اک انسان
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آدمؑ کا جسدِ خاکی پڑا ہوا ہے‘ فرشتے دیکھ دیکھ کر گزرتے ہیں اور منتظر ہیں کہ یہی ہے وہ جسے اللہ زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہے‘ مگر نوری مخلوق کا ناری معلم اُسے دیکھ کر مضحکہ اُڑاتا ہوا گزر رہا ہے تو یہ ہے وہ خاکی! جسے زمین پر نائب بنایا جارہا ہے.... روح پھونک دی گئی.... رحمن کی آواز آئی سجدہ کرو.... سب جھک گئے سوائے ایک کے.... ’ایک‘ رب کے سامنے ’ایک‘ مخلوق تن کر کھڑی ہوگئی‘ رحمن نے پوچھا کس بات نے تجھے حکم عدولی پر مجبور کیا.... شیطان نے کہا ”میں اس سے بہتر ہوں‘ یہ خاکی میں ناری!! حکم عدولی پر قہر خدا کا نشانہ بنا مگر مہلت مانگ لی‘ رحمن و رحیم نے مہلت دیدی اور دربار سے نکال دیا.... شیطان کہتا ہوا چلا ”اس اِنسان کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا، قیامت تک اِسے بہکاﺅں گا.... رحمن نے کہا جو میرے بندے ہونگے وہ تیرے جال میں نہیں آئیں گے!! رحمن کو ”چیلنج“ کرنےوالا شیطان!! اور سبب ”اِنسان“۔ کیا اس دنیا میں جینے کے فقط دو راستے نہیں بچے؟؟ یا تو ”رحمن کا سپاہی“ یا پھر شیطان کا.... راستے کے انتخاب میں وقت کا ضیاع کب تک؟ کبھی ایک راستے کبھی دوسری پگڈنڈی کب تک؟ شیطان کی فوج میں شامل ہونا ہے تو مایوس وہ بھی نہیں کرے گا!! مہلت ملی ہوئی ہے.... رحمن کی راہ پکڑنی ہے تو راستہ کٹھن‘ سفر دشوار.... اُس نے خود نہیں بنایا!! شیطان نے مہلت سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ مگر رحمن کو ناز ہے ہم پر.... ”جو میرے بندے ہونگے وہ تیرے جال میں نہیں آئینگے!!“
شیطان
فطری طلب پر نفس کے ذریعے حاوی ہونے والا شیطان!! جنس مخالف سے میلان کی فطرت رکھنے والے اِنسان کو ناجائز طور طریقے سکھانے والا شیطان۔ خوش الحانی کی خواہش رکھنے والی سماعت کو ہیجان انگیز موسیقی دینے والا شیطان۔ دل میں دردِ اِنسانیت رکھنے والے کو خود خدا بنا دینے والا شیطان۔ خطابت و بلاغت سے اچھائی کا پرچار کرنےوالے کو گالیاں سکھانے والا شیطان۔ اپنی ذہانت سے حقیقت کو پا لینے والے اِنسان کو اُس کے راستے سے بہکا دینے والا .... شیطان!! یہ مت سوچنا کچھ زیادہ ہی ڈھیل دیدی۔ ڈھیل تو ہمیں بھی ہے.... اختیار ہمیں بھی ہے!! اپنے ناری جسم پر تکبر کرنےوالے سن!! سن یہ خاکی بدن رکھنے والے بھی تجھے چیلنج کرتے ہیں!!
