جب کبھی میں نے خُوشی چاہی ہے مُجھ کو غم ملا غزل نمبر 117 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
جب کبھی میں نے خُوشی چاہی ہے مُجھ کو غم ملا
آرزو تھی شادیانے کی مگر ماتم ملا

جو ملا، جیسا ملا، ہے شُکر مولیٰ کا، مگر
جِس قدر ہم چاہتے تھے اُس سے تھوڑا کم مِلا

میں اگر بیمار ہوتا ہوں شِفا دیتا ہے رب
زخم سے پہلے مُجھے تیار اِک مرہم ملا

کیا مری وقعت جو ساقی کی نہیں عزت کروں
شیخ صاحب کا بھی سر اِس راستے میں خم ملا

قِبلہ اپنا ایک ہی رکھتے تو پِھر کچھ بات تھی
نے عبادت کی ملی لذت نہ جام و جم ملا

عالمِ دنیا میں کتنا پُر مسرت دِن تھا وہ
جب حوا اماں سے باوا حضرتِ آدم ملا

قیس لیلیٰ، ہِیر رانجھا، داستانیں سب پڑھیں
عِشق کی دنیا میں اکثر ہِجر کا موسم ملا

عِشق میں کیا جانے لذت ہے کہ اِک عاشق کا دِل
پِھر نیا اِک درد سہنے کو یہ تازہ دم ملا

بے اجازت بے خودی میں بوسہ میں نے کیا لیا
یار مُجھ سے بے رُخی سے بے وجہ برہم ملا

وقت ایسا بھی ہے گُذرا دِل پہ یادِ یار میں
جب چراغِ آخرِ شب بھی مُجھے مدھم ملا

رِند
شارؔق میکدے میں شاد سب آتے نہیں
میکشوں میں ایک بادہ کش بچشمِ نم ملا
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
جب کبھی میں نے خُوشی چاہی ہے مُجھ کو غم ملا
آرزو تھی شادیانے کی مگر ماتم ملا
ردیف میں ہی تنافر کی کیفیت ہے
چاہی ہے میں بھی تنافر ہے
جب کبھی چاہی خوشی میں نے تو....
لیکن کوئی خاص بات نہیں شعر میں، قافیہ بندی ہے
جو ملا، جیسا ملا، ہے شُکر مولیٰ کا، مگر
جِس قدر ہم چاہتے تھے اُس سے تھوڑا کم مِلا
درست

میں اگر بیمار ہوتا ہوں شِفا دیتا ہے رب
زخم سے پہلے مُجھے تیار اِک مرہم ملا
درست

کیا مری وقعت جو ساقی کی نہیں عزت کروں
شیخ صاحب کا بھی سر اِس راستے میں خم ملا
کس راستے میں؟

قِبلہ اپنا ایک ہی رکھتے تو پِھر کچھ بات تھی
نے عبادت کی ملی لذت نہ جام و جم ملا
جام و جم یا جامِ جم؟
شعر کا مفہوم سمجھ میں نہیں آیا

عالمِ دنیا میں کتنا پُر مسرت دِن تھا وہ
جب حوا اماں سے باوا حضرتِ آدم ملا
حوّا کا تلفظ؟ و پر تشدید ہے

قیس لیلیٰ، ہِیر رانجھا، داستانیں سب پڑھیں
عِشق کی دنیا میں اکثر ہِجر کا موسم ملا
ٹھیک

عِشق میں کیا جانے لذت ہے کہ اِک عاشق کا دِل
پِھر نیا اِک درد سہنے کو یہ تازہ دم ملا
درست

بے اجازت بے خودی میں بوسہ میں نے کیا لیا
یار مُجھ سے بے رُخی سے بے وجہ برہم ملا
وجہ کا تلفظ غلط ہے، بے سبب درست ہو گا
وقت ایسا بھی ہے گُذرا دِل پہ یادِ یار میں
جب چراغِ آخرِ شب بھی مُجھے مدھم ملا
درست

رِند شارؔق میکدے میں شاد سب آتے نہیں
میکشوں میں ایک بادہ کش بچشمِ نم ملا
درست
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر کوشش کروں گا کہ آئندہ ایسی ردیف نہ کہوں جس میں تنافر کی کیفیت ہو۔۔
مطلع تبدیل کیا ہے۔
راس مجھ کو کب خُوشی ہے بس ہمیشہ غم ملا
آرزو تھی شادیانے کی مگر ماتم ملا

اصلاح کے بعد۔
کیا مری وقعت جو ساقی کی نہیں عزت کروں
شیخ صاحب کا بھی سر اِس میکدے میں خم ملا

شعر کا مفہوم سمجھ میں نہیں آیا
قِبلہ اپنا ایک ہی رکھتے تو پِھر کچھ بات تھی
نے عبادت کی ملی لذت نہ جام و جم ملا

سر اس شعر میں مندرجہ ذیل شعر کا مضموں باندھنے کی سعی کی ہے جو شاید پوری نہیں ہوسکی
گئے دونوں‌جہاں سے خدا کی قسم نہ اِدھر کےہوئے نہ اُدھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اِدھر کےہوئے نہ اُدھر کے رہے

جام و جم یا جامِ جم؟
سر جام و جم یا جامِ جم یہاں کیا بہتر ہوسکتا ہے آپ ہی رہنمائی فرمادیں پلیز۔۔
اصلاح کے بعد۔
عالمِ دنیا میں کتنا پُر مسرت دِن تھا وہ
جب حَوَّا اماں سے باوا حضرتِ آدم ملا

اصلاح کے بعد۔
بے اجازت بے خودی میں بوسہ میں نے کیا لیا
یار مُجھ سے بے رُخی سے بے سبب برہم ملا
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں میرا مصرع کیا برا تھا جو ایک اور مجہول مصرع کہہ دیا
جب کبھی چاہی خوشی میں نے تو....

کیا مری وقعت جو ساقی کی نہیں عزت کروں
شیخ صاحب کا بھی سر اِس میکدے میں خم ملا
.. اصلاح کہاں ہے اس میں؟ مجھے کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی

جامِ جم یا جامِ جمشید، ایرانی شاہ جمشید کے پاس ایک پیالہ تھا جس میں ساری دنیا نظر آتی تھی۔ جام و جم تو ظاہر ہے کہ بے معنی ہے
تمہارے شعر سے نہ خدا ہی ملا.... والے شعر کے معنی تو برآمد نہیں ہوتے

عالمِ دنیا میں کتنا پُر مسرت دِن تھا وہ
جب حَوَّا اماں سے باوا حضرتِ آدم ملا
اس شعر میں بھی کوئی اصلاح نہیں کی گئی!
 
Top