جاسم محمد
محفلین
آج کل ملکی معیشت پر زور وشور سے بحث جاری ہے۔ اپوزیشن تو ایک طرف ، سیاسی تجزیہ نگار اور ٹی وی اینکرز بھی اقتصادیات کے ماہرین بنے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں ضروری ہے کہ عوام تک اصل حقائق پہنچائیں جائیں۔
کسی بھی اُبھرتی ہوئی معیشت میں برآمداد ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ پچھلے 30، 40 سالوں میں قومی معیشت کے اس اہم ترین سیکٹر کو مسلسل اگنور کیا گیا ہے۔ صنعتی پیداوار اور برآمداد بڑھانےکی بجائے ہر آنے والی حکومت نے درآمداد پر ملکی معیشت کو اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ جو کہ اقتصادیات کے زریں اصولوں کے عین خلاف ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کو بہتری کی بجائے مزید بدحالی کی طرف لیتی چلی گئی۔
مثال کے طور پر مشرقی پاکستان نے آزادی کے بعد درآمداد پر مبنی معیشت کی بجائے مقامی صنعتیں اور برآمداد بڑھانے کی طرف توجہ دی ۔ جس کا دیر است نتیجہ یہ نکلا کہ آج پورے برصغیر میں سب سے زیادہ شرح نمود بنگلہ دیش کی ہے:
آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں بنگلہ دیش کی شرح برآمداد مثبت رہی ہے ، جس کا مطلب ان کی بر آمداد مسلسل بڑھ رہی ہیں:
دوسری جانب پاکستان میں اسی عرصہ میں شرح برآمداد منفی رہی ہے، یعنی برآمداد بڑھنے کی بجائے پہلے سے بھی کم ہو گئی ہیں:
اوپر سرکاری اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ پچھلے 5 سالوں میں پاکستان کی برآمداد میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود شرح نمود 5 فیصد سے اوپر رہی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ تو اس کا جواب ذیل کے چارٹس میں موجود ہے:
یعنی پچھلی حکومت نے یہ شرح نمود ملک و قوم پر بیرونی قرضے چڑھا کر اور درآمداد غیرمعمولی طور پر بڑھا کر حاصل کی ہے۔
نئی حکومت نے آتے ساتھ ہی جب اس مسلسل بڑھتے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کی روک تھام کیلئے درآمداد میں کمی شروع کی تو اس سے ملکی معیشت کی شرح نمود براہ راست متاثر ہوئی ہے ۔ چونکہ ملک میں معاشی ترقی برآمداد کی بجائے درآمداد پر استوار کی گئی تھی۔ یوں اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر گرتے ساتھ ہی ہر طرف مہنگائی کاطوفان آیا کھڑا ہے۔
اگر نئی حکومت چاہتی تو پچھلی حکومت کی پالیسیوں پر چلتے ہوئے مزید بیرونی قرضے لے کر سابقہ شرح نمود جاری رکھ سکتی تھی۔ جس سے نہ روپے کی قدر گرتی اور نہ مزید مہنگائی ہوتی۔ مگر پھر 5 سال بعد بیرونی قرضہ ڈبل ہوجاتا۔ اور آئندہ آنے والی حکومتیں اس سے کہیں زیادہ معاشی مسائل کا شکار ہوتیں جن سے آج تحریک انصاف حکومت گزر رہی ہے۔
اس مستقل اقتصادی بحران سے نکلنے کیلئے نئی حکومت دو کام کر سکتی ہے:
یہ تمام حقائق جاننے کے بعد آپ یقینا سوچ رہے ہیں کہ اس میں معاشی ہٹ مین کو ہے؟ تو جناب اس کا جواب ہے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب۔ جنہوں نے روپے کی قدر مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کے چکر میں ملکی برآمداد کا ستیاناس کر دیا۔ اور یوں اپنے دور حکومت کے اختتام تک ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا۔ اسحاق ڈار کی ناکام معاشی پالیسیوں پردنیا ئے اقتصادیات کے چوٹی کے ماہر ڈاکٹر عاطف میاں کا پوسٹ مارٹم ملاحظہ فرمائیں:
کل ایک انٹرویو میں اسحاق ڈارفرماتے ہیں کہ نئی حکومت ان کو 'کنٹریکٹ' پر رکھ لے۔ یوں وہ ڈالر کی قیمت 120 روپے تک لیں آئیں گے۔ یعنی اب بیماری کا علاج بھی اسی حکیم سے کرائیں جن کی دوا سے معیشت بیمار ہوئی تھی
خیر اب جو ملک و قوم کا نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا۔ پاکستانیوں کو چاہئے کہ اب آگے کا سوچیں۔ کیا انہیں ماضی کی طرح مہنگائی اور معاشی مندی سے فوری ریلیف چاہئے؟ یا وہ بنگلہ دیش کی طرح ایک مضبوط صنعتی اور برآمداد میں مسلسل ترقی کرنے والا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اس کا فیصلہ قوم ، سیاسی اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ پر چھوڑتے ہیں۔
