فہد اشرف
محفلین
فضاؤں میں ہے صبح کا رنگ طاری
گئی ہے ابھی گرلز کالج کی لاری
گئی ہے ابھی گونجتی گنگناتی
زمانے کی رفتار کا راگ گاتی
لچکتی ہوئی سی چھلکتی ہوئی سی
بہکتی ہوئی سی مہکتی ہوئی سی
وہ سڑکوں پہ پھولوں کی دھاری سی بنتی
ادھر سے ادھر سے حسینوں کو چنتی
جھلکتے وہ شیشوں میں شاداب چہرے
وہ کلیاں سی کھلتی ہوئی منہ اندھیرے
وہ ماتھے پہ ساڑی کے رنگیں کنارے
سحر سے نکلتی شفق کے اشارے
کسی کی ادا سے عیاں خوش مذاقی
کسی کی نگاہوں میں کچھ نیند باقی
کسی کی نظر میں محبت کے دوہے
سکھی ری یہ جیون پیا بن نہ سوہے
یہ کھڑکی کا رنگین شیشہ گرائے
وہ شیشے سے رنگین چہرا ملائے
یہ چلتی زمیں پہ نگاہیں جماتی
وہ ہونٹوں میں اپنے قلم کو دباتی
یہ کھڑکی سے اک ہاتھ باہر نکالے
وہ زانو پہ گرتی کتابیں سنبھالے
کسی کو وہ ہر بار تیوری سی چڑھتی
دکانوں کے تختے ادھورے سے پڑھتی
کوئی اک طرف کو سمٹتی ہوئی سی
کنارے کو ساڑی کے بٹتی ہوئی سی
وہ لاری میں گونجے ہوئے زمزمے سے
دبی مسکراہٹ سبک قہقہے سے
وہ لہجوں میں چاندی کھنکتی ہوئی سی
وہ نظروں سے کلیاں چٹکتی ہوئی سی
سروں سے وہ آنچل ڈھلکتے ہوئے سے
وہ شانوں سے ساغر چھلکتے ہوئے سے
جوانی نگاہوں میں بہکی ہوئی سی
محبت تخیل میں بہکی ہوئی سی
وہ آپس کی چھیڑیں وہ جھوٹے فسانے
کوئی ان کی باتوں کو کیسے نہ مانے
فسانہ بھی ان کا ترانہ بھی ان کا
جوانی بھی ان کی زمانہ بھی ان کا
(جاں نثار اختر)
گئی ہے ابھی گرلز کالج کی لاری
گئی ہے ابھی گونجتی گنگناتی
زمانے کی رفتار کا راگ گاتی
لچکتی ہوئی سی چھلکتی ہوئی سی
بہکتی ہوئی سی مہکتی ہوئی سی
وہ سڑکوں پہ پھولوں کی دھاری سی بنتی
ادھر سے ادھر سے حسینوں کو چنتی
جھلکتے وہ شیشوں میں شاداب چہرے
وہ کلیاں سی کھلتی ہوئی منہ اندھیرے
وہ ماتھے پہ ساڑی کے رنگیں کنارے
سحر سے نکلتی شفق کے اشارے
کسی کی ادا سے عیاں خوش مذاقی
کسی کی نگاہوں میں کچھ نیند باقی
کسی کی نظر میں محبت کے دوہے
سکھی ری یہ جیون پیا بن نہ سوہے
یہ کھڑکی کا رنگین شیشہ گرائے
وہ شیشے سے رنگین چہرا ملائے
یہ چلتی زمیں پہ نگاہیں جماتی
وہ ہونٹوں میں اپنے قلم کو دباتی
یہ کھڑکی سے اک ہاتھ باہر نکالے
وہ زانو پہ گرتی کتابیں سنبھالے
کسی کو وہ ہر بار تیوری سی چڑھتی
دکانوں کے تختے ادھورے سے پڑھتی
کوئی اک طرف کو سمٹتی ہوئی سی
کنارے کو ساڑی کے بٹتی ہوئی سی
وہ لاری میں گونجے ہوئے زمزمے سے
دبی مسکراہٹ سبک قہقہے سے
وہ لہجوں میں چاندی کھنکتی ہوئی سی
وہ نظروں سے کلیاں چٹکتی ہوئی سی
سروں سے وہ آنچل ڈھلکتے ہوئے سے
وہ شانوں سے ساغر چھلکتے ہوئے سے
جوانی نگاہوں میں بہکی ہوئی سی
محبت تخیل میں بہکی ہوئی سی
وہ آپس کی چھیڑیں وہ جھوٹے فسانے
کوئی ان کی باتوں کو کیسے نہ مانے
فسانہ بھی ان کا ترانہ بھی ان کا
جوانی بھی ان کی زمانہ بھی ان کا
(جاں نثار اختر)