چاہوں تو اپنی خاکی زبان سے تیرے ناری بدن میں بھی وہ آگ لگادوں جسے کوئی بجھا نہ سکے.... ایسے ہی تو کوئی فضیلت نہیں ملی‘ اختیار دیا ہے میرے رب نے اور آج یہی اختیار استعمال کررہا ہوں.... جا چھوڑ دیا تیرا راستہ!! تو نے میرے سامنے جھکنے سے انکار کرکے کوئی کمال نہیں کیا‘ میں تو کچھ بھی نہیں لیکن خالق کا حکم تھا۔ تو حکم خالق کا منکر ہے تو جا آج سے میں اپنے خالق کی اطاعت کرکے تجھے جلاﺅں گا!! جس رحمن و رحیم نے تجھے مہلت دے رکھی ہے اُس نے میرے لئے بھی درِ توبہ کھول رکھا ہے‘ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ میں تیرے جال میں یوں پھنسا ہوا ہوں کہ اُس دروازے کا راستہ بھی بھول گیا۔ تو میرے خالق کی عطاءکردہ فطری طلب کو نفس سے بہکائے گا؟؟ جا آج سے نفس کی ہر خواہش کا قتل کرکے اُس کا خون تجھ پر چھڑکوں گا!! تو میری زبان پر فحش گوئی سجا کر سمجھتا ہے اس زبان سے اب خالق کی تعریف ممکن نہیں؟ قسم ہے اُس پاک پروردگار کی کہ آج کے بعد اِس زبان پر خالق کی ایسی مدحت ہوگی کہ فرشتوں کو بھی تجھے معلم بنانے کی فرمائش پر شرمندگی ہوگی۔ تجھے اِنسانوں سے نفرت ہے؟ مگر ہم تو تجھے اِس قابل بھی نہیں سمجھتے!! تجھ سے اعلانِ جنگ اس کے سوا کچھ نہیں کہ تو نے ہمارے رب کی نا فرمانی کی‘ خالق کو چیلنج کیا تھا ناں؟ بہکائے گا؟ رحمن کی فوج کے سپاہی ہیں‘ معلوم ہے تو نے دنیا کے نظام میں بگاڑ پیدا کرکے مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں۔ مگر دماغ ہے‘ سوچ ہے‘ شعور ہے‘ تیری چھوٹی سی چھوٹی چال بھی اب نظروں سے اوجھل نہیں رہے گی‘ تیرے ہر وار اُلٹ کر‘ تیری ہر چال پلٹ کر اور تیرے ہر راستے کو چھوڑ کر تجھے اذیت دوں گا۔ بہکا سکتا ہے تو بہکا لے!! جا چیلنج ہے.... کرلے جو ہوسکتا ہے!!
آدمؑ کا جسدِ خاکی پڑا ہوا ہے‘ فرشتے دیکھ دیکھ کر گزرتے ہیں اور منتظر ہیں کہ یہی ہے وہ جسے اللہ زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہے‘ مگر نوری مخلوق کا ناری معلم اُسے دیکھ کر مضحکہ اُڑاتا ہوا گزر رہا ہے تو یہ ہے وہ خاکی! جسے زمین پر نائب بنایا جارہا ہے.... روح پھونک دی گئی.... رحمن کی آواز آئی سجدہ کرو.... سب جھک گئے سوائے ایک کے.... ’ایک‘ رب کے سامنے ’ایک‘ مخلوق تن کر کھڑی ہوگئی‘ رحمن نے پوچھا کس بات نے تجھے حکم عدولی پر مجبور کیا.... شیطان نے کہا ”میں اس سے بہتر ہوں‘ یہ خاکی میں ناری!! حکم عدولی پر قہر خدا کا نشانہ بنا مگر مہلت مانگ لی‘ رحمن و رحیم نے مہلت دیدی اور دربار سے نکال دیا.... شیطان کہتا ہوا چلا ”اس اِنسان کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا، قیامت تک اِسے بہکاﺅں گا.... رحمن نے کہا جو میرے بندے ہونگے وہ تیرے جال میں نہیں آئیں گے!! رحمن کو ”چیلنج“ کرنےوالا شیطان!! اور سبب ”اِنسان“۔ کیا اس دنیا میں جینے کے فقط دو راستے نہیں بچے؟؟ یا تو ”رحمن کا سپاہی“ یا پھر شیطان کا.... راستے کے انتخاب میں وقت کا ضیاع کب تک؟ کبھی ایک راستے کبھی دوسری پگڈنڈی کب تک؟ شیطان کی فوج میں شامل ہونا ہے تو مایوس وہ بھی نہیں کرے گا!! مہلت ملی ہوئی ہے.... رحمن کی راہ پکڑنی ہے تو راستہ کٹھن‘ سفر دشوار.... اُس نے خود نہیں بنایا!! شیطان نے مہلت سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ مگر رحمن کو ناز ہے ہم پر.... ”جو میرے بندے ہونگے وہ تیرے جال میں نہیں آئینگے!!“
