جب اساتزہ کا آنا ہی ٹھہرا تو ہماری اصلاح بھی ہو جائے

میں نے سوچا کہ اساتزہ کرام آیا ہی چاہتے ہیں عبدالرحمن صاحب کے لیے تو میں بھی اپنی گزارش گوش گزار کر دوں، ایک پنتھ دو کاج ہو جائیں گے
استادِ گرامی
ایک نظر کرم یہاں بھی فرمایے گا

تم سے ملنا تھا کیے بہانے آے
زخم کا داغ سا دکھانے آے

کل ہے مجلس کسی دوست کے ہاں
پل میں یوں سوچا بلانے آے

جی ٹھہرتا ہی نہیں تھا کسی کل
لیے ھاتھ میں کچھ فسانے آے

کل نیا سوچ کہ رکھیں گے کچھ ہم
نئی آفت یا دوست پرانے آے

تو سمجھتا ہی نہیں ہے اظہر
میت اپنا وہ تجھکو بنانے آے​
 

مغزل

محفلین
اسے بحر میں کرنا پڑے گا ، ویسے آپ پہلے خود کوشش کیجے ، مطلع کے دوسرے مصرے سے اخذ کردہ زمین کچھ یوں ہوگی،
(( زخم کا داغ دکھانے کے لیے آئے ہیں‌ ))
یا مصرع اولی میں قطع برید کے بعد یوں شکل ہوگی جو میرے خیال میں آسان ہے
(( تم سے ملنے کے بہانے آئے ))
 
اصل میں آزادی سے جو لکھا تھا وہ کچھ یوں تھا

تم سے ملنا تھا کیے پھر سے بہانے آے
زخم کا داغ بنا تجھ کو دکھانے آے

کل بھی مجلس ہے کسی دوست کے ہاں
اسی امید پہ ھم تجھ کو بلانے آے

جی ٹھہرتا ہی نہیں تھا کسی کل بھی پاگل
جی نے بے چین کیا، گھڑے کتنے فسانے آے

کچھ نیا سوچ کے رکھنا ہے تمہاری خاطر
کوئ آفت ہے نئی یا دوست پرانے آے

ایک تُو ہے کہ سمجھتا ہی نہیں ہے اظہر
ایک وہ ہیں کے تجھے دوست بنانے آے

بتا اس لیے رہا ہوں کہ جو وارد ہوتا ہے اور جیسے وارد ہوتا ہے لکھ لیتا ہوں
شاید آپ بھی ان کیفیات سے گزرے ہوں، جیسے ڈاکٹر سے مرض کی تفصیل نہیں چھپانی چاہیے ویسے ہی استادوں سے کچھ چھپانا نئی چاہیے
 

مغزل

محفلین
ابتدا میں بحرکے علم پر اتنا زور مت دیجیے ، کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ آتا ہے ، گنگنا کر مصرع کہنے کی کوشش کیجے ، مزید یہ کہ ( میرے نزدیک) شاعری بحرو وزن کے علم کا نام نہیں شعریت کا نام ہے ، لہذا میری مخلصانہ رائے یہی ہے کہ آُپ اس طرف جانے سے گریز کیجے ، اور خود کو شاعری کے سپرد کیجے ، تاوقتیکہ شاعری آپ کو اختیار نہ کرلے میں بھی اتنا نہیں جانتا ، وارث صاحب سے رجوع کیجے گا، ۔
 

مغزل

محفلین
اب جو آپ نے ’’ وارداتی ‘‘ کلام پیش کیا ہے یہ بحر کے بہت قریب ہے ، چند ایک مصرعوں کو صلاح کی ضرورت ہے ، ۔بہت خوب ماشا اللہ
 

الف عین

لائبریرین
اب یہ طے کر لو کہ کس بحر میں فائنل کیا جائے۔ ’وارداتی‘ بحر ہے
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
اور
شروع میں پہلی پوسٹ میں جو شکل ہے، وہ اس سے قریب تر ہے:
فاعلاتن فَعِلاتن فعلن
 
