شکیب جلالی جب چُھٹ گئے تھے ہاتھ سے پتوار، یاد ہے

جب چُھٹ گئے تھے ہاتھ سے پتوار، یاد ہے
ہر سُو کھڑی تھی پانی کی دیوار ، یاد ہے

پھر پھول توڑنے کو بڑھاتے ہو اپنا ہاتھ
وہ ڈالیوں میں سانپ کی پُھنکار، یاد ہے

وہ بے وفا کہ جس کو بھلانے کے واسطے
خود سے رہا ہوں برسرِپیکار، یاد ہے

اب کون ہے جو وقت کو زنجیر کر سکے
سایوں سے ڈھلتی دھوپ کی تکرار یاد ہے

چاہا نہیں کسی کو اسے چاہنے کے بعد
اپنی نکاہ کا مجھے معیار یاد ہے

باقی نہیں بَیَاض میں ہونٹوں کی سرخ چھاپ
لیکن مجھے یہ تحفہِ دلدار یاد ہے​
شکیب جلالی
 
Top