شیطان
فطری طلب پر نفس کے ذریعے حاوی ہونے والا شیطان!! جنس مخالف سے میلان کی فطرت رکھنے والے اِنسان کو ناجائز طور طریقے سکھانے والا شیطان۔ خوش الحانی کی خواہش رکھنے والی سماعت کو ہیجان انگیز موسیقی دینے والا شیطان۔ دل میں دردِ اِنسانیت رکھنے والے کو خود خدا بنا دینے والا شیطان۔ خطابت و بلاغت سے اچھائی کا پرچار کرنےوالے کو گالیاں سکھانے والا شیطان۔ اپنی ذہانت سے حقیقت کو پا لینے والے اِنسان کو اُس کے راستے سے بہکا دینے والا .... شیطان!! یہ مت سوچنا کچھ زیادہ ہی ڈھیل دیدی۔ ڈھیل تو ہمیں بھی ہے.... اختیار ہمیں بھی ہے!! اپنے ناری جسم پر تکبر کرنےوالے سن!! سن یہ خاکی بدن رکھنے والے بھی تجھے چیلنج کرتے ہیں!!
چاہوں تو اپنی خاکی زبان سے تیرے ناری بدن میں بھی وہ آگ لگادوں جسے کوئی بجھا نہ سکے.... ایسے ہی تو کوئی فضیلت نہیں ملی‘ اختیار دیا ہے میرے رب نے اور آج یہی اختیار استعمال کررہا ہوں.... جا چھوڑ دیا تیرا راستہ!! تو نے میرے سامنے جھکنے سے انکار کرکے کوئی کمال نہیں کیا‘ میں تو کچھ بھی نہیں لیکن خالق کا حکم تھا۔ تو حکم خالق کا منکر ہے تو جا آج سے میں اپنے خالق کی اطاعت کرکے تجھے جلاﺅں گا!! جس رحمن و رحیم نے تجھے مہلت دے رکھی ہے اُس نے میرے لئے بھی درِ توبہ کھول رکھا ہے‘ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ میں تیرے جال میں یوں پھنسا ہوا ہوں کہ اُس دروازے کا راستہ بھی بھول گیا۔ تو میرے خالق کی عطاءکردہ فطری طلب کو نفس سے بہکائے گا؟؟ جا آج سے نفس کی ہر خواہش کا قتل کرکے اُس کا خون تجھ پر چھڑکوں گا!! تو میری زبان پر فحش گوئی سجا کر سمجھتا ہے اس زبان سے اب خالق کی تعریف ممکن نہیں؟ قسم ہے اُس پاک پروردگار کی کہ آج کے بعد اِس زبان پر خالق کی ایسی مدحت ہوگی کہ فرشتوں کو بھی تجھے معلم بنانے کی فرمائش پر شرمندگی ہوگی۔ تجھے اِنسانوں سے نفرت ہے؟ مگر ہم تو تجھے اِس قابل بھی نہیں سمجھتے!! تجھ سے اعلانِ جنگ اس کے سوا کچھ نہیں کہ تو نے ہمارے رب کی نا فرمانی کی‘ خالق کو چیلنج کیا تھا ناں؟ بہکائے گا؟ رحمن کی فوج کے سپاہی ہیں‘ معلوم ہے تو نے دنیا کے نظام میں بگاڑ پیدا کرکے مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں۔ مگر دماغ ہے‘ سوچ ہے‘ شعور ہے‘ تیری چھوٹی سی چھوٹی چال بھی اب نظروں سے اوجھل نہیں رہے گی‘ تیرے ہر وار اُلٹ کر‘ تیری ہر چال پلٹ کر اور تیرے ہر راستے کو چھوڑ کر تجھے اذیت دوں گا۔ بہکا سکتا ہے تو بہکا لے!! جا چیلنج ہے.... کرلے جو ہوسکتا ہے!!