تم سے ملنا تھا کیے پھر سے بہانے آے
زخم کا داغ بنا پھر تجھ کو دکھانے آے

کل بھی مجلس ہے کسی دوست کے ہاں میرے
اسی امید پہ ھم تجھ کو ملنے بلانے آے

جی ٹھہرتا ہی نہیں تھا کسی کل بھی پاگل
جی نے بے چین کیا، گھڑے کتنے فسانے آے

کچھ نیا سوچ کے رکھنا ہے تمہاری خاطر
کوئ آفت ہے نئی یا دوست پرانے آے

ایک تُو ہے کہ سمجھتا ہی نہیں ہے اظہر
ایک وہ ہیں کے تجھے دوست بنانے آے

تم-فا-
س-ع-
مل-لا
نا-تن
ت-ف
ا-ع
کی-لا
ء ے-تن
پ-ف
ر-ع
سے-لا
بہہ-تن
انے-فع
اے-لن
 

مغزل

محفلین
یوں کیوں نہیں‌کرتے ::
تم سے ملنا ----
فاعلاتن ------
اس طرح دیگر صاحبان کے لیے بھی آسانی رہے گی ، کچھ سیکھنے میں ۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ ، جناب بابا جانی موجود ہیں ،میں کیا عرض کروں ، کچھ اتنظار کر لیجے ، غیاب میں تو یہ فرض ادا کرنا کوئی عیب نہیں، مگر صاحبانِ‌فن کی موجودگی میں لب کھولنا صریحاً بے ادبی ہے ۔
 
آستاد گرامی قدر،
میں نے ھر دو صورتوں میں کوشش کی ہے، اب جو آپ کا حکم ہو؟

پہلی کوشش

فاعلاتن مفاعلن فعلن میں ہے

تم سے ملنے کے بہانے آئے ہیں
زخم کا داغ دکھانے آئے ہیں

اک مجلس کو بہانہ کہہ کر
پھر تجھے دیکھ بلانے آئے ہیں

جی ٹھہرتا ہی نہیں ہے پاگل
گھڑے کتنے حسیں فسانے آئے

پھر نیا سوچ کے رکھیں گے ہم
نئی آفت یا کے یار پرانے آئے

تو سمجھتا ہی نہیں ہے اظہر
میت وہ تم کو تو ہی بنانے آئے


دوسری کوشش
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن

تم سے ملنا تھا کیے پھر سے بہانے آئے
زخم کا داغ بنا پھر تجھ کو دکھانے آئے

کل بھی مجلس ہے کسی دوست کے ہاں میرے
اسی امید پہ ھم تجھ کو ملنے بلانے آئے

جی ٹھہرتا ہی نہیں تھا کسی کل بھی پاگل
جی نے بے چین کیا، گھڑے کتنے فسانے آئے

کچھ نیا سوچ کے رکھنا ہے تمہاری خاطر
کوئ آفت ہے نئی یا دوست پرانے آئئے

ایک تُو ہے کہ سمجھتا ہی نہیں ہے اظہر
ایک وہ ہیں کے تجھے دوست بنانے آئے

اب آپ دیکھیے از راہ کرم
والسلام
اظہر
 

مغزل

محفلین
ماشا اللہ ، اظہر بھیا ، کی بور ڈ میں عمزہ ( ء ) شفٹ یو سے ہے ، اگر الگ استعمال مقصود ہو ، وگرنہ یو اور وائے دبائیں گے تو ’’ آئے ‘‘ لکھا جاسکے گا، شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
پہلی کوشش۔۔
یہ ’ہیں‘ کا ا؂ضافہ کیوں آخر میں، ردیف بٍیر ’ہے‘ کے بحر میں درست ہے، ہے کے ساتھ نہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ تر مستعمل بحر فاعلاتن فعلاتن فعلن ہے، فاعلاتن، مفاعلن فعلن نہیں
اب ایک ایک کر کے

تم سے ملنے کے بہانے آئے
زخم کا داغ دکھانے آئے

درست

اک مجلس کو بہانہ کہہ کر
پھر تجھے دیکھ بلانے آئے ہیں
ایک مجلس۔۔۔ باقی ٹھیک ہے۔ اک وزن میں نہیں آتا۔

جی ٹھہرتا ہی نہیں ہے پاگل
گھڑے کتنے حسیں فسانے آئے
پہلا مصرع وزن میں ہے، دوسرا نہیں

پھر نیا سوچ کے رکھیں گے ہم
نئی آفت یا کے یار پرانے آئے
دوسرا مصرع خارج از بحر ہے، پہلا مصرع بھی اس صورت میں درست ہے جب رکھّیں، یعنی کھ پر تشدید ہو

تو سمجھتا ہی نہیں ہے اظہر
میت وہ تم کو تو ہی بنانے آئے
پہلا مصرع درست
دوسرا مصرع۔۔ بہت لمبا ہو گیا ہے،
میت وہ تم کو بنانے آئے
کافی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اب دوسری کوشش

