محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
جب سے باندھا ہے تصور اس رُخِ پُر نور کا
سارے گھر میں نور پھیلا ہے چراغِ طور کا
بخت واژوں سے جلے کیوں دل نہ مجھ محرور کا
مرہمِ کافور سے منہ آ گیا ناسور کا
اس قدر مشتاق ہوں زاہد خدا کے نور کا
بت بھی بنوایا کبھی میں نے تو سنگِ طور کا
تجھ کو لائے گھر میں جنت کو جلایا رشک سے
ہم بغل تجھ سے ہوئے پہلو دبایا حور کا
گورِ کافر کس لیے ہے تیرہ و تار اس قدر
پڑ گیا سایہ مگر میری شبِ دیجور کا
حُسنِ یوسف اور تیرے حُسن میں اتنا ہے فرق
چوٹ یہ نزدیک کی ہے وار تھا وہ دور کا
قصر تن بگڑا کسی کا گورکن کی بن پڑی
گھر کسی کا گر پڑا گھر بن گیا مزدور کا
چہرۂ جاناں سے شرما کر چھپایا خُلد میں
خامۂ تقدیر نے کھینچا جو نقشہ حور کا
حاجتِ مشاطہ کیا رخسار روشن کے لیے
دیکھ لو گل کاٹتا ہے کون شمعِ طور کا
زلف و روئے یار سے نیرنگِ قدرت ہے عیاں
مہر کے پنجے میں ہے دامن شبِ دیجور کا
خاکساری کر جو ہو منظور آنکھوں میں جگہ
خاک ہو کر سرمہ بن جاتا ہے پتھر طور کا
غافلوں کے کان کب کھلتے ہیں سن کر شورِ حشر
سونے والوں کو جگا سکتا نہیں غل دور کا
پوچھ لینا سب وطن کا حال اے اہلِ عدم
بیٹھ لینے دو ذرا آتا ہوں اٹھا دور کا
عجز کرتے ہیں عدوئے جاں سے بھی خاصانِ حق
جھک گیا سر آکے پائے دار پر منصور کا
موت کیا آئی تپِ فرقت سے صحت ہو گئی
دم نکلنے سے بدن ٹھنڈا ہوا رنجور کا
موذیوں کو حادثوں سے دہر کے کیا خوف ہے
بارشِ باراں سے گھر گرتا نہیں زنبور کا
چشمِ ساغر بے سبب ہر دم لہو روتی نہیں
مغبچوں سے ساقیا دل پھٹ گیا انگور کا
جاتے ہیں مے خانۂ عالم سے ہم سوئے عدم
کہہ دو ازخود رفتگی سے ہے ارادہ دور کا
کی نظر جس پر کدورت سے رہا خاموش وہ
ہے اثر گرد نگاہ یار میں سیندور کا
جلوۂ معشوق ہر جا ہے بصیرت ہو اگر
کرمک شب تاب میں عالم ہے شمع طور کا
مر کے یاران عدم کے پاس پہنچوں گا امیر
چلتے چلتے جان جائے گی سفر ہے دور کا
امیرمینائی
سارے گھر میں نور پھیلا ہے چراغِ طور کا
بخت واژوں سے جلے کیوں دل نہ مجھ محرور کا
مرہمِ کافور سے منہ آ گیا ناسور کا
اس قدر مشتاق ہوں زاہد خدا کے نور کا
بت بھی بنوایا کبھی میں نے تو سنگِ طور کا
تجھ کو لائے گھر میں جنت کو جلایا رشک سے
ہم بغل تجھ سے ہوئے پہلو دبایا حور کا
گورِ کافر کس لیے ہے تیرہ و تار اس قدر
پڑ گیا سایہ مگر میری شبِ دیجور کا
حُسنِ یوسف اور تیرے حُسن میں اتنا ہے فرق
چوٹ یہ نزدیک کی ہے وار تھا وہ دور کا
قصر تن بگڑا کسی کا گورکن کی بن پڑی
گھر کسی کا گر پڑا گھر بن گیا مزدور کا
چہرۂ جاناں سے شرما کر چھپایا خُلد میں
خامۂ تقدیر نے کھینچا جو نقشہ حور کا
حاجتِ مشاطہ کیا رخسار روشن کے لیے
دیکھ لو گل کاٹتا ہے کون شمعِ طور کا
زلف و روئے یار سے نیرنگِ قدرت ہے عیاں
مہر کے پنجے میں ہے دامن شبِ دیجور کا
خاکساری کر جو ہو منظور آنکھوں میں جگہ
خاک ہو کر سرمہ بن جاتا ہے پتھر طور کا
غافلوں کے کان کب کھلتے ہیں سن کر شورِ حشر
سونے والوں کو جگا سکتا نہیں غل دور کا
پوچھ لینا سب وطن کا حال اے اہلِ عدم
بیٹھ لینے دو ذرا آتا ہوں اٹھا دور کا
عجز کرتے ہیں عدوئے جاں سے بھی خاصانِ حق
جھک گیا سر آکے پائے دار پر منصور کا
موت کیا آئی تپِ فرقت سے صحت ہو گئی
دم نکلنے سے بدن ٹھنڈا ہوا رنجور کا
موذیوں کو حادثوں سے دہر کے کیا خوف ہے
بارشِ باراں سے گھر گرتا نہیں زنبور کا
چشمِ ساغر بے سبب ہر دم لہو روتی نہیں
مغبچوں سے ساقیا دل پھٹ گیا انگور کا
جاتے ہیں مے خانۂ عالم سے ہم سوئے عدم
کہہ دو ازخود رفتگی سے ہے ارادہ دور کا
کی نظر جس پر کدورت سے رہا خاموش وہ
ہے اثر گرد نگاہ یار میں سیندور کا
جلوۂ معشوق ہر جا ہے بصیرت ہو اگر
کرمک شب تاب میں عالم ہے شمع طور کا
مر کے یاران عدم کے پاس پہنچوں گا امیر
چلتے چلتے جان جائے گی سفر ہے دور کا
امیرمینائی
مدیر کی آخری تدوین: