جب سکولوں میں تصوف پڑھائیں گے تو ٹیچر مرشد کہلائے گا یا پیر؟

جاسم محمد

محفلین
جب سکولوں میں تصوف پڑھائیں گے تو ٹیچر مرشد کہلائے گا یا پیر؟
30/01/2020 عدنان خان کاکڑ
وطن عزیز میں انتہا پسندی اور عدم برداشت بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ جنرل مشرف کے زمانے میں امریکی ماہرین نے بتایا تھا کہ مذہبی انتہا پسندی کا یہ علاج ہے کہ صوفیت کو فروغ دیا جائے۔ جنرل مشرف کی بدقسمتی کہ ان کے سر پر کوئی پیر نہیں تھا اس لئے وہ اس پراجیکٹ میں ناکام رہے مگر اب وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف یہ کہ ایک نجی روحانی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا ہے بلکہ تعلیمی اداروں میں صوفیت کی تعلیم دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

یہ ایک بہت اچھا منصوبہ ہے۔ سکولوں کالجوں کے طلبا میں انتہا پسندی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ بلکہ ہم نے تو سنا ہے کہ ان طلبا نے طالبان نامی کوئی شدت پسند تنظیم بھی بنا رکھی ہے جو لڑتی پھٹتی پھرتی ہے۔ اب تعلیمی اداروں میں صوفیت آنے کے بعد طلبا بم بارود کی بجائے دم درود کی طرف مائل ہوں گے۔ ہمارے ہاں ابن عربی، رومی اور جنید بغدادی کا تصوف تو دستیاب نہیں ہے۔ مزاروں درگاہوں پر جو دستیاب ہے، وہی تعلیمی اداروں میں آئے گا۔

اس کے بعد سب سے بڑی تبدیلی تو تعلیمی ادارے کے ماحول اور کلچر میں آئے گی۔ اب طلبا انگریزوں کی نقالی میں اساتذہ کو سر سر اور میڈم میڈم کہتے پھرتے ہیں۔ صوفیت آنے کے بعد اساتذہ کو مرشد اور پیر سائیں کہنے کا رواج ہو گا اور استانیاں پیرنیاں کہلائیں گی۔

طالبات اس قسم کے مکالمے بولتی سنائی دیں گی ”ثنا تم نے ریاضی کی پیرنی کو دیکھا؟ آج پنک شفون کے سوٹ اور ہرے کامدار دوپٹے میں کتنی اللہ والی لگ رہی تھیں؟ اردو کی پیرنی کی طبیعت تو آج بہت جلالی ہوئی تھی، جس پر نگاہ ڈالتی تھیں جلا کر خاک کر دیتی تھیں۔ سوشیالوجی کی پیرنی تو آج غصے میں بھنائی ہوئی حجرہ جماعت میں دھمال ڈالتی پھر رہی تھیں“۔

طلبا بھی کچھ ایسی فکر میں ہی مبتلا ہوں گے۔ ”مرشد میرا ہوم ورک چیک کر لیجیے“۔ ”مرشد میں پچھلا ہفتہ اس لئے غیر حاضر تھا کہ ایک قبرستان میں چلہ کاٹ رہا تھا“۔ ”مرشد جن کو قابو کرنے کو وظیفہ الٹا پڑ گیا، جن نے میرا سارا ہوم ورک جلا دیا“۔ کوئی مظلوم اپنے امتحان کے نمبر دیکھ کر دلگرفتہ ہو کر کہے گا ”مرشد محبتوں کے نتائج کہاں گئے، مرشد مری تو زندگی برباد ہو گئی“۔ حجرہ جماعت کے ایک گوشے سے سزا یافتگان کی صدا بلند ہو گی ”مرشد! میں جل رہا ہوں، سزائیں نہ دیجیے، مرشد! ازالہ کیجے، مرغا نہ بنائیے“۔

