بھی پتہ چلے کہ دنیاآج چاند پر پہنچ چکی ہے اور یوں مُنہ پر نقاب اُوڑھ کر فضول کامنٹس کرنے کا انجام بہت بُرا بھی ہو سکتا ہے۔
اس مقصد کے لئے میں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا، جو خفیہ پولیس میںآفیسر ہے (میرا دل تو چاہ رہا ہے کہ میں اس کانام یہاں پر ضرور اپنے قارئین سے شیئر کرو تاکہ پاکستانی قوم یہ جان سکے کہ پاکستان کی خفیہ پولیس میںآج بھی ایسے لوگوں کی بہتات ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد سے مجرموں کو پاتال کی گہرائیوں سے نکال کر قانون کی ہتھکڑیاں پہنا سکتے ہیں،لیکن کیونکہ اس وقت وہ ایک حاضرڈیوٹی آفیسر ہے، اس لئے قانونی تقاضوں کے مطابق اس کانام میں اپنے کالم میں شیئر نہیں کروں گا)۔ مجھ سے پورا واقعہ سننے کے بعد اس نے کہا کہ ملک صاحب اب آپ ٹینشن فری ہو جائیں،انشااللہ وہ آدمی ایک دودن کے اندر اندر آپ کے سامنے موجود ہو گا اور پھر اس نے واقعی اپنے مختلف ذرائع سے فیس بُک پر کئے گئے کامنٹس کی مدد سے اس آدمی کی آئی پی ٹریس کی اور 24 گھنٹوں سے بھی پہلے اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر لیں۔
میرے دوست نے جب یہ معلومات مجھے بتائیں، تو مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹتے گئے۔ یہ بات تو میرے اندازوں کے عین مطابق ثابت ہو گئی کہ وہ ایک ہی آدمی تھا، جو مختلف فیس بُک اکاؤنٹس کے ذریعے کامنٹس کرتا تھا، لیکن مزید انکشاف یہ ہوا کہ اس نے مختلف ناموں سے 25فیس بک اکاؤنٹس بنائے ہوئے تھے، جن میں 10لڑکیوں کے نام سے تھے، اس کے علاوہ اس نے6اکاؤنٹس پاکستان کی مختلف مشہور شخصیات کے نام پر بنائے ہوئے تھے، ان تمام اکاؤنٹس کے ذریعے وہ ایسا گندہ مواد شیئرکرتا، جس سے ان تمام مشہور شخصیات کا امیج عام لوگوں میں خراب ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کے نام کا ایک اکاؤنٹ بھی اس میں شامل تھا، جس پر وہ صرف گالم گلوچ والی پوسٹس ہی شیئر کرتا تھا، تاکہ عوام کے دل میں ڈاکٹر عامر لیاقت کے لئے اشتعال پیدا ہو۔
وہ لڑکاموبائل اورلیب ٹاپ دونوں کو اپنے ان ناپاک کاموں کے لئے استعمال کرتاتھا۔میرے دوست نے مجھے کہاکہ میں10جوانوں پرمشتمل ایک فورس اس کے گھربھیجتاہوں جو اسے ابھی گرفتارکرلائے گی ۔میں نے اس سے کہا کہ مجھے اس لڑکے کاپتہ دو،کیونکہ میں چاہتا تھا کہ فورس بھجوانے سے پہلے میں خود اس سے ایک دفعہ مل لوں،میرے دوست نے مجھے اس کا ایڈریس بتایااوریہ کہاکہ آپ کے جانے کے ٹھیک ایک گھنٹے بعدمیں پولیس فورس بھی بھیج دوں گا۔اس لڑکے کاگھرجس گاؤں میں تھا؟ وہاں میرا ایک دوست بھی رہتا تھا،میں نے اس کو فون کر دیا تاکہ آسانی سے اس لڑکے کے گھرکاپتہ چلایا جا سکے۔گاؤں میں داخل ہوتے ہی میں نے اپنے دوست کو ،جو بڑی بے تابی سے میراانتظارکر رہا تھا، ساتھ لیا اور ہم دونوں اس لڑکے کے گھرکی طرف جانے لگے، تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں اس کے گھرکے دروازے کے باہرکھڑے تھے۔ میرے دوست نے ان کی ڈور بیل بجائی اوراتفاق سے وہی لڑکا باہر نکلا جو ان غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
