جب بھی ابرِ بہار اٹھتا ہے۔ برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، سید عاطف علی
اصلاح کی درخواست ہے۔

جب بھی ابرِ بہار اٹھتا ہے
دل میں اک انتشار اٹھتا ہے

دائم آباد یہ رہے گلشن
اب یہاں سے یہ خار اٹھتا ہے


آ گئی ہو جوں روحِ منصوری
یوں قدم سوئے دار اٹھتا ہے

نقش بھی اس کے مٹنے لگتے ہیں
جو بھی پہلو سے یار، اٹھتا ہے

اک دِوانہ ہے دشتِ جاں میں، جو
لیلیٰ لیلیٰ پکار اٹھتا ہے


آ ہی جاتی ہے یاد یاروں کی
جب کہیں سے غبار اٹھتا ہے

گرچہ دشوار ہے رہِ الفت
ہر قدم راہوار اٹھتا ہے

منزلیں ہیں کہ سر نہیں ہوتیں
پاؤں گرچہ ہزار اٹھتا ہے

جو اذیت رہِ طلب میں آئے
جذبہ خود ہی سہار اٹھتا ہے

بس یہی ہے فسانہ الفت کا
عشق عالم سنوار اٹھتا ہے
 
آخری تدوین:

امین شارق

محفلین
منزلیں ہیں کہ سر نہیں ہوتیں
پاؤں گرچہ ہزار اٹھتا ہے

زبردست کیا کہنے۔۔
لیکن سر میری ناقص عقل میں یہ خیال آیا کہ سفر کرنے کے لئے تو دو پاؤں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر دونوں کا ذکر کریں گے تو جمع کا صیغہ آجائے گا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
منزلیں ہیں کہ سر نہیں ہوتیں
پاؤں گرچہ ہزار اٹھتا ہے

زبردست کیا کہنے۔۔
بہت شکریہ شارق بھائی
لیکن سر میری ناقص عقل میں یہ خیال آیا کہ سفر کرنے کے لئے تو دو پاؤں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر دونوں کا ذکر کریں گے تو جمع کا صیغہ آجائے گا۔
پاؤں واحد جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ استاد صاحب کیا فرماتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
جب بھی ابرِ بہار اٹھتا ہے
دل میں اک انتشار اٹھتا ہے
.. درست

دائم آباد یہ رہے گلشن
اب یہاں سے یہ خار اٹھتا ہے
... ٹھیک ہے

آ گئی ہو جوں روحِ منصوری
یوں قدم سوئے دار اٹھتا ہے
... روانی متاثر ہے پہلے مصرع کی
آ گئی جیسے روحِ....
بہتر ہے

نقش بھی اس کے مٹنے لگتے ہیں
جو بھی پہلو سے یار، اٹھتا ہے
.. جو؟ کتنے یار ہیں جو پہلو سے اٹھتے رہتے ہیں؟
جب بھی... کہنا بہتر ہو شاید

اک دِوانہ ہے دشتِ جاں میں، جو
لیلیٰ لیلیٰ پکار اٹھتا ہے
... ٹھیک ہے

آ ہی جاتی ہے یاد یاروں کی
جب کہیں سے غبار اٹھتا ہے
... واضح نہیں ہوا

گرچہ دشوار ہے رہِ الفت
ہر قدم راہوار اٹھتا ہے
.. راہوار کن معنوں میں؟

منزلیں ہیں کہ سر نہیں ہوتیں
پاؤں گرچہ ہزار اٹھتا ہے
.. درست

جو اذیت رہِ طلب میں آئے
جذبہ خود ہی سہار اٹھتا ہے
... سہار کوئی اسم نہیں میرے خیال میں، سہارا فعل تو سنا ہے

بس یہی ہے فسانہ الفت کا
عشق عالم سنوار اٹھتا ہے
.. یہ بھی دو لخت لگ رہا ہے کہ واضح نہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
گرچہ دشوار ہے رہِ الفت
ہر قدم راہوار اٹھتا ہے
.. راہوار کن معنوں میں؟
تیز رفتار کے معنوں میں کہا ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال کی نظم "صدیق رضی اللہ عنہ" میں ہے۔
دل ميں يہ کہہ رہے تھے کہ صديق سے ضرور
بڑھ کر رکھے گا آج قدم ميرا راہوار
جو اذیت رہِ طلب میں آئے
جذبہ خود ہی سہار اٹھتا ہے
... سہار کوئی اسم نہیں میرے خیال میں، سہارا فعل تو سنا ہے
"سہار" سہارنا لفظ کا مصدر ہے نا۔ جو بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔
میں تو یہی سمجھ رہا تھا۔😊
باقی اشعار ترمیم کر کے پیش کرتا ہوں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آ گئی ہو جوں روحِ منصوری
یوں قدم سوئے دار اٹھتا ہے
... روانی متاثر ہے پہلے مصرع کی
آ گئی جیسے روحِ....
بہتر ہے
آ گئی جیسے روحِ منصوری
یوں قدم سوئے دار اٹھتا ہے
نقش بھی اس کے مٹنے لگتے ہیں
جو بھی پہلو سے یار، اٹھتا ہے
.. جو؟ کتنے یار ہیں جو پہلو سے اٹھتے رہتے ہیں؟
جب بھی... کہنا بہتر ہو شاید
نقش بھی اس کے مٹنے لگتے ہیں
جب بھی پہلو سے یار اٹھتا ہے
آ ہی جاتی ہے یاد یاروں کی
جب کہیں سے غبار اٹھتا ہے
... واضح نہیں ہوا
آ ہی جاتی ہے یاد یاروں کی
دل سے جب بھی غبار اٹھتا ہے
بس یہی ہے فسانہ الفت کا
عشق عالم سنوار اٹھتا ہے
.. یہ بھی دو لخت لگ رہا ہے کہ واضح نہیں
عشق اگرچہ ہے فتنہ خیز مگر
یا
عشق سب فتنہ خیزیوں کے باوصف
دو جہاں کو سنوار اٹھتا ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
تیز رفتار کے معنوں میں کہا ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال کی نظم "صدیق رضی اللہ عنہ" میں ہے۔
دل ميں يہ کہہ رہے تھے کہ صديق سے ضرور
بڑھ کر رکھے گا آج قدم ميرا راہوار

