قمراحمد
محفلین
جب قرآن و سنت موجود ہے تو آئین کی کیا ضرورت ہے،صوفی محمد
تصویراتروانامنع،سب پاکستانی قوانین غیراسلامی،لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنےپر پابندی
تصویراتروانامنع،سب پاکستانی قوانین غیراسلامی،لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنےپر پابندی
کراچی (روزنامہ جنگ) تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد نے کہا کہ پاکستان میں مختلف عسکریت پسندوں کے گروپوں نے جو طریقہ کار اپنا رکھا ہے وہ صحیح نہیں ،یہ شرعی طریقہ کار نہیں،جب قرآن و سنت موجود ہے تو آئین کی کیا ضرورت ہے،انہوں نے جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ علمائے کرام کو زیب نہیں دیتا کہ وہ فرعونیت والی جمہوریت کے نظام میں سیاست کریں، عالم کو صرف شرعی اور عادلانہ سیاست کرنی چاہئے ، سیاست کا راستہ صرف شریعت کے نفاذ کے لئے صدق دل سے کوشش کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ چونکہ شریعت میں تصویر اتروانا منع ہے، اس لئے میں تصویر نہیں اترواتا۔ شریعت کے نفاذ کے لئے طریقہ کار کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ بہت سارے لوگوں نے شریعت کے نفاذ کے لئے کام کیا ہے میں بھی شریعت کے نفاذ کے لئے کام کررہا ہوں، اگر شریعت نافذ نہ بھی ہوئی تو میں معاف کیا جاؤں گا اور معافی کا راستہ بھی یہی ہے۔ افغانستان میں جہاد پر جانے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ چونکہ کابل میں شریعت قائم تھی اس لئے اس کے دفاع کے لئے ہم گئے تھے۔ جب تک شریعت نافذ نہ ہو تلوار نہیں اٹھا سکتے۔
سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے دوران کشمکش میں جو لوگ مارے گئے، ان کے بارے میں صوفی محمد کا کہنا تھا کہ میں اس کا مخالف تھا ان لوگوں نے مجھے بتائے بغیر یہ کام کیا تھا اور جب مجھے پتا چلا کہ میرے لوگ یہ کام کررہے ہیں تو میں فوج کے ساتھ گیا اور ان لوگوں کو منع کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں 19سال سے امن، صبر اور استقامت کی دعوت دے رہا ہوں لیکن آج تک کسی کا ٹماٹر تک ضائع نہیں کیا اور آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں۔انہوں نے کہا کہ طالبان کی حکومت میں کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوگی مگر امریکیوں نے افغانستان پر اسلام دشمنی کی وجہ سے حملہ کیا اور ہم ملا عمر، یا اسامہ کے دفاع کے لئے نہیں بلکہ شریعت کے دفاع کے لئے افغانستان گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہم مالاکنڈ میں شریعت نافذ کر کے اس کا عملی نمونہ دکھانا چاہتے ہیں اور اس کی بنیاد پر باقی پاکستان کے لوگوں کو ساتھ ملائیں گے۔ جب تک ہم ماڈل نہیں دکھائیں گے تو کس بنیاد پر دنیا کو ساتھ ملائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ مالا کنڈ کے تمام 8 اضلاع میں عدالتوں سے جج کا بورڈ ہٹا کر قاضی کا بورڈ لگادیا گیا ہے باقی ملک میں ایسا نہیں ہے۔
سارے قوانین غیر اسلامی ہیں ، بہت سارے غیر اسلامی ٹیکس پورے ملک میں وصول کئے جاتے ہیں لیکن مالاکنڈ ڈویڑن میں وہ نافذ نہیں۔ قاضی کے بورڈ لگا کر ہم نے شریعت کی بنیاد رکھ دی ہے اور اب اس پر تعمیر کی ضرورت ہے۔ قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمن اور اسی طرح دیگر سیاسی مذہبی جماعتوں کے رہنما جمہوریت میں شریعت ڈھونڈ رہے ہیں اور جمہوریت شریعت کی ضد ہے اس لئے میں ان رہنماؤں کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے کا قائل نہیں ہوں میں سمجھتا ہوں کہ ان کا ساتھ دینا فضول کام ہے، جمہوریت اور شریعت میں زمین و آسمان کا جتنا فرق ہے کیونکہ اسلامی نظام میں شوریٰ میں علمائے کرام، بالغان اور آزاد لوگ شامل ہوتے ہیں جبکہ جمہوری نظام میں مرد، عورت، ہر مسلم اور غیر مسلم کو برابر سمجھا جاتا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے پشتو زبان میں ایک کتاب لکھی ہے اس میں ان سب سوالوں کے جواب موجود ہیں جو مجھ سے کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کفر ہے اسے کفار نے ایجاد کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ قرآن اور حدیث پر عمل ہونا چاہئے، ہمیں اجتہاد صرف محدود انداز میں کرنا ہے جہاد کے حوالے سے صورتحال میں تبدیلی کے مطابق طریقہ کار کی بابت اجتہاد کیا جا سکتا ہے، اجتہاد کے ذریعہ کوئی نیا نظام نہیں متعارف کرایا جا سکتا بلکہ اسلام کے نظام کے اندر اجتہاد کے ذریعے طریقہ کار میں حالات کے مطابق ردوبدل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شریعت کے تحت ہم پر لازم آتا ہے کہ ہم کفر کے نظام کا بائیکاٹ کریں اور باطل کے لئے قوت کا استعمال کریں ، باطل کا بائیکاٹ اور منکر کی تردید کرنے کا راستہ ہماری جدوجہد کا بنیادی اصول ہے یہ اصول شریعت کے نفاذ کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پوری سوسائٹی میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے ضروری ہے کہ معیشت اور معاشرت کی اصلاح عدالت کے ذریعے ہو ، قاضی عدالتوں کے ذریعے شریعت کے مطابق لوگوں کے مابین تنازعات کا فیصلہ ہوگا، عدالت شرعی نہ ہو تو شریعت نافذ ہی نہیں ہوسکتی عدالتوں کے ذریعے شریعت کے نفاذ سے معاشرت کی اصلاح ہوگی۔ معیشت اور معاشرت اسلام کے مطابق نہ ہوں تو وہ گناہ میں شمار ہوتے ہیں کفر میں شمار نہیں ہوتے گناہ کی معافی استغفار کے ذریعے ہوسکتی ہے عدالت شریعت کے مطابق نہ ہو تو یہ کفر ہے کفر کی کوئی معافی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ افغانستان تو گیا لیکن کشمیر نہیں گیا کیونکہ کشمیری عوام کی جدوجہد شریعت کے نفاذ کے لئے نہیں ہے اس لئے کشمیری عوام کے ساتھ جہاد کرنا فرض عین کا درجہ نہیں رکھتا وہ اپنے لئے آزاد وطن کی جدوجہد کر رہے ہیں شریعت کا کہیں ذکر نہیں ہے سیاست دو طرح کی ہوتی ہے ایک شرعی سیاست اور دوسرا ظالمانہ اور غیر شرعی سیاست ، پاکستان بس جمہوریت غیر شرعی ہے پاکستانی سیاستدانوں سے شریعت کے نفاذ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ جماعت اسلامی کے ساتھ مدرسے کے تنازع کا 5 سال پہلے ہوا تھا جبکہ ہماری تحریک 19 سال سے قائم ہے۔ انہوں نے اپنی رہائی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی ڈیل کی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ تحریک نفاذ شریعت محمدی بحال ہے اور چل رہی ہے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہود و نصاریٰ ممالک گمراہ ہیں اور ان سے دوستی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ایک سوال کہ شریعت کے نفاذ کے بعد داڑھی بزو رکھوائی جائے گی یا تلقین کی جائے گی کہ جواب انہوں نے کہا کہ شریعت کی رو سے جو حدود ہیں انہیں طاقت کے ذریعے نافذ کیا جائے گا اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو زبانی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا میں دارالاسلام کہیں نہیں ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اگر شریعت موجود ہو تو لڑکیوں کی تعلیم کی اجازت نہیں ہے۔تاہم اگر پردے میں ہو تو تعلیم کے لئے باہر جاسکتی ہے۔ حج کے علاوہ عورت کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