25اکاؤنٹس میں سے ایک ایسا اکاؤنٹ بھی تھا،جس کے بارے میں میرے پولیس والے دوست نے بتایاتھاکہ یہ اس کااصلی اکاؤنٹ ہے اور اسی اکاؤنٹ سے حاصل کی گئی ایک تصویر میں دیکھ چکا تھا،اس لئے مجھے اس کو پہچاننے میں ذرابھی دیرنہ لگی۔وہ لڑکا بھی مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا اور اس کی حالت سے ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے وہ اچانک مجھے اپنے سامنے پاکر ڈر سا گیا ہو اور تقریباً دو منٹ تک تووہ بالکل سکتے میں رہا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ (چور کی داڑھی میں تنکا)۔۔۔مجھے اس پرغصہ تو بہت آ رہا تھا اور میرادل کر رہا تھا کہ اس کو اِسی وقت تھپڑ دے ماروں، لیکن میں قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہتا تھا۔اس لڑکے نے لرزتی ہوئی آوازمیں ہمیں اندر آنے کوکہاجس پرمیں نے صاف انکارکردیا اور اس کوزچ کرنے کے لئے پوچھاکہ مجھے پہچانا ہے ،اس نے جلدی جلدی ہاں میں سر ہلا دیا، پھر میں نے کہاکہ تم میری تحریروں پر کامنٹس بہت زیادہ کرتے ہواور اپنے آپ کو بہت عقلمند سمجھتے ہو، مَیں نے سوچا کیوں نہ تمہارے ساتھ ملاجائے اور مناظرہ کیا جائے کہ کون کتنے پانی میں ہے ، ساتھ ہی میں نے اس کو وہ مختلف نام بھی بتا دیئے، جن ناموں پراس نے جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنائے ہوئے تھے۔
جیسے ہی میری بات مکمل ہوئی اس کے توجیسے پسینے چھوٹنے لگے ،وہ اسی وقت مجھ سے معافیاں مانگے لگااورمنتیں کرنے لگاکہ مجھ سے غلطی ہوگئی، میری توسات نسلوں کوبھی یہ خبرنہیں تھی کہ آپ اس طرح میراکھوج لگالیں گے اوریوں اچانک میرے سامنے آجائیں گے۔ مجھے اس کی حالت پرترس آنے لگا اور مَیںیہ سوچنے لگاکہ کیایہ وہی شخص میرے سامنے بھیگی بلی بناہواہے جوفیس بک پرایسابے دھڑک ہوکرکامنٹس کرتاتھا،جیسے وزیراعظم پاکستان ہواوراسے کوئی بھی پوچھنے والانہ ہو،ابھی میں یہ سوچ ہی رہاتھاکہ میرادوسرادوست اپنی پولیس فورس کے ساتھ وہاں پہنچ گیا اور اسے اپنے ساتھ تھانے لے گیا۔باقی پولیس والے مجرم کے ساتھ جوکرتے ہیں وہ سبھی جانتے ہیں اس لئے میرایہاں لکھنے کاکوئی فائدہ نہیں ہے(جاری ہے)
کالم کے پہلے حصے میں،مَیں نے اپناواقعہ اس لئے بیان کیاہے کیونکہ آج کل کالم نگاراورٹی۔ وی اینکر جاویدچوہدری بھی اسی طرح کی صورت حال سے دوچارہے۔جاویدچودھری کوبیشمار پاکستانی جانتے ہیں جن میں کچھ جاوید چودھری کوپسندکرتے ہیں اورزیادہ تر ناپسندکرتے ہیں اور عرصہ درازسے اپنی ناپسندیدگی کااظہارگالیاں دے کر کر رہے ہیں، کبھی دیوبندی،کبھی اہل حدیث،کبھی بریلوی،کبھی مسلم لیگ (ن)،کبھی مسلم لیگ (ق)، کبھی پاکستان پیپلزپارٹی، کبھی تحریک انصاف،کبھی ایم کیوایم حتی کہ تقریباًپاکستان کی ہرمذہبی یاسیاسی پارٹی کیچاہنے والوں سے جاویدچوہدری کوگالیاں پڑتی ہیں اوریہ گالیاں بھی جاویدچودھری کی ماں،بہن اوربیٹی کے بارے میں ہوتی ہے۔یہ کون لوگ ہے جن کی زبان اتنی بکواس اُگلتی ہے۔
مَیں بتاتاہوںیہ کون لوگ ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہے، یہ ذہنی مریض ہیں اوریہ جاویدچوہدری کوگالیاں نکال کر خود کو ہیرو تصور کرتے ہیں مگر دراصل یہ زیروکیاکچھ بھی نہیں ہیں۔یہ جاویدچودھری کی ماں بہن یابیٹی کونہیں بلکہ خوداپنی ماں، بہن یابیٹی کو گالیاں دیتے ہیں،کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی دوسرے کی ماں، بہن، بیٹی کوگالی دینااپنی ماں،بہن یابیٹی کوگالی دینے کے مترادف ہے۔کیاکوئی بھی غیرت مند مسلمان کسی ایسے آدمی کوقدرکی نگاہ سے دیکھے گاجواپنی ماں، اپنی بہن یااپنی بیٹی کیلئے لغوزبان استعمال کرتاہو، یقیناََنہیں توپھران بے غیرتوں کوکوئی کیسے عزت دے سکتاہے؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس قوم کاکیابنے گاجس میں اتنی کثیرتعدادمیں پاگل افراد پائے جاتے ہیں جوروزانہ اپنی ہی ماں،اپنی ہی بہن اوراپنی ہی بیٹی کوگالیاں دیتے ہیں۔
