جب ان کے آستاں پہ لئے چشمِ تر گئے

سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
سید عاطف علی
محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے


لگتا ہے وصلِ یار کے لمحے گذر گئے
آنکھوں کےخواب سارے ہی یکسر بکھرگئے

ساون نے کر دئیے مرے سب زخم پھر ہرے
درماں کئے جو میں نے سبھی بے اثر گئے

چھو کر ہوائیں بھی اسے مخمور ہو گئیں
خوشبوئے زلف یار سے جھونکے سنور گئے

تھی مستقل خزاں مرے گلشن میں چار سو
بس تیری اک جھلک سے شگوفے نکھر گئے

فصلِ بہار کا مَیں کروں انتظار کیا
پت جھڑ کی کلفتوں سے ہی جذبات مر گئے

پہلے سا رابطوں میں تسلسل نہیں رہا
مطلب نکال کر وہ نجانے کدھر گئے

آغازِ عشق میں تھے ہم آشفتہ سر بہت
لگتا ہے اب جنوں کے سمندر ٹھہر گئے

سب کے لئے بنے تھے تمسخر کا ہم سبب
جب ان کے آستاں پہ لئے چشمِ تر گئے


مسکان ان لبوں پہ نظر آئی آج پھر
سیلاب رنجشوں کے ہیں شاید اتر گئے

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
ٹھیک ہی لگ رہی ہے غزل، بس دو ایک مصرعوں کا بیانیہ کچھ نا مناسب یا روانی کی کمی محسوس ہوتی ہے
مطلع میں جیسے سارے اور یکسر کا ایک ساتھ استعمال کی بہ نسبت 'سارے کے سارے' زیادہ بہتر ہو گا۔
آخری شعر میں بھی 'ہیں اتر گئے' اچھا نہیں
شاید کہ رنجشوں کے وہ سیلاب اتر گئے
یا اس قسم کا کچھ اور مصرع بہتر ہو گا
 
ٹھیک ہی لگ رہی ہے غزل، بس دو ایک مصرعوں کا بیانیہ کچھ نا مناسب یا روانی کی کمی محسوس ہوتی ہے
مطلع میں جیسے سارے اور یکسر کا ایک ساتھ استعمال کی بہ نسبت 'سارے کے سارے' زیادہ بہتر ہو گا۔
آخری شعر میں بھی 'ہیں اتر گئے' اچھا نہیں
شاید کہ رنجشوں کے وہ سیلاب اتر گئے
یا اس قسم کا کچھ اور مصرع بہتر ہو گا
شکریہ سر
 
Top