کاشفی
محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
جب خوبرو چھپاتے ہیں عارض نقاب میں
کہتا ہے حُسن میں نہ رہوں گا حجاب میں
بے قصد لکھ دیا ہے گِلہ اِضطراب میں
دیکھوں کہ کیا وہ لکھتے ہیں خط کے جواب میں
بجلی چمک رہی ہے فلک پر سحاب میں
اب دختِ رز کو چین کہاں ہے حجاب میں
اللہ رے میرے دل کی تڑپ اضطراب میں
گھبرا کے کروٹیں لگے لینے وہ خواب میں
مہماں کے ساتھ کھانے کا ہوتا نہیں حساب
ہم تم کباب کھائیں ڈبو کر شراب میں
اے برق تو ذرا تڑپی ٹھہر گئی
یاں عمر کٹ گئی ہے اسی اضطراب میں
ملنے کا وعدہ منہ سے تو ان کے نکل گیا
پوچھی جگہ جو میں نے، کہا ہنس کے خواب میں
دو کی جگہ دئیے مجھے بوسے بہک کے چار
تھے نیند میں، پڑا اُنہیں دھوکا حساب میں
قاصد ہے قول و فعل کا کیا ان کے اعتبار
پیغام کچھ کہا ہے، لکھا کچھ جواب میں
ترغیب میرے قتل کی دو اُن کو ہمدمو
ہے کارخیر تم بھی ہوداخل ثواب میں
کیا آہ کی ہوا سے ہوا مل گئے جو دو
اُٹھتا مزہ جو بند نہ ہوتے نقاب میں
سمجھے ہیں دل میں کیا جو یہ گُل رُو ہوا میں ہیں
مہمان چار دن کا ہے جوبن حساب میں
سمجھا ہے تو جو غیبتِ پیرِ مغاں حلال
واعظ بتا یہ مسئلہ ہے کس کتاب میں
خونخوار ہے وہ مست، ملے گا بڑا مزہ
قیمہ مرے جگر کا ملا دو کباب میں
کام آئی کیسی ظلمتِ عصیاں بروزِ حشر
سایہ ہمارے سر پہ رہا آفتاب میں
دیکھا کیا جو دفترِ آفاق بعدِ جمع
ہم پہلے ہو گئے نظری انتخاب میں
منظور قید و قتل جو ہو حکم دیجیے
ہے یہ گناہگار بھی حاضر جواب میں
دامن میں اُن کے خون کی چھینٹیں پڑیں امیر
بسمل سے پاس ہو نہ سکا اضطراب میں
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
جب خوبرو چھپاتے ہیں عارض نقاب میں
کہتا ہے حُسن میں نہ رہوں گا حجاب میں
بے قصد لکھ دیا ہے گِلہ اِضطراب میں
دیکھوں کہ کیا وہ لکھتے ہیں خط کے جواب میں
بجلی چمک رہی ہے فلک پر سحاب میں
اب دختِ رز کو چین کہاں ہے حجاب میں
اللہ رے میرے دل کی تڑپ اضطراب میں
گھبرا کے کروٹیں لگے لینے وہ خواب میں
مہماں کے ساتھ کھانے کا ہوتا نہیں حساب
ہم تم کباب کھائیں ڈبو کر شراب میں
اے برق تو ذرا تڑپی ٹھہر گئی
یاں عمر کٹ گئی ہے اسی اضطراب میں
ملنے کا وعدہ منہ سے تو ان کے نکل گیا
پوچھی جگہ جو میں نے، کہا ہنس کے خواب میں
دو کی جگہ دئیے مجھے بوسے بہک کے چار
تھے نیند میں، پڑا اُنہیں دھوکا حساب میں
قاصد ہے قول و فعل کا کیا ان کے اعتبار
پیغام کچھ کہا ہے، لکھا کچھ جواب میں
ترغیب میرے قتل کی دو اُن کو ہمدمو
ہے کارخیر تم بھی ہوداخل ثواب میں
کیا آہ کی ہوا سے ہوا مل گئے جو دو
اُٹھتا مزہ جو بند نہ ہوتے نقاب میں
سمجھے ہیں دل میں کیا جو یہ گُل رُو ہوا میں ہیں
مہمان چار دن کا ہے جوبن حساب میں
سمجھا ہے تو جو غیبتِ پیرِ مغاں حلال
واعظ بتا یہ مسئلہ ہے کس کتاب میں
خونخوار ہے وہ مست، ملے گا بڑا مزہ
قیمہ مرے جگر کا ملا دو کباب میں
کام آئی کیسی ظلمتِ عصیاں بروزِ حشر
سایہ ہمارے سر پہ رہا آفتاب میں
دیکھا کیا جو دفترِ آفاق بعدِ جمع
ہم پہلے ہو گئے نظری انتخاب میں
منظور قید و قتل جو ہو حکم دیجیے
ہے یہ گناہگار بھی حاضر جواب میں
دامن میں اُن کے خون کی چھینٹیں پڑیں امیر
بسمل سے پاس ہو نہ سکا اضطراب میں
میراۃ الغیب ۔ امیر مینائی ، صفحہ 180