بیشترپاکستانیوں کوایک مرض لاحق ہوچکا ہے کہ وہ خودکو بہت سیانا،دانااورعقلمندسمجھتے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے، کیونکہ اگر وہ اتنے سیانے، دانااورعقلمندہوتے توآج گوروں کا ملک ترقی یافتہ اور پاکستانیوں کاملک ترقی پذیرممالک کی فہرست میں نہ ہوتا۔تنقیدکرنابری بات نہیں ہے، مگرتنقیدکے ساتھ بے ہودہ،لغواورگندی زبان کااستعمال کرناانتہائی براعمل ہے۔اس مسئلے کاایک چھوٹاساحل یہ ہے کہ اگرکوئی آدمی خودکوجاویدچودھری سے یاکسی بھی دوسرے صحافی سے زیادہ عقلمندسمجھتاہے تووہ جائے کسی بھی قومی اخبارکے دفترکے باہرلائن میں لگے، اپنی قابلیت دکھائے،اس اخبارکے کرتادھرتوں کومتاثرکرے اور اپنی صلاحیتوں کے جوہردکھاکر ان کی ٹیم میں شامل ہوجائے،پھر سب سے پہلاکام یہ کرے کہ ایک ایساکالم لکھے جس میں، الف سے ے تک جاویدچودھری پرتنقیدکی گئی ہواوراس کوگالیاں دی گئی ہوں،پھراگریہ کالم چھپ جائے تویہ تنقیداصل تنقیدکہلائے گی۔سوشل میڈیا پرنقلی ناموں کااستعمال کرکے توپاکستان کے کسی بھی شخص کوگالی دی جاسکتی ہے ،یہ کون سی بڑی بات ہے۔
پچھلے دنوں میرے ایک صحافی دوست نے جو روزنامہ ایکسپریس میں کام کرتاہے، مجھے اپنے ساتھ پیش آنے والاایک واقعہ بتایا۔ وہ کہتاہے کہ مَیں سوشل میڈیاپرعوام کے بے ہودہ کامنٹس سے بہت پریشان تھا۔ مَیں نے ایک سٹیٹس اپ ڈیٹ کیاکہ آئندہ ہرشخص بے ہودہ زبان استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اپناموبائل نمبربھی میرے ساتھ شیئرکرے، پھرمَیں دیکھتا ہوں کہ وہ کون ساجرأت مندانسان ہے جومجھ سے ٹکر لینا چاہتا ہے۔ وہ کہتاہے کہ تقریباً آدھے گھنٹے میں ہی مجھے3کامنٹس موصول ہوئے ،اس بار ہرکسی نے بے ہودہ زبان استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اپناموبائل نمبربھی\" پلیس\" کیاہوا تھا، مَیں نے اسی وقت تینوں نمبرزدائل کئے پہلانمبرکسی تھانے کاتھا،دوسرانمبرشیخ رشیدکاتھا،جبکہ تیسرانمبرکسی ٹرسٹ کاتھا۔وہ کہتاہے کہ مَیں بہت پریشان ہوگیااوراسی وقت فیس بک سے وہ سٹیٹس ڈیلیٹ کردیا،کیونکہ مجھے خدشہ تھاکہ ہرکوئی غلط نمبرمجھ سے شیئرکرتارہے گا، اس طرح میں مزیدپتہ نہیں کتنے شریف لوگوں کوڈسٹرب کرتارہوں گا۔
جاویدچودھری کی عمراس وقت 46سال سے زائدہوچکی ہے، لوگوں کواورکچھ نہیں تو ان کی عمرکالحاظ کرناچاہئے۔اگرکسی کوجاویدچوہدری کی رائے پسندنہیں ہے اوروہ یہ سمجھتاہے کہ جاویدچوہدری لفافے لے کرلکھتاہے تووہ اس کے کالم پڑھنابندکردے ،اگرکسی کوجاویدچودھری کاپروگرام پسندنہیں تو وہ ٹی وی بند کر دے۔ چلوکچھ دیر کے لئے گناہوں سے ہی بچ جائے گا، لیکن یہ طرح طرح کی گالیاں دیناکہاں کی انسانیت اورکہاں کی تہذیب ہے؟آج بھی وقت ہے کہ جاویدچودھری کوگالیاں دینے والے اپنے گریبان میں جھانکیں اوراپنے آپ کودرست کرنے کی کوشش کریں۔ورنہ وہ اس تباہ شدہ ملک کو مزیدتباہ کردیں گے، کیونکہ اگرتاریخ کامطالعہ کیاجائے تویہ پتہ چلتاہے کہ بدتہذیب قومیں ہمیشہ عبرت کانشان بنتی رہی ہیں،انسانی ارتقاء سے آج تک دنیا میں کوئی بھی قوم ایسی نہیںآئی ، جس نے گالیاں دینے کی وجہ سے اعلیٰ مقام حاصل کیاہو۔
ملک محمد جمشید اعظم
http://dailypakistan.com.pk/columns/11-Nov-2014/161609
http://dailypakistan.com.pk/columns/12-Nov-2014/161934