کسی بھی اُبھرتی ہوئی معیشت میں برآمداد ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ پچھلے 30، 40 سالوں میں قومی معیشت کے اس اہم ترین سیکٹر کو مسلسل اگنور کیا گیا ہے۔ صنعتی پیداوار اور برآمداد بڑھانےکی بجائے ہر آنے والی حکومت نے درآمداد پر ملکی معیشت کو اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ جو کہ اقتصادیات کے زریں اصولوں کے عین خلاف ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کو بہتری کی بجائے مزید بدحالی کی طرف لیتی چلی گئی۔
مثال کے طور پر مشرقی پاکستان نے آزادی کے بعد درآمداد پر مبنی معیشت کی بجائے مقامی صنعتیں اور برآمداد بڑھانے کی طرف توجہ دی ۔ جس کا دیر است نتیجہ یہ نکلا کہ آج پورے برصغیر میں سب سے زیادہ شرح نمود بنگلہ دیش کی ہے:
آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں بنگلہ دیش کی شرح برآمداد مثبت رہی ہے ، جس کا مطلب ان کی بر آمداد مسلسل بڑھ رہی ہیں:
دوسری جانب پاکستان میں اسی عرصہ میں شرح برآمداد منفی رہی ہے، یعنی برآمداد بڑھنے کی بجائے پہلے سے بھی کم ہو گئی ہیں:
اوپر سرکاری اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ پچھلے 5 سالوں میں پاکستان کی برآمداد میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود شرح نمود 5 فیصد سے اوپر رہی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ تو اس کا جواب ذیل کے چارٹس میں موجود ہے:
یعنی پچھلی حکومت نے یہ شرح نمود ملک و قوم پر بیرونی قرضے چڑھا کر اور درآمداد غیرمعمولی طور پر بڑھا کر حاصل کی ہے۔
نئی حکومت نے آتے ساتھ ہی جب اس مسلسل بڑھتے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کی روک تھام کیلئے درآمداد میں کمی شروع کی تو اس سے ملکی معیشت کی شرح نمود براہ راست متاثر ہوئی ہے ۔ چونکہ ملک میں معاشی ترقی برآمداد کی بجائے درآمداد پر استوار کی گئی تھی۔ یوں اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر گرتے ساتھ ہی ہر طرف مہنگائی کاطوفان آیا کھڑا ہے۔
اگر نئی حکومت چاہتی تو پچھلی حکومت کی پالیسیوں پر چلتے ہوئے مزید بیرونی قرضے لے کر سابقہ شرح نمود جاری رکھ سکتی تھی۔ جس سے نہ روپے کی قدر گرتی اور نہ مزید مہنگائی ہوتی۔ مگر پھر 5 سال بعد بیرونی قرضہ ڈبل ہوجاتا۔ اور آئندہ آنے والی حکومتیں اس سے کہیں زیادہ معاشی مسائل کا شکار ہوتیں جن سے آج تحریک انصاف حکومت گزر رہی ہے۔
اس مستقل اقتصادی بحران سے نکلنے کیلئے نئی حکومت دو کام کر سکتی ہے:
- پچھلی حکومتوں کی طرح آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے ڈھیر سارے مزید قرضے چڑھالے۔ جس سے وقتی (5 سال) کیلئے عوام کو مہنگائی سے ریلیف مل جائے گا
یا - کچھ سال لگاتار عوام کی گالیاں اور احتجاج برداشت کرے۔ محنت کے ساتھ مستقل بنیادوں پر ملک کا اقتصادی و معاشی ڈھانچہ اتنا مضبوط کر دے کہ آئندہ بیرونی قرضوں کے چنگل سے ملک ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آزاد ہو جائے۔ اور یوں مسلسل درآمداد پر انحصار کی بجائے برآمداد کرنے والا ملک بن کر ابھرے۔
یہ تمام حقائق جاننے کے بعد آپ یقینا سوچ رہے ہیں کہ اس میں معاشی ہٹ مین کو ہے؟ تو جناب اس کا جواب ہے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب۔ جنہوں نے روپے کی قدر مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کے چکر میں ملکی برآمداد کا ستیاناس کر دیا۔ اور یوں اپنے دور حکومت کے اختتام تک ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا۔ اسحاق ڈار کی ناکام معاشی پالیسیوں پردنیا ئے اقتصادیات کے چوٹی کے ماہر ڈاکٹر عاطف میاں کا پوسٹ مارٹم ملاحظہ فرمائیں:
کل ایک انٹرویو میں اسحاق ڈارفرماتے ہیں کہ نئی حکومت ان کو 'کنٹریکٹ' پر رکھ لے۔ یوں وہ ڈالر کی قیمت 120 روپے تک لیں آئیں گے۔ یعنی اب بیماری کا علاج بھی اسی حکیم سے کرائیں جن کی دوا سے معیشت بیمار ہوئی تھی
خیر اب جو ملک و قوم کا نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا۔ پاکستانیوں کو چاہئے کہ اب آگے کا سوچیں۔ کیا انہیں ماضی کی طرح مہنگائی اور معاشی مندی سے فوری ریلیف چاہئے؟ یا وہ بنگلہ دیش کی طرح ایک مضبوط صنعتی اور برآمداد میں مسلسل ترقی کرنے والا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اس کا فیصلہ قوم ، سیاسی اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ پر چھوڑتے ہیں۔