غزل
جب تک ہے جان اس کی ہی باتیں کریں گے ہم
جیتے ہیں جس کے واسطے اس پر مریں گے ہم
میدانِ عشق رکھنا ذرا حوصلہ بلند
اب پاؤں تیری خاک پہ اپنا دھریں گے ہم
ہو گا وہ نور چہرہ ہمیں جب کبھی نصیب
آنکھوں کے راستے اسے دل میں بھریں گے ہم
اے موت ہے تُو پردہ ہمارے اور اس کے بیچ
آ جانا شوق سے کبھی ،تجھ سے ڈریں گے ہم؟
آتی تو ہے یہ سوچ کہ چھوڑیں یہ عاشقی
لیکن سوال یہ ہے کہ پھر کیا کریں گے ہم
کچھ اور ہی ہے آج طبیعت کا اپنی رنگ
شکرِ خدا کہ سوچا تھا رو رو مریں گے ہم
وہ دن بھی تھے عظیم کہ اپنی خبر نہ تھی
سوچا بھی تھا کبھی؟ اسے ڈھونڈا کریں گے ہم!
***