داخلے کے وقت طالب علم ”بیعت فارم“ بھر کر چندے کے بکسے میں نذرانہ جمع کروائے گا۔ داخلہ ہوتے ہی ادارہ طالب علم کو ”مرید کارڈ“ جاری کرے گا جسے دکھا کر وہ ادارے کی سہولیات سے فیضیاب ہو سکے گا۔ جماعت کے مرشد کے سب سے چہیتے طالب علم کو مانیٹر کی بجائے خلیفہ کہہ کر پکارا جائے گا۔ جو طلبا تعلیم میں دلچسپی نہیں لیں گے وہ ملنگ کہلائیں گے۔ طلبا کے مردانہ کلاس فیلوز ”پیر بھائی“ بن جائیں گے اور زنانہ کلاس فیلوز کو ”امتحانِ نفسانی“ قرار دیں گے۔ طالبات واقعی امتحان نفسانی بنتے ہوئے انہیں پیر بھائی کہیں گی۔ ناکام عاشق مجذوب بن جائیں گے اور سبز چوغہ پہن کر گلے میں منکوں کی مالائیں لٹکائے ڈنڈے بجاتے پھریں گے۔

ادارے کے ٹرپ مختلف جنگل بیابانوں میں جائیں گے اور وہاں چلے کاٹیں گے۔ کینٹین پر ریفرشمنٹس کی بجائے نیاز ملا کرے گی۔ طلبا سالگرہ پر کیک کی بجائے ختم کے پھل کاٹ کر کھایا کریں گے۔ تعلیمی اداروں سے ہیروئن، آئیس، کوکین اور دیگر مضر صحت منشیات کا خاتمہ ہو جائے گا اور ان کی جگہ درباروں پر دستیاب روایتی تفریحات دستیاب ہوں گی۔

جب طالب علم ان تعلیمی اداروں سے فارغ ہوں گے تو انہیں ہاتھ میں ڈگری پکڑانے کی بجائے روزگار کے تعویذ لکھ کر گلے میں پہنائے جائیں گے۔ اور ہاں، اگلی مرتبہ جب بھارتی طیاروں نے بمباری کی تو پینسٹھ کی جنگ کی طرح بے شمار سبز پوش طلبا ان بموں کو فضا میں کیچ کر کے دریا میں ٹھنڈا کر دیں گے۔
 

یاقوت

محفلین
جب سکولوں میں تصوف پڑھائیں گے تو ٹیچر مرشد کہلائے گا یا پیر؟
30/01/2020 عدنان خان کاکڑ
وطن عزیز میں انتہا پسندی اور عدم برداشت بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ جنرل مشرف کے زمانے میں امریکی ماہرین نے بتایا تھا کہ مذہبی انتہا پسندی کا یہ علاج ہے کہ صوفیت کو فروغ دیا جائے۔ جنرل مشرف کی بدقسمتی کہ ان کے سر پر کوئی پیر نہیں تھا اس لئے وہ اس پراجیکٹ میں ناکام رہے مگر اب وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف یہ کہ ایک نجی روحانی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا ہے بلکہ تعلیمی اداروں میں صوفیت کی تعلیم دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

یہ ایک بہت اچھا منصوبہ ہے۔ سکولوں کالجوں کے طلبا میں انتہا پسندی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ بلکہ ہم نے تو سنا ہے کہ ان طلبا نے طالبان نامی کوئی شدت پسند تنظیم بھی بنا رکھی ہے جو لڑتی پھٹتی پھرتی ہے۔ اب تعلیمی اداروں میں صوفیت آنے کے بعد طلبا بم بارود کی بجائے دم درود کی طرف مائل ہوں گے۔ ہمارے ہاں ابن عربی، رومی اور جنید بغدادی کا تصوف تو دستیاب نہیں ہے۔ مزاروں درگاہوں پر جو دستیاب ہے، وہی تعلیمی اداروں میں آئے گا۔

اس کے بعد سب سے بڑی تبدیلی تو تعلیمی ادارے کے ماحول اور کلچر میں آئے گی۔ اب طلبا انگریزوں کی نقالی میں اساتذہ کو سر سر اور میڈم میڈم کہتے پھرتے ہیں۔ صوفیت آنے کے بعد اساتذہ کو مرشد اور پیر سائیں کہنے کا رواج ہو گا اور استانیاں پیرنیاں کہلائیں گی۔

