کپتان کی فی البدیہہ تقریریں اور ہماری قومی بے عزتی
23/04/2019 یوسف رشید
دنیا بھر میں ریاستوں کے حکمران عموماً دو طرح سے اپنے خطاب وغیرہ کرتے ہیں۔ یا تو ان کی اپنے موضوع پر گرفت اچھی ہوتی ہے، ابلاغ پر عبور حاصل ہوتا ہے، تاریخ کا شعور رکھتے ہیں تو ایسے لیڈر عموماً فی البدیہہ تقریر یا خطاب کو ترجیح دیتے ہیں۔ باراک اوبامہ اس کی بہترین مثال ہیں۔ دوسری طرف بہت سے ایسے حکمران ہوتے ہیں جو ابلاغ پر زیادہ مہارت نہیں رکھتے، بسا اوقات یادداشت، یا کسی اور وجہ سے اپنے نوٹس ساتھ رکھتے ہیں، یا پوری کی پوری تقریر لکھی ہوئی پڑھتے ہیں۔
دنیا بھر میں اس چیز کا کبھی برا نہیں منایا جاتا کہ لیڈر نے لکھی ہوئی تقریر کیوں پڑھی۔ ہمارے ہاں جب سے ٹی وی موجود ہے، اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرنے کی روایت ہے، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کسی وزیراعظم یا صدر نے لکھی ہوئی تقریر نہ پڑھی ہو۔ اس کی عمومی وجہ یہ ہوتی ہے کہ تقریر کے نکات تیار کرنے میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی خدمات لی جاتی ہیں، الفاظ کے انتخاب پر کافی عرق ریزی کی جاتی ہے کہ ریاست کے سربراہ کے کہے ایک ایک لفظ کی تشریحات سے خبریں نکالی جاتی ہیں۔
اس لئے لیڈر کے کہے ہر لفظ کے پیچھے کافی سوچ بچار ہوتی ہے۔ اور یہ سوچ بھی کہ عین وقت پر کوئی اہم نقطہ ذہن سے محو نہ ہو جائے۔ گزشتہ تیس چالیس سالہ تاریخ میں محترمہ بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف ایسے حکمران تھے جو انگریزی زبان اور ابلاغ کی صلاحیتوں پر نمایاں عبور رکھتے تھے۔ جنہیں بیرونی ممالک کے دوروں میں بھی صحافیوں کے سوال دینے میں کبھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اگرچہ محترمہ زیادہ تعلیم یافتہ تھیں، لیکن دونوں تاریخ کا گہرا شعور رکھتے تھے۔
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں یہی دو حکمران ایسے گزرے ہیں جنہیں مغربی ممالک کی یونیورسٹیاں اور تھنک ٹینکس خطاب کے لئے بلاتے تھے اور بھاری معاوضے بھی ادا کرتے تھے۔ مجھے نہیں یاد کہ ان دونوں نے کبھی قوم سے خطاب میں فی البدیہہ تقریر کی ہو۔ ہاں جلسے جلوسوں کی بات دوسری ہے جہاں جذباتی خطاب ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف سربراہانِ مملکت کے ساتھ ملاقاتوں اور مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی کبھی سبکی کا پہلو نہ ہوا کہ دونوں پوری تیاری کے ساتھ آتے تھے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف انگریزی زبان میں زیادہ مہارت نہ ہونے کے سبب کئی دفعہ مخالفین کی تنقید کا نشانہ بنے۔ اکثر ہاتھ میں نوٹس کی پرچیاں لے کر سربراہانِ مملکت سے ملتے تھے، بین الاقوامی لحاظ سے شاید تھوڑے اچنبھے کی بات ہو، لیکن یقین مانئے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر آپ کو انگریزی میں مہارت نہیں تو پھر چینی، عربی، ایرانی، ترکی اور لاطینی امریکہ کے ممالک کی طرح آپ اپنی زبان میں بات کر سکتے ہیں، جسے ترجمان کی مدد سے آگے پہنچایا جا سکتا ہے۔
اس میں شرم کی کوئی بات نہیں۔ اپنے یوسف رضا گیلانی کی طرح غلط انگریزی بول کر بھد اڑوانے سے بہتر ہے کہ اپنی زبان میں بات کی جائے۔ اب صدر ضیا، غلام اسحاق خان، نواز شریف، بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف یہ وہ تمام نام ہیں جو پوری تیاری کے ساتھ آتے تھے، ان کی تقریر لکھی ہوئی ہوتی تھی، یا ان کے پاس اہم نکات کی فہرست ہوتی تھی، جو ماہرین کی مدد سے تیارکیے گئے ہوتے تھے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارے وزیراعظم صاحب نے ایک بھی تقریر لکھی ہوئی نہیں کی۔