قیصرانی ایچ اے خان لئیق احمد ناصر علی مرزا نایاب کاشفی حسینی انیس الرحمن محمود احمد غزنوی زرقا مفتی صائمہ شاہ عبدالقیوم چوہدری عباس اعوان محمداحمد ابن رضا عمار ابن ضیا منقب سید
 

حسینی

محفلین
جاوید چودھری کو بطور کالم نگار میں بہت پسند کرتا ہوں۔۔۔ اور ان کے تمام کالمز تقریبا پڑھتا ہوں۔
ممکن ہے آپ کو کسی بھی کالم نگار کی رائے سے اختلاف ہو۔۔۔ لیکن رائے رکھنا اور اسے لکھناہر کسی کا حق ہے۔
سیاسی کالمز کے علاوہ جاوید چودھری معاشرتی موضوعات پر بھی اکثر قلم اٹھاتے ہیں۔۔۔ اور کمال کرتے ہیں۔۔۔ مختلف ممالک کے سفر کا احوال بھی بہت اچھا لکھتے ہیں۔۔ اور اکثر ان کے کالمز انتہائی معلوماتی ہوتے ہیں۔
آپ ان کے نظریے سے اور باتوں سے ضرور اختلاف کر سکتے ہیں۔۔۔ لیکن ان کے لکھنے کاخوبصورت انداز اورقاری کو اپنی طرف کھینچنے کے ہنر کا انکار نہیں کر سکتے۔
 

زیک

مسافر
کالم نگار کتنا غلط قسم کا آدمی ہے جس نے پولیس کو اپنے ذاتی کام کے لئے استعمال کیا اور اپنے ناقد کو بلاوجہ قید بھی کروا دیا
 

قیصرانی

لائبریرین
مَیں نے اسی وقت تینوں نمبرزدائل کئے پہلانمبرکسی تھانے کاتھا،دوسرانمبرشیخ رشیدکاتھا،جبکہ تیسرانمبرکسی ٹرسٹ کاتھا۔وہ کہتاہے کہ مَیں بہت پریشان ہوگیااوراسی وقت فیس بک سے وہ سٹیٹس ڈیلیٹ کردیا،کیونکہ مجھے خدشہ تھاکہ ہرکوئی غلط نمبرمجھ سے شیئرکرتارہے گا، اس طرح میں مزیدپتہ نہیں کتنے شریف لوگوں کوڈسٹرب کرتارہوں گا۔
پہلے دو بھی "شریف بندے" شمار ہوتے ہیں؟ :p
 