طالبات اس قسم کے مکالمے بولتی سنائی دیں گی ”ثنا تم نے ریاضی کی پیرنی کو دیکھا؟ آج پنک شفون کے سوٹ اور ہرے کامدار دوپٹے میں کتنی اللہ والی لگ رہی تھیں؟ اردو کی پیرنی کی طبیعت تو آج بہت جلالی ہوئی تھی، جس پر نگاہ ڈالتی تھیں جلا کر خاک کر دیتی تھیں۔ سوشیالوجی کی پیرنی تو آج غصے میں بھنائی ہوئی حجرہ جماعت میں دھمال ڈالتی پھر رہی تھیں“۔

طلبا بھی کچھ ایسی فکر میں ہی مبتلا ہوں گے۔ ”مرشد میرا ہوم ورک چیک کر لیجیے“۔ ”مرشد میں پچھلا ہفتہ اس لئے غیر حاضر تھا کہ ایک قبرستان میں چلہ کاٹ رہا تھا“۔ ”مرشد جن کو قابو کرنے کو وظیفہ الٹا پڑ گیا، جن نے میرا سارا ہوم ورک جلا دیا“۔ کوئی مظلوم اپنے امتحان کے نمبر دیکھ کر دلگرفتہ ہو کر کہے گا ”مرشد محبتوں کے نتائج کہاں گئے، مرشد مری تو زندگی برباد ہو گئی“۔ حجرہ جماعت کے ایک گوشے سے سزا یافتگان کی صدا بلند ہو گی ”مرشد! میں جل رہا ہوں، سزائیں نہ دیجیے، مرشد! ازالہ کیجے، مرغا نہ بنائیے“۔

داخلے کے وقت طالب علم ”بیعت فارم“ بھر کر چندے کے بکسے میں نذرانہ جمع کروائے گا۔ داخلہ ہوتے ہی ادارہ طالب علم کو ”مرید کارڈ“ جاری کرے گا جسے دکھا کر وہ ادارے کی سہولیات سے فیضیاب ہو سکے گا۔ جماعت کے مرشد کے سب سے چہیتے طالب علم کو مانیٹر کی بجائے خلیفہ کہہ کر پکارا جائے گا۔ جو طلبا تعلیم میں دلچسپی نہیں لیں گے وہ ملنگ کہلائیں گے۔ طلبا کے مردانہ کلاس فیلوز ”پیر بھائی“ بن جائیں گے اور زنانہ کلاس فیلوز کو ”امتحانِ نفسانی“ قرار دیں گے۔ طالبات واقعی امتحان نفسانی بنتے ہوئے انہیں پیر بھائی کہیں گی۔ ناکام عاشق مجذوب بن جائیں گے اور سبز چوغہ پہن کر گلے میں منکوں کی مالائیں لٹکائے ڈنڈے بجاتے پھریں گے۔

ادارے کے ٹرپ مختلف جنگل بیابانوں میں جائیں گے اور وہاں چلے کاٹیں گے۔ کینٹین پر ریفرشمنٹس کی بجائے نیاز ملا کرے گی۔ طلبا سالگرہ پر کیک کی بجائے ختم کے پھل کاٹ کر کھایا کریں گے۔ تعلیمی اداروں سے ہیروئن، آئیس، کوکین اور دیگر مضر صحت منشیات کا خاتمہ ہو جائے گا اور ان کی جگہ درباروں پر دستیاب روایتی تفریحات دستیاب ہوں گی۔

جب طالب علم ان تعلیمی اداروں سے فارغ ہوں گے تو انہیں ہاتھ میں ڈگری پکڑانے کی بجائے روزگار کے تعویذ لکھ کر گلے میں پہنائے جائیں گے۔ اور ہاں، اگلی مرتبہ جب بھارتی طیاروں نے بمباری کی تو پینسٹھ کی جنگ کی طرح بے شمار سبز پوش طلبا ان بموں کو فضا میں کیچ کر کے دریا میں ٹھنڈا کر دیں گے۔

خوب است۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تصوف کے خلاف تو نہیں ہوں لیکن وہ خرافات جو نادانی اور لاعلمی کی وجہ سے تصوف سے جڑ گئیں (جس میں سارا ہاتھ ہماری عوام اور انکے چڑھاووں پر جینے والے گدی نشیوں کا ہے) سخت ناپسندیدہ ہیں۔
 
