جاں ہار کے دل اپنا ہی خود جیت لیا ہے


جاں ہار کے دل اپنا ہی خود جیت لیا ہے
اب میں ہوں، مری قبر ہے، رنگین قبا ہے

اک روح کہ جو خلد کی ہے عیش و طرب میں
اک جسم کہ زخموں کے مزے لوٹ رہا ہے

پھر لوٹ کے جانے کی تمنا ہے زمیں پر
پھر آرزوئے رزمِ گاہِ صبر و رضا ہے

پھر شوق ہے زخموں سے میں زینت دوں بدن کو
پھر ذوقِ طلب خون سے نہانے پہ تُلا ہے

پھر قلبِ تمنا ہے شہادت کی دُھن میں
پھر جان سے جانے کی پُر اسرار صدا ہے

نظریں تو بظاہر میری حوروں پہ ہیں لیکن
دل خالی کہ حورانِ بہشت ہی پہ فدا ہے

زندوں کو ہے پیغام جو زنداں میں ہے اب تک
آزاد جو ہونا ہے تو میدان کھلا ہے

ہر سو نظر آتی ہیں سعادت کی بہاریں
ہر سمت شہادت کی ہموار فضا ہے

سو جان بھی گر تم کو عطا ہو تو سمجھ لو
سو جان لٹانے کا جو مرکز ہے خدا ہے

جو زیست پہ مرتے ہیں بتا دو انہیں اطہرؔ
مرنے کے لیے جینے میں جینے کا مزا ہے


http://www.archive.org/details/JanHarKeyDilJeetLiaHai
 
Top