جاکے پھر لوٹ جو آئے ، وہ زمانہ کیسا
تیری آنکھوں نے یہ چھیڑا ہے ، فسانہ کیسا
آنکھ سرشارِ تمنا ہے ، تُو وعدہ کرلے
چال کہتی ہے کہ اب لوٹ کے ، آنا کیسا
مجھ سے کہتا ہے کہ سائے کی طرح ساتھ ہیں ہم
یوں نہ ملنے کا نکالا ہے ، بہانہ کیسا
اس کا شکوہ تو نہیں ہے ، نہ ملے تو ہم سے
رنج ا سکا ہی کہ تم نے ہمیں ، جانا کیسا
خود بھی سوچا تھا بہت ، اس نے بھی پوچھا تھا بہت
حال جب خود ہی نہ سمجھے تو ، سنانا کیسا
تجھ کو پانے کی ہوس تھی ، سو کسے معلوم تھا
اپنے ہی آپ کو کھو بیٹھیں گے ، پانا کیسا