آخری تدوین:

ابن جمال

محفلین
جب سکولوں میں تصوف پڑھائیں گے تو ٹیچر مرشد کہلائے گا یا پیر؟
30/01/2020 عدنان خان کاکڑ
وطن عزیز میں انتہا پسندی اور عدم برداشت بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ جنرل مشرف کے زمانے میں امریکی ماہرین نے بتایا تھا کہ مذہبی انتہا پسندی کا یہ علاج ہے کہ صوفیت کو فروغ دیا جائے۔ جنرل مشرف کی بدقسمتی کہ ان کے سر پر کوئی پیر نہیں تھا اس لئے وہ اس پراجیکٹ میں ناکام رہے مگر اب وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف یہ کہ ایک نجی روحانی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا ہے بلکہ تعلیمی اداروں میں صوفیت کی تعلیم دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

یہ ایک بہت اچھا منصوبہ ہے۔ سکولوں کالجوں کے طلبا میں انتہا پسندی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ بلکہ ہم نے تو سنا ہے کہ ان طلبا نے طالبان نامی کوئی شدت پسند تنظیم بھی بنا رکھی ہے جو لڑتی پھٹتی پھرتی ہے۔ اب تعلیمی اداروں میں صوفیت آنے کے بعد طلبا بم بارود کی بجائے دم درود کی طرف مائل ہوں گے۔ ہمارے ہاں ابن عربی، رومی اور جنید بغدادی کا تصوف تو دستیاب نہیں ہے۔ مزاروں درگاہوں پر جو دستیاب ہے، وہی تعلیمی اداروں میں آئے گا۔

اس کے بعد سب سے بڑی تبدیلی تو تعلیمی ادارے کے ماحول اور کلچر میں آئے گی۔ اب طلبا انگریزوں کی نقالی میں اساتذہ کو سر سر اور میڈم میڈم کہتے پھرتے ہیں۔ صوفیت آنے کے بعد اساتذہ کو مرشد اور پیر سائیں کہنے کا رواج ہو گا اور استانیاں پیرنیاں کہلائیں گی۔

طالبات اس قسم کے مکالمے بولتی سنائی دیں گی ”ثنا تم نے ریاضی کی پیرنی کو دیکھا؟ آج پنک شفون کے سوٹ اور ہرے کامدار دوپٹے میں کتنی اللہ والی لگ رہی تھیں؟ اردو کی پیرنی کی طبیعت تو آج بہت جلالی ہوئی تھی، جس پر نگاہ ڈالتی تھیں جلا کر خاک کر دیتی تھیں۔ سوشیالوجی کی پیرنی تو آج غصے میں بھنائی ہوئی حجرہ جماعت میں دھمال ڈالتی پھر رہی تھیں“۔

طلبا بھی کچھ ایسی فکر میں ہی مبتلا ہوں گے۔ ”مرشد میرا ہوم ورک چیک کر لیجیے“۔ ”مرشد میں پچھلا ہفتہ اس لئے غیر حاضر تھا کہ ایک قبرستان میں چلہ کاٹ رہا تھا“۔ ”مرشد جن کو قابو کرنے کو وظیفہ الٹا پڑ گیا، جن نے میرا سارا ہوم ورک جلا دیا“۔ کوئی مظلوم اپنے امتحان کے نمبر دیکھ کر دلگرفتہ ہو کر کہے گا ”مرشد محبتوں کے نتائج کہاں گئے، مرشد مری تو زندگی برباد ہو گئی“۔ حجرہ جماعت کے ایک گوشے سے سزا یافتگان کی صدا بلند ہو گی ”مرشد! میں جل رہا ہوں، سزائیں نہ دیجیے، مرشد! ازالہ کیجے، مرغا نہ بنائیے“۔

