جب پیار کسی سے کرتے ہو

الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
سید عاطف علی
-----------
فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن
جب پیار کسی سے کرتے ہو
پھر دنیا سے کیون ڈرتے ہو
-----------
جب عشق تمہیں ہے دنیا سے
کیوں رب کی باتیں کرتے ہو
-----
جو جرم تمہارا اپنا ہے
الزام کسی پر دھرتے ہو
---------
انجام ہے جن کا رسوائی
تم ایسے کام ہی کرتے ہو
---------
رب نے دی تم کو ہمّت
کیوں ظالم سے پھر ڈرتے ہو
------
پہلے تو اسے ناراض کیا
اب ہجر میں آہیں بھرتے ہو
-------
دل جس کا پٹھر جیسا ہے
تم اس ظالم پر مرتے ہو
---------
ہے ارشد جس سے پیار تمہیں
پھر اس کو خفا کیوں کرتے ہو
--------
 
جب پیار کسی سے کرتے ہو
پھر دنیا سے کیوں ڈرتے ہو
جب عشق تمہیں ہے دنیا سے ہے تم کو ہوس تودنیا کی
کیوں رب کی باتیں کرتے ہوکہنے کورب رب کرتے ہو
جو جرم تمہارا اپنا ہے
الزام کسی پر دھرتے ہووہ غیر پہ کیوں تم دھرتے ہو
انجام ہے جن کا رسوائی
تم ایسے کام ہی کرتے ہوتم کام خود ایسے کرتے ہو
ہمت جس رب نے دی ہے تم کو
کیوں ظالم سے پھر ڈرتے ہو
پہلے تو اسے ناراض کیاپہلے تو کیا ناراض اُسے
اب ہجر میں آہیں بھرتے ہواب ہاتھ بھلا کیوں۔ ملتے ہو
پتھر کی طرح ہو دل جس کاپتھر کی طرح ہے دل جس کا
تم اس ظالم پر مرتے ہوبیکار میں اُس پر مرتے ہو
ہے ارشد جس سے پیار تمہیں ہے ارشؔد پیار تمھیں اُس سے
پھر اُس کو خفا کیوں کرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
۔۔۔
غزل
جب پیار کسی سے کرتے ہو
پھردنیا سے کیوں ڈرتے ہو
ہے تم کو ہوس تو دنیاکی
بس یونہی رب رب کرتے ہو
ہے جُرم تمھارا تو ہم پر
الزام کیوں اِس کا دھرتے ہو
انجام ہے جس کا رُسوائی
خود کام تم ایسے کرتے ہو
پہلے تو کیا ناراض اُسے
اب ہاتھ بھلا کیوں ملتے ہو
پتھر کی طرح ہے دل جس کا
تم ہوکہ اُسی پر مرتے ہو
جب پیار ہے اَرشؔد اُس سے تمھیں
کیوں اُس کو خفا تم کرتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

جب پیار کسی سے کرتے ہو
پھر دنیا سے کیون ڈرتے ہو
جب عشق تمہیں ہے دنیا سے
کیوں رب کی باتیں کرتے ہو
جو جرم تمہارا اپنا ہے
الزام کسی پر دھرتے ہو
انجام ہے جن کا رسوائی
تم ایسے کام ہی کرتے ہو
رب نے دی تم کو ہمّت
کیوں ظالم سے پھر ڈرتے ہو
پہلے تو اسے ناراض کیا
اب ہجر میں آہیں بھرتے ہو
دل جس کا پٹھر جیسا ہے
تم اس ظالم پر مرتے ہو
ہے ارشد جس سے پیار تمہیں
پھر اس کو خفا کیوں کرتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
غزل
جب پیار کسی سے کرتے ہو
پھردنیا سے کیوں ڈرتے ہو
ہے تم کو ہوس تو دنیاکی
بس یونہی رب رب کرتے ہو
ہے جُرم تمھارا تو ہم پر
الزام کیوں اِس کا دھرتے ہو
انجام ہے جس کا رُسوائی
خود کام تم ایسے کرتے ہو
پہلے تو کیا ناراض اُسے
اب ہاتھ بھلا کیوں ملتے ہو
پتھر کی طرح ہے دل جس کا
تم ہوکہ اُسی پر مرتے ہو
جب پیار ہے اَرشؔد اُس سے تمھیں
کیوں اُس کو خفا تم کرتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہمت جس رب نے دی ہے تم کو
کیوں ظالم سے پھر ڈرتے ہو
اس شعر کو چھوڑ گئے بھائی شکیل احمد خان23
اس کو چھوڑ دینا ہی اچھا ہے، لیکن وجہ بتا کر.۔
پہلا مصرع بحر سےخارج، تم کو کی بجائے "تمہیں" لانے سے درست ہو سکتا ہے۔
لیکن دوسرے مصرعے کا ربط نہیں بنتا۔ جس رب نے ہمت دی ہے، اس رب کی بات تو کی ہی نہیں گئی؟
 
Top