گمان کیا جاتا ہے کہ اس کی تین وجوہات رہی ہوں گی۔ ایک تو یہ کہ کپتان کو اپنی انگریزی زبان پر بڑا ناز ہے، اور برسوں یہ امیج تیار کیا گیا کہ کپتان دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے۔ دوسرا سابق وزیراعظم نواز شریف پر اس ضمن میں پی ٹی آئی اتنی تنقید کر چکی ہے کہ خود لکھی تقریر پڑھنے سے سبکی کا اندیشہ ہے۔ تیسری اور شاید سب سے اہم وجہ یہ کہ ہمارے وزیراعظم خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں۔ قریب تین عشرے ہونے کو آئے ہیں ورلڈ کپ کی فتح کو، جسے خان صاحب اپنی ذاتی کارکردگی شمار کرتے ہیں۔
اس میں میانداد، وسیم اکرم اور انضمام الحق کا کردار ضمنی سا تھا۔ اگرچہ ذرا تصور بھی کر لیں کہ انگلینڈ سے میچ میں جب 74 پر پوری ٹیم آؤٹ ہوئی تھی، بارش نہ ہوتی، یا رن ریٹ کے فرق سے سیمی فائنل کے لئے کوالیفائی نہ کرتے تو آج خان صاحب کہاں ہوتے۔ خیر اس ستائیس سالہ نرگسیت کا ثمر ہے کہ خان صاحب متعلقہ وزارتوں سے بریفنگ لینے کو کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ اگر لیتے بھی ہیں تو فی البدیہہ تقریر میں ایسی شدنیاں چھوڑتے ہیں کہ سننے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔
زیادہ تفصیل میں نہیں جاتے۔ خان صاحب کی مردم شناسی کی خامیوں پر بھی کسی اور وقت تک کے لئے پردہ ڈالے رکھتے ہیں۔ آج وزیراعظم کی ایرانی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس دیکھ کر یہ احساس پھر سے تازہ ہو گیا کہ وزیراعظم نہ تو بریفنگ لیتے ہیں، اور اگر لیتے بھی ہیں تو کئی باتیں ویسے ہی بھول جاتے ہیں، باقی تاریخ سے اپنی ’تاریخی دلچسپی‘ کے سبب ہمیشہ تاریخی واقعات کو غلط بیان کرتے ہیں۔ مثلاً ابھی بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کی قبروں کی مٹی بھی خشک نہ ہوئی تھی، ارماڑہ واقعے کی ذمہ داری تو سرحد پار سے کارروائی کرنے والے ایک گروہ نے قبول بھی کی۔
ایسے میں کون ذی شعور یہ کہہ سکتا ہے کہ پاکستانی سرحد کے اِس طرف سے مختلف گروہ ایران میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ فارسی ہمارے دلوں کے بہت قریب ہے، لیکن کیا یہ کہنا کہ اگر انگریز نہ آتے تو ہم سب فارسی بولتے، تاریخی تناظر میں درست ہے؟ (یہ موضوع ایک علیحدہ کالم کا متقاضی ہے، لیکن ایسے متنازعہ جملے آپ کے اچھے بھلے دورے کا ستیاناس کر دیتے ہیں )۔ مثلاً آپ کو فرطِ جذبات میں آکر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ جاپان اور جرمنی کی سرحدیں مشترک تھیں؟
کیوں ایسی بونگیاں مارتے ہیں جنہیں نہ تو ثابت کیا جا سکتا اور دوست ممالک میں اپنی دانش کا بھرم الگ ٹوٹتا ہے۔ اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ خان صاحب آج تک کنٹینر کی تقریروں سے باہر نہیں آسکے۔ اگرچہ ان تقریروں میں بھی ایسی ایسی شدنی چھوڑی گئی کہ خدا کی پناہ۔ کون سوچے کہ یہ شخص اکیس کروڑ لوگوں کے وزیراعظم بننے کا امیدوار ہے۔ مثلاً جو شخص لائیو یہ کہے کہ تمہاری شلواریں گیلی ہو جائیں گی، جو دوسری سیاسی جماعت کے حوالے سے کہے کہ ہم کونسا رشتہ لینے جا رہے ہیں، چینی صدر کے دورے کے حوالے سے کہے کہ جھوٹو چینی صدر تو آ ہی نہیں رہا تھا۔
اور وہ دن کس کو بھولا ہو گا جب خان صاحب نے کہا تھا آج تاریخ میں حضرت عیسیؑ کا نام نہیں۔ یا وہ روشنی کی رفتار سے چلنے والی ٹرین کا ذکر۔ ایسی باتیں جن کی فوراً متعلقہ فورم سے تردید ہو جائے یا اخلاق سے گری ہوئی گفتگو، شاید کنٹینر پر بھی نہیں جچتی تھی، کجا یہ کہ وزیراعظم بن کر بھی آپ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھیں، اور لکھی ہوئی تقریر پڑھنے سے گریز کریں۔ وزیراعظم صاحب! اب آپ کسی ایک پارٹی کے سربراہ سے زیادہ ریاست کے سربراہ ہیں۔
ماہرین سے مدد لے کر ایک بہتر تقریر پڑھنا غلط حقائق بیان کرنے، کمزور ابلاغ کے ساتھ خطاب کرنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ آپ کی آکسفورڈ کی انگریزی میں فی البدیہہ تقریر سے بہتر ہے کہ متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی مدد سے ایک اچھی تقریر لکھوا لیا کریں۔ آپ کے سوشل میڈیا فدائین کے پاس پہلے ہی بہت کام ہے، بیچارے کئی کئی دن تک آپ کا کہا سمیٹتے رہتے ہیں۔