قیصرانی

لائبریرین
گالیاں دینا اخلاقاً بری بات ہے مگر جرم نہیں کہ پولیس سے چھاپہ پڑوایا جاتا
یہ بات ہراسنگ میں آ جاتی ہے کہ آپ مسلسل شناخت بدل بدل کر کسی کو گالیاں دیتے رہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایسے کم پڑھے لکھے افراد عموماً ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں جو براہ راست گالی سے نکل کر دھمکی اور ہراسمنٹ تک پہنچ جاتی ہے
 
میرا خیال ہے مشہور شخصیات کے ساتھ ایسا ہوتا رہتا ہے، کوئی تو اسقدر مداح ہوتا ہے کہ راتوں کو جاگ جاگ کر ستائشی خطوط لکھتا اور انکی تحریروں کوئی کی شدید مخالفت کرتا ہے۔ مگر اہم بات میری سمجھ کہ مطابق یہ ہے کہ جس قدر قد آور شخصیت چوہدری صاحب ہیں انہیں ایک بے راہ اور ذہنی طور پر سنکی نوجوان کی اس حرکت در گزر سے کام لینا چاہئے تھا ۔ سمجھدار انسان ہیں انہیں ایسے لوگوں سے الجھنے میں اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہے ۔ بہرحال یہ انکی ذات کے مطابق ہے اصولی طور پر تو ہمیں کوئی رائے ہی نہین دینی چاہئے کیوں کہ ری-ایکشن کیا ہونا چاہئے وہی اس کا حق رکھتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
یہ بات ہراسنگ میں آ جاتی ہے کہ آپ مسلسل شناخت بدل بدل کر کسی کو گالیاں دیتے رہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایسے کم پڑھے لکھے افراد عموماً ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں جو براہ راست گالی سے نکل کر دھمکی اور ہراسمنٹ تک پہنچ جاتی ہے
کالم میں ہراساں کرنے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ نہ گالیوں کا ذکر ہے اور نہ دھمکیوں کا:

ہر پوسٹ پرمجھے ایک تنقیدی میسج بھی ضرور موصول ہوتاتھا،ہردفعہ کامنٹ کرنے والے کا نام نیا ہوتا تھا

اس کے کامنٹس بھی کوئی تعمیری نہیں ہوتے تھے بلکہ اس کی باتوں سے ایسامحسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ پاگل پن کامریض ہواور کسی پاگل خانے میں بیٹھ کرکامنٹس کر رہا ہو،کیونکہ اگرکسی ایک چیز کو 100 آدمی اعلیٰ کہیں اورایک آدمی کہے کہ یہ چیزٹھیک نہیں ہے تواس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اس چیزمیں کوئی خرابی نہیں ہے، بلکہ اس ایک آدمی کوکوئی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کالم میں ہراساں کرنے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ نہ گالیوں کا ذکر ہے اور نہ دھمکیوں کا:
جی آپ کی بات درست ہے۔ میں فاروق درویش ٹائپ کے لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو باقاعدہ خنجر لے کر بندوں کو مارنے کے لئے ریکی کرتے پھرتے ہیں۔ جاوید چوہدری سے مجھے یہ اختلاف ہے کہ اس نے پولیس سے براہ راست شکایت کی بجائے دوستانہ طور پر ذاتی مقصد کےلئے استعمال کی :)
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔ کالم نگار کی کہانی پڑھ کے لگا جیسے جواب عرض (پاکستان میں بکنے والا ایک غیر معیاری رسالہ) پڑھ رہا ہوں۔
رہی جاوید چوہدری کی بات تو اگر کسی کو اس سے اختلاف ہے تو ضرور کرے اور تنقید بھی کرے لیکن گالیاں دینا ایک انتہائی گھٹیا عمل ہے۔ اور ایسا کرنے والے اپنی گندی ذہنیت ہی عیاں کر رہے ہوتے ہیں۔

نوٹ: مجھے جاوید چوہدری بالکل بھی پسند نہیں ہے :)
 

arifkarim

معطل
پہلے دو بھی "شریف بندے" شمار ہوتے ہیں؟ :p
اگر آپ کہتے ہیں تو ہوتے ہوں گے :)
ویسے arifkarim سے سوال ہے کہ پی ٹی آئی کے زیادہ تر جیالے اپنے ناقدین کے خلاف کیسی زبان استعمال کرتے ہیں؟ :)
میں تحریک انصاف کا ترجمان تو نہیں ہاں البتہ اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جیسا لیڈر ویسے پرستار :)
 

