جب بھی میں کشفِ ذات سے گزرا۔ تازہ غزل ۔ منصور آفاق

منصور آفاق

محفلین

جب بھی میں کشفِ ذات سے گزرا
اک نئی کائنات سے گزرا

ہاتھ میں لالٹین لے کے میں
جبر کی کالی رات سے گزرا

آتی جاتی ہوئی کہانی میں
کیا کہوں کتنے ہاتھ سے گزرا

موت کی دلکشی زیادہ ہے
میں مقامِ ثبات سے گزرا

جستہ جستہ دلِ تباہ مرا
جسم کی نفسیات سے گزرا

لمحہ بھر ہی وہاں رہا لیکن
میں بڑے واقعات سے گزرا

لفظ میرا تر ے تعاقب میں
حوضِ آبِ حیات سے گزرا

ایک تُو ہی نہیں ہے غم کا سبب
دل کئی حادثات سے گزرا

یہ بھیِ انکار کی تجلی ہے
ذہن لات و منات سے گزرا

دستِ اقبال تھام کر منصور
کعبہ و سومنات سے گزرا

دل عجب احتیاط سے گزرا
ضبط کے پل صراط سے گزرا

وہ عجب کہ تراشنے کے بعد
ایک سو دس قراط سے گزرا

کائناتیں عظیم ہیں لیکن
میں محیط و محاط سے گزرا

چل پڑی ساتھ موت جب بھی میں
زندگی کی بساط سے گزرا

میں نہ یکتا ہوا خدا کی طرح
نہ کسی اختلاط سے گزرا

اک الف بس بنانے میں منصور
بے کے کتنے نقاط سے گزرا

ق

نور کی پتیوں کی بارش میں
دل شبِ انبساط سے گزرا

پھول سے قمقمے تھے پانی میں
جب میں نہرِ نشاط سے گزرا

اک مراکش بھرے بدن کے ساتھ
رنگ شہرِرباط سے گزرا


کیسے وہم و قیاس سے گزرا
خواب میں بھی ہراس سے گزرا

ہرعمارت بہار بستہ ہے
کون چیرنگ کراس سے گزرا

رات اک کم سخن بدن کے میں
لہجہ ئ پُر سپاس سے گزرا

پھر بھی صرفِ نظر کیا اس نے
میں کئی بار پاس سے گزرا

رو پڑی داستاں گلے لگ کر
جب میں دیوانِ خاص سے گزرا

عمر بھر عشق ،حسن والوں کی
صبحتِ ناشناس سے گزرا

کیا کتابِ وفا تھی میں جس کے
ایک ہی اقتباس سے گزرا

مثلِ دریا ہزاروں بار بدن
اک سمندر کی پیاس سے گزرا

ہجر کے خارزار میں منصور
وصل کی التماس سے گزرا
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
جب بھی میں کشفِ ذات سے گزرا
اک نئی کائنات سے گزرا

لمحہ بھر ہی وہاں رہا لیکن
میں بڑے واقعات سے گزرا

واہ۔ بہت خوب کہا ہے۔۔۔
 
جناب منصور صاحب۔ آپ نے کسر نفسی سے کام لیا ہے۔ یہ ایک نہیں بلکہ تین غزلیں ہیں اور بہت خوب ہیں۔ ہاتھ میں لالٹین لے کے میں کو اگر تبدیل کر کے لے کے قندیل اپنے ہاتھوں میں کر دیں تو کیسا رہے۔ یہ صرف ایک رائے ہے جسے قبول کرنا بالکل ضروری نہیں۔
 
Top