فاتح
لائبریرین
غزل 1
رکھ پاؤں سرِ گورِ غریبان سمجھ کر
چلتا ہے زمیں پر ہر اک انسان سمجھ کر
ہشیار دِلا رہیو کہ دکھلا کے وہ زلفیں
لیتا ہے تجھے پہنچے میں نادان سمجھ کر
سرکا ہے دوپٹا رخِ مہ وَش پہ سحر کو
گردوں پہ نکل مبرِ درخشان سمجھ کر
لایا ہوں تری نذر کو لختِ جگر و اشک
رکھ دستِ مژہ پر دُرِ مرجان سمجھ کر
ہے مارِ سیہ حسن کی دولت پہ تری زلف
کیا خوب یہ چڑھوائی نگہبان سمجھ کر
یہ طفلِ سرشک ایک ہی ابتر ہے بہَر وجہ
آنکھوں میں رکھوں کیوں کہ نہ طوفان سمجھ کر
روکش دہَنِ یار سے، کس منہ سے ہو غنچہ
رہتا ہے سدا سر بگریبان سمجھ کر
افسوس کہ لگتا نہیں سینے سے وہ گل رُو
اس دل کو مرے آتشِ سوزان سمجھ کر
جز شانہ نہ الجھا یہ ہمارا دلِ صد چاک
اس زلف کو شیرازۂ قرآن سمجھ کر
اے خالِ رخِ یار تجھے ٹھیک بناتا
جا چھوڑ دیا حافظِ قرآن سمجھ کر
کیا لعل جَڑے ہیں لبِ نوشیں میں تمھارے
قیمت کہو بوسے کی مری جان سمجھ کر
ایسا یہ نہیں دل کہ جسے مفت تمھیں دوں
کہتا بھی ہے جو بات تو انسان سمجھ کر
اس بحر میں اک اور نصیرؔ اب تو غزل پڑھ
کہتا ہوں یہ میں تجھ کو سخن دان سمجھ کر
غزل 2
عاشق ہوئے جس بت کو تھے نادان سمجھ کر
بوسہ نہیں دیتا وہ مسلمان سمجھ کر
مجھ کو نہ دکھا دستِ حنائی تو مری جان
مر جاؤں گا میں پنجۂ مرجان سمجھ کر
اتنا بھی نہ ہو در پئے جاں اے غمِ ہجراں
کہتے نہیں کچھ ہم تجھے مہمان سمجھ کر
لوں کیوں کہ نہ بوسہ لبِ جاں بخش ترے کا
آیا ہوں اسے چشمۂ حیوان سمجھ کر
دل تو تجھے بھولے سے دیا کافرِ بد کیش
پر یاد رہے، دوں گا میں ایمان سمجھ کر
میرے دلِ سی پارہ کی کیا قدر تو جانے
رکھتا ہوں بغل میں اسے قرآن سمجھ کر
جس جا پہ ترے کشتۂ قامت کا ہے مدفن
واں رکھیو قدم سروِ چراغان سمجھ کر
لے کون تمھارے لبِ پاں خوردہ کا بوسہ
ڈرتا ہے ہر اک اخگرِ سوزان سمجھ کر
ق
گل کھائے تھے ہم نے تری الفت میں سراپا
کچھ اور ہی اے شمعِ شبستان سمجھ کر
پر تو نے تماشا دلِ پُر داغ کا میرے
دیکھا نہ کبھو سروِ چراغان سمجھ کر
دیکھا جو نصیرؔ اس کے خط و زلف کو ہم نے
آشفتہ ہوئے سنبل و ریحان سمجھ کر
شاہ محمد نصیر الدین دہلوی