اسد

محفلین
میرا خیال ہے مشہور شخصیات کے ساتھ ایسا ہوتا رہتا ہے، کوئی تو اسقدر مداح ہوتا ہے کہ راتوں کو جاگ جاگ کر ستائشی خطوط لکھتا اور انکی تحریروں کوئی کی شدید مخالفت کرتا ہے۔ مگر اہم بات میری سمجھ کہ مطابق یہ ہے کہ جس قدر قد آور شخصیت چوہدری صاحب ہیں انہیں ایک بے راہ اور ذہنی طور پر سنکی نوجوان کی اس حرکت در گزر سے کام لینا چاہئے تھا ۔ سمجھدار انسان ہیں انہیں ایسے لوگوں سے الجھنے میں اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہے ۔ بہرحال یہ انکی ذات کے مطابق ہے اصولی طور پر تو ہمیں کوئی رائے ہی نہین دینی چاہئے کیوں کہ ری-ایکشن کیا ہونا چاہئے وہی اس کا حق رکھتے ہیں۔
غور سے پڑھیں، یہ کالم "ملک محمد جمشید اعظم" نے لکھا ہے اور پہلے حصے میں اپنا ذکر کیا ہے۔ دوسرے حصے میں جاوید چودھری کا ذکر کیا ہے۔
ملک محمد جمشید اعظم نے کہا:
... کالم کے پہلے حصے میں،مَیں نے اپناواقعہ اس لئے بیان کیاہے کیونکہ آج کل کالم نگاراورٹی۔ وی اینکر جاویدچوہدری بھی اسی طرح کی صورت حال سے دوچارہے۔ ...
 

منقب سید

محفلین
ملک جمشید صاحب نے آئی پی ٹریکنگ ٹیکنالوجی کو استعمال کرواتے ہوئے جس طرح اپنے مطلوبہ ملزم کو ٹریس کر کے اس کو گرفتار کروایا اس پر وہ اور ان کے وہ خفیہ پولیس کے آفیسر دوست مبارکباد کے مستحق ہیں۔ قابل تحسین بات یہ ہے کہ ان کے دوست نے اپنے سرکاری ذرائع استعمال کرتے ہوئے 24 گھنٹے سے بھی پہلے انہیں یہ سب معلومات بہم پہنچا دی۔ ملک صاحب کو مفاد عامہ کی خاطر اس دوست کا نام سب کے سامنے ظاہر کرنا چاہییے تھا کہ ملک بھر کے پولیس حکام کرائمز کی تفتیش کے لئے سائبر ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے ملزم تک پہنچنے کی کوشش میں ایف آئی اے سائبر ونگ کو درخواستیں دینے پھر مہینوں انتظار کے بعد ان سے معلومات حاصل کرنے کے جھنجٹ سے بچ جاتے۔
(وطن عزیز میں SPECIAL BRANCH کو عرف عام میں خفیہ پولیس کہا جاتا ہے اور کسی نہایت ہی اہم معاملے کے علاوہ انہیں اس طرح ذرائع کے استعمال کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس میں بھی ایک سے زائد اعلیٰ حکام کے علم میں یہ بات ہوتی ہے اور ان کی رضامندی سے ہی اتنا فوری ایکشن ہو سکتا ہے۔ چند ایک نہایت ملکی سلامتی کے معاملات کے علاوہ اتنی آسان ایکسیس تو آئی ایس آئی اور آئی بی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ انہیں بھی موبائل ڈیٹا یا آئی پی ٹریکنگ ٹیکنالوجی کے لئے موبائل کمپنیوں کے دفاتر یا آئی ایس پیز یا ایف آئی اے کے دفاتر میں جاتے دیکھا ہے۔ لیکن ایم آئی کی بات دوسری ہے ان کے پاس باقی اداروں کی نسبت بہتر ٹیکنالوجی موجود ہے اور انہیں بہت سی چیزوں تک رسائی بھی حاصل ہے)۔
 