تم سے ملنا تھا کیے پھر سے بہانے آئے
زخم کا داغ بنا پھر تجھ کو دکھانے آئے
پہلا مصرع درست
دوسرا مصرع۔۔ ’پھر‘ زائد ہے، اس کے بغیر بحر میں درست آتا ہے، یعنی ’ زخم کا داغ بنا تجھ کو دکھانے آئے‘

کل بھی مجلس ہے کسی دوست کے ہاں میرے
اسی امید پہ ھم تجھ کو ملنے بلانے آئے
پہلا مصرع بھڑ سے خارج ہے۔۔’پاس‘ کے وزن کے کسی لفظ کا اضافہ کرنے سے درست ہوگا۔، جیسے ’کل بھی مجلس ہے کسی دوست کے ہاں میرے ’پاس‘

جی ٹھہرتا ہی نہیں تھا کسی کل بھی پاگل
جی نے بے چین کیا، گھڑے کتنے فسانے آئے
پہلا مصرع درست، دوسرے مصرع میں ’گھڑے‘ فٹ نہیں ہو رہا ۔ بغیر اس کے مکمل وزن میں ہے۔ یعنی ’‘جی نے بے چین کیا، کتنے فسانے آئے"

کچھ نیا سوچ کے رکھنا ہے تمہاری خاطر
کوئ آفت ہے نئی یا دوست پرانے آئئے
پہلا مصرع درست
دوسرے مصرع میں ’یا‘ زائد ہے، تقطیع کر لیں، اس کے بغیر وزن درست ہے۔
کوئ آفت ہے نئی دوست پرانے آئے

ایک تُو ہے کہ سمجھتا ہی نہیں ہے اظہر
ایک وہ ہیں کے تجھے دوست بنانے آئے
مکمل درست۔۔
یہ محض اوزان اور تقطیع کے حساب سے۔ معانی پر غور بالکل نہیں کیا ہے۔ در اصل سمجھ میں ہی نہیں آئے ہیں کہ کہنا کیا چاہتے ہو!!
 
تم سے ملنا تھا کیے پھر سے بہانے آئے
زخم کا داغ بنا ، تجھ کو دکھانے آئے

مجلسِ دوست کا اک مدعو نامہ لئے
بڑی امید سے ھم تجھ کو تکنے بلانے آئے

جی ٹھہرتا ہی نہیں تھا کسی کل بھی پاگل
جی نے بے چین کیا، قصّّے سنانے آئے

کچھ نیا سوچ کے رکھنا ہے تمہاری خاطر
کوئ آفت ہے نئی ، دوست پرانے آئے

ایک تُو ہے کہ سمجھتا ہی نہیں ہے اظہر
ایک وہ ہیں کے تجھے دوست بنانے آئے


آستاد محترم،
سیکھنے کی جستجو میں ہوں، معنی پر اتنا غور نہیں کرتا۔
انشا اللہ جب سیکھ جاؤن گا آپ کی عنایت اور توجہ سے تو پھر کچھ لکھوں گا
کچھ تبدیلیاں کیں ہیں ملاحظہ فرمائے
والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
اس شعر کے علاوہ ناقی اوزان درست ہیں، لیکن اس کے اب ب ھی خطا ہو رہے ہیں۔
مجلسِ دوست کا اک مدعو نامہ لئے
بڑی امید سے ھم تجھ کو تکنے بلانے آئے
دوسرے مصرع میں ’تکنے‘ کی ضرورت نہیں۔ پہلے مصرع میں مدعو نامہ ہو یا درست دعوت نامہ، دونوں وزن سے خارج کر دیتے ہیں مصرع کو۔
 
تم سے ملنا تھا کیے پھر سے بہانے آئے
زخم کا داغ بنا ، تجھ کو دکھانے آئے

اک مدعو نامہ لئے دوستوں کی مجلس کا
بڑی امید سے ھم تجھ کو بلانے آئے


جی ٹھہرتا ہی نہیں تھا کسی کل بھی پاگل
جی نے بے چین کیا، قصّّے سنانے آئے

کچھ نیا سوچ کے رکھنا ہے تمہاری خاطر
کوئ آفت ہے نئی ، دوست پرانے آئے

ایک تُو ہے کہ سمجھتا ہی نہیں ہے اظہر
ایک وہ ہیں کے تجھے دوست بنانے آئے


آستاد محترم ،
ایسے ٹھیک ہی کیا؟ معزرت کے بڑی دیر سے سمجھتا ہوں
والسلام
اظہر
 
Top