داخلے کے وقت طالب علم ”بیعت فارم“ بھر کر چندے کے بکسے میں نذرانہ جمع کروائے گا۔ داخلہ ہوتے ہی ادارہ طالب علم کو ”مرید کارڈ“ جاری کرے گا جسے دکھا کر وہ ادارے کی سہولیات سے فیضیاب ہو سکے گا۔ جماعت کے مرشد کے سب سے چہیتے طالب علم کو مانیٹر کی بجائے خلیفہ کہہ کر پکارا جائے گا۔ جو طلبا تعلیم میں دلچسپی نہیں لیں گے وہ ملنگ کہلائیں گے۔ طلبا کے مردانہ کلاس فیلوز ”پیر بھائی“ بن جائیں گے اور زنانہ کلاس فیلوز کو ”امتحانِ نفسانی“ قرار دیں گے۔ طالبات واقعی امتحان نفسانی بنتے ہوئے انہیں پیر بھائی کہیں گی۔ ناکام عاشق مجذوب بن جائیں گے اور سبز چوغہ پہن کر گلے میں منکوں کی مالائیں لٹکائے ڈنڈے بجاتے پھریں گے۔

ادارے کے ٹرپ مختلف جنگل بیابانوں میں جائیں گے اور وہاں چلے کاٹیں گے۔ کینٹین پر ریفرشمنٹس کی بجائے نیاز ملا کرے گی۔ طلبا سالگرہ پر کیک کی بجائے ختم کے پھل کاٹ کر کھایا کریں گے۔ تعلیمی اداروں سے ہیروئن، آئیس، کوکین اور دیگر مضر صحت منشیات کا خاتمہ ہو جائے گا اور ان کی جگہ درباروں پر دستیاب روایتی تفریحات دستیاب ہوں گی۔

جب طالب علم ان تعلیمی اداروں سے فارغ ہوں گے تو انہیں ہاتھ میں ڈگری پکڑانے کی بجائے روزگار کے تعویذ لکھ کر گلے میں پہنائے جائیں گے۔ اور ہاں، اگلی مرتبہ جب بھارتی طیاروں نے بمباری کی تو پینسٹھ کی جنگ کی طرح بے شمار سبز پوش طلبا ان بموں کو فضا میں کیچ کر کے دریا میں ٹھنڈا کر دیں گے۔
کیا اسکولوں میں سائنس پڑھانے والے ٹیچر کو سائنسداں کہاجاتاہے؟اگرنہیں تو آپ کے سارے سوالوں کے جواب اسی ایک نہیں میں چھپے ہوئے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
روحانی یونیورسٹی بنانا تو عجیب ہی خیال ہے تاہم اگر ایسا کوئی ادارہ بن بھی گیا تو وہاں بھی اولیائے کرام کے شجرہ ہائے نسب اور کرامتوں وغیرہ کے تذکرے کے علاوہ شاید ہی کوئی ڈھنگ کا کام ہو سکے گا۔ خیر تو یہ تو ایک طنزیہ آرٹیکل ہے؛ ویسے تصوف محض تعویذوں، چلوں، اور دھمالوں کا نام نہیں ہے۔یہ تاثر غلط ہے۔
 

ابن جمال

محفلین
ویسے تصوف محض تعویذوں، چلوں، اور دھمالوں کا نام نہیں ہے۔یہ تاثر غلط ہے۔
نفی نفی اثبات ہوجاتاہے اوریہاں بھی یہی صورت حال پیداہوگئی ہے، ویسے ظن غالب یہی ہے کہ فرقان احمد صاحب کی نیت یہ رہی ہوگی کہ تصوف کو تعویذ چلہ اوردھمال سمجھنے کا تاثر غلط ہے۔
 

ابن جمال

محفلین
روحانی یونیورسٹی میں تو خیر بیکار کی بات ہے لیکن اسکولوں میں تصوف پڑھایاجاسکتاہے تصوف کا مقصد تہذیب اخلاق ہے یعنی اچھے اخلاق سے متصف ہونا اور برے اخلاق سے نجات پایا،یہ تصوف کا مرکز ہے،اور اخلاق پر تصوف سے زیادہ کسی فن میں نہیں لکھاگیاہے اورنہ اخلاق کی باریکیوں کو سمجھاگیا ہے لہذا اگرتصوف کا اخلاقی شعبہ اسکولوں میں پڑھایاجائے تویہ ایک مثبت قدم ہوگا۔
 
Top