منقب سید

محفلین
اور جہاں تک رہی بات چوہدری صاحب کی تو ملک صاحب آپ کے تو دوست ہوں گے جاوید چوہدری صاحب۔ ہم جیسے ان کے ناقدین کی مستقل منہ بندی کے لئے صرف ایک مرتبہ جاوید چوہدری صاحب کے بیرون ملک دوروں کے ثبوت ہی شائع کروا دیں یا خود شائع کر دیں اپنے کسی کالم میں کہ ہمیں بھی یقین آجائے کہ اپنے تقریبآ ہر کالم میں جو وہ کسی نہ کسی ملک جانے اور وہاں کسی نہ کسی چیز کو دیکھنے کا ذکر کرتے ہیں وہ حقیقت ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ملک جمشید صاحب نے آئی پی ٹریکنگ ٹیکنالوجی کو استعمال کرواتے ہوئے جس طرح اپنے مطلوبہ ملزم کو ٹریس کر کے اس کو گرفتار کروایا اس پر وہ اور ان کے وہ خفیہ پولیس کے آفیسر دوست مبارکباد کے مستحق ہیں۔ قابل تحسین بات یہ ہے کہ ان کے دوست نے اپنے سرکاری ذرائع استعمال کرتے ہوئے 24 گھنٹے سے بھی پہلے انہیں یہ سب معلومات بہم پہنچا دی۔ ملک صاحب کو مفاد عامہ کی خاطر اس دوست کا نام سب کے سامنے ظاہر کرنا چاہییے تھا کہ ملک بھر کے پولیس حکام کرائمز کی تفتیش کے لئے سائبر ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے ملزم تک پہنچنے کی کوشش میں ایف آئی اے سائبر ونگ کو درخواستیں دینے پھر مہینوں انتظار کے بعد ان سے معلومات حاصل کرنے کے جھنجٹ سے بچ جاتے۔
(وطن عزیز میں SPECIAL BRANCH کو عرف عام میں خفیہ پولیس کہا جاتا ہے اور کسی نہایت ہی اہم معاملے کے علاوہ انہیں اس طرح ذرائع کے استعمال کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس میں بھی ایک سے زائد اعلیٰ حکام کے علم میں یہ بات ہوتی ہے اور ان کی رضامندی سے ہی اتنا فوری ایکشن ہو سکتا ہے۔ چند ایک نہایت ملکی سلامتی کے معاملات کے علاوہ اتنی آسان ایکسیس تو آئی ایس آئی اور آئی بی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ انہیں بھی موبائل ڈیٹا یا آئی پی ٹریکنگ ٹیکنالوجی کے لئے موبائل کمپنیوں کے دفاتر یا آئی ایس پیز یا ایف آئی اے کے دفاتر میں جاتے دیکھا ہے۔ لیکن ایم آئی کی بات دوسری ہے ان کے پاس باقی اداروں کی نسبت بہتر ٹیکنالوجی موجود ہے اور انہیں بہت سی چیزوں تک رسائی بھی حاصل ہے)۔
ایم آئی اور آئی ایس آئی اور آئی بی (چونکہ متعلقہ ادارہ ہے) کے پاس تو بہت برسوں سے اس طرح کی ٹیکنالوجی ہے۔ ایف آئی اے والے بھی چاہیں تو یہ کام کر سکتے ہیں۔ اپنے فاتح بھائی بہتر بتا سکتے ہیں :)
 

قیصرانی

لائبریرین
اور جہاں تک رہی بات چوہدری صاحب کی تو ملک صاحب آپ کے تو دوست ہوں گے جاوید چوہدری صاحب۔ ہم جیسے ان کے ناقدین کی مستقل منہ بندی کے لئے صرف ایک مرتبہ جاوید چوہدری صاحب کے بیرون ملک دوروں کے ثبوت ہی شائع کروا دیں یا خود شائع کر دیں اپنے کسی کالم میں کہ ہمیں بھی یقین آجائے کہ اپنے تقریبآ ہر کالم میں جو وہ کسی نہ کسی ملک جانے اور وہاں کسی نہ کسی چیز کو دیکھنے کا ذکر کرتے ہیں وہ حقیقت ہے۔
ناروے کے ٹرپ کا کہہ سکتا ہوں کہ شاید حقیقی ہو، کیونکہ میں شاید چند ہفتے قبل ہی اسی جگہ سے ہو کر آیا تھا جہاں کی اپنی تصاویر انہوں نے شیئر کی تھیں :)
 
Top