"سہار" سہارنا لفظ کا مصدر ہے نا۔ جو بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔
میں تو یہی سمجھ رہا تھا۔😊
باقی اشعار ترمیم کر کے پیش کرتا ہوں۔
استادِ محترم اگر تو میں درست سمجھا ہوں تو ٹھیک اور اگر نہیں تو مجھے بتائیے گا پھر ان اشعار پر کوشش کرکے دیکھوں گا اگر کچھ مناسب صورت سمجھ آئی تو۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
استادِ محترم اگر تو میں درست سمجھا ہوں تو ٹھیک اور اگر نہیں تو مجھے بتائیے گا پھر ان اشعار پر کوشش کرکے دیکھوں گا اگر کچھ مناسب صورت سمجھ آئی تو۔۔۔۔
راہوار سے گھوڑا مراد لیا جاتا ہے، جو یہاں درست نہیں
باقی اشعار اب درست ہو گئے ہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
راہوار سے گھوڑا مراد لیا جاتا ہے، جو یہاں درست نہیں
باقی اشعار اب درست ہو گئے ہیں
گرچہ دشوار ہے رہِ الفت
ہر قدم راہوار اٹھتا ہے

راہوار کی جگہ کون سا قافیہ مناسب رہے گا۔ بے قرار، استوار، رہگزار
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جب بھی ابرِ بہار اٹھتا ہے
دل میں اک انتشار اٹھتا ہے

دائم آباد یہ رہے گلشن
اب یہاں سے یہ خار اٹھتا ہے

آ گئی جیسے روحِ منصوری
یوں قدم سوئے دار اٹھتا ہے

نقش بھی اس کے مٹنے لگتے ہیں
جب بھی پہلو سے یار، اٹھتا ہے

اک دِوانہ ہے دشتِ جاں میں، جو
لیلیٰ لیلیٰ پکار اٹھتا ہے

آ ہی جاتی ہے یاد یاروں کی
دل سے جب بھی غبار اٹھتا ہے

گرچہ دشوار ہے رہِ الفت
ہر قدم بے قرار اٹھتا ہے


منزلیں ہیں کہ سر نہیں ہوتیں
پاؤں گرچہ ہزار اٹھتا ہے

جو اذیت رہِ طلب میں آئے
جذبہ خود ہی سہار اٹھتا ہے

عشق اگرچہ ہے فتنہ خیز مگر
دو جہاں کو سنوار اٹھتا ہے
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
آپ کی محبت ہے محمد عبدالرؤوف بھائی کہ آپ میرے لکھے کو کسی قابل سمجھتے ہیں۔
ان شاءاللہ کوشش ہو گی کہ جلد کوئی نئی تحریر خدمت میں پیش کر سکوں۔ بہت شکریہ۔
اللہ آپ پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں۔ آمین۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آپ کی محبت ہے محمد عبدالرؤوف بھائی کہ آپ میرے لکھے کو کسی قابل سمجھتے ہیں۔
ان شاءاللہ کوشش ہو گی کہ جلد کوئی نئی تحریر خدمت میں پیش کر سکوں۔ بہت شکریہ۔
اللہ آپ پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں۔ آمین۔
میری کیا مجال ہے بھائی یہاں تو سب آپ کی تحریر کے مداح ہیں 😊
 

الف عین

لائبریرین
گرچہ دشوار ہے رہِ الفت
ہر قدم راہوار اٹھتا ہے

راہوار کی جگہ کون سا قافیہ مناسب رہے گا۔ بے قرار، استوار، رہگزار
مجھے تو کوئی قافیہ فٹ ہوتا محسوس نہیں ہو رہا
عشق اگرچہ... بہتر اور درست ہے، دوسرا متبادل تو بحر سے خارج ہی ہے
ایک اور متبادل میری طرف سے
عشق گو فتنہ خیزہے لیکن
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جب بھی ابرِ بہار اٹھتا ہے
دل میں اک انتشار اٹھتا ہے

دائم آباد یہ رہے گلشن
اب یہاں سے یہ خار اٹھتا ہے

آ گئی جیسے روحِ منصوری
یوں قدم سوئے دار اٹھتا ہے

نقش بھی اس کے مٹنے لگتے ہیں
جب بھی پہلو سے یار اٹھتا ہے

اک دِوانہ ہے دشتِ جاں میں، جو
لیلیٰ لیلیٰ پکار اٹھتا ہے

آ ہی جاتی ہے یاد یاروں کی
دل سے جب بھی غبار اٹھتا ہے

منزلیں ہیں کہ سر نہیں ہوتیں
پاؤں گرچہ ہزار اٹھتا ہے

جو اذیت رہِ طلب میں آئے
جذبہ خود ہی سہار اٹھتا ہے

عشق گو فتنہ خیز ہے لیکن
دو جہاں کو سنوار اٹھتا ہے
 
آخری تدوین:
Top