جتنا خبیر ہے وہ پروردِگار میرا---برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
-----------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
-----------
(اپنی ذات کے حوالے سے اجتماعی حالت بیان کرنے کی کوشش)
--------------
جتنا خبیر ہے وہ پروردِگار میرا
کیسے نہ جانتا ہو گا حالِ زار میرا
-----------------------
تیرے کرم سے یا رب پھر سے وہ لوٹ آئے
کرتا ہوں یاد ماضی تھا شاندار میرا
---------------
یا رب کسے بتاؤں سنتا نہیں ہے کوئی
تُو ہی تو بس جہاں میں ہے رازدار میرا
------------------
دنیا بنی ہے دشمن کوئی نہیں ہے اپنا
کوئی نہیں ہے ایسا ہو یارِ غار میرا
----------------
اپنے لئے جہاں میں یا رب ہے شرمساری
روٹھا ہے وقت مجھ سے تھا پُروقار میرا
-----------------
مقروض ہو گیا ہوں دنیا میں اب خدایا
سارا جہان پہلے تھا قرضدار میرا
-------------
اتنا بھی سوچ ارشد کردار تھا جو پہلے
ماضی کبھی نہیں تھا وہ داغدار میرا
------------------
 

عظیم

محفلین
جتنا خبیر ہے وہ پروردِگار میرا
کیسے نہ جانتا ہو گا حالِ زار میرا
----------------------- دوسرا مصرع؟ گا کی جگہ 'یہ' ہونا چاہیے

تیرے کرم سے یا رب پھر سے وہ لوٹ آئے
کرتا ہوں یاد ماضی تھا شاندار میرا
--------------- پہلے کا دوسرا ٹکڑا 'وہ پھر سے لوٹ آئے' بہتر لگتا ہے۔
دوسرے کا دوسرا ٹکڑا 'تھا' کی نشست کی وجہ سے اچھا نہیں

یا رب کسے بتاؤں سنتا نہیں ہے کوئی
تُو ہی تو بس جہاں میں ہے رازدار میرا
------------------ پہلے میں کیا بتایا جانا ہے اس کی بھی وضاحت ضروری لگتی ہے، باقی رزادار اگر درست ہے تو شعر بھی ٹھیک لگتا ہے

دنیا بنی ہے دشمن کوئی نہیں ہے اپنا
کوئی نہیں ہے ایسا ہو یارِ غار میرا
---------------- جو ہو کی معنویت درکار لگتی ہے
الفاظ بدل کر دیکھیں

اپنے لئے جہاں میں یا رب ہے شرمساری
روٹھا ہے وقت مجھ سے تھا پُروقار میرا
----------------- اپنے کی جگہ 'میرے' بہتر لگتا ہے۔ اس میں بھی دوسرے مصرع کے دوسرے ٹکڑے میں گڑبڑ ہے۔ بیان کے اعتبار سے نامکمل ہے دوسرا ٹکڑا

مقروض ہو گیا ہوں دنیا میں اب خدایا
سارا جہان پہلے تھا قرضدار میرا
------------- تھا کی تکرار خاص طور پر دوسرے کے دوسرے ٹکڑوں میں زیادہ ہو گئی ہے۔

اتنا بھی سوچ ارشد کردار تھا جو پہلے
ماضی کبھی نہیں تھا وہ داغدار میرا
------------------ پہلے میں الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے، کردار کے ساتھ اپنا یا میرا کی کمی ہے شاید۔
 
الف عین
عظیم
(اصلاح کے بعد دوبارا)
---------------
جتنا خبیر ہے وہ پروردِگار میرا
کیسے نہ جانتا ہو یہ حالِ زار میرا
---------------------
تیرے کرم سے یا رب وہ پھر سے لوٹ آئے
بھولا کبھی نہ ماضی وہ شاندار میرا
---------------
جا کر کسے سناؤں غم سے بھری کہانی
تُو ہی تو بس جہاں میں ہے غمگسار میرا
------------------
دنیا بنی ہے دشمن کوئی نہیں ہے اپنا
کس کو کہوں میں اپنا ہے یارِ غار میرا
----------------
میرے لئے جہاں میں یا رب ہے شرمساری
کرتا نہیں ہے کوئی بھی اعتبار میرا
----------------
مقروض ہو گیا ہوں دنیا میں اب خدایا
چھینا ہے وقت نے سارا اختیار میرا
-------------
تیرا نہیں ہے کچھ بھی بدلا ہے وقت ارشد
آدھے جہاں پہ ہوتا تھا اقتدار میرا
------------------
 

عظیم

محفلین
جتنا خبیر ہے وہ پروردِگار میرا
کیسے نہ جانتا ہو یہ حالِ زار میرا
--------------------- اب ٹھیک لگتا ہے

تیرے کرم سے یا رب وہ پھر سے لوٹ آئے
بھولا کبھی نہ ماضی وہ شاندار میرا
--------------- مکمل شعر دوبارہ کہنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، پہلے میں 'وہ پھر سے' سے مراد ماضی ہے یہ واضح نہیں لگتا۔ اور دوسرے میں 'وہ' بھرتی کا لگ رہا ہے

جا کر کسے سناؤں غم سے بھری کہانی
تُو ہی تو بس جہاں میں ہے غمگسار میرا
------------------ دوسرا شاید
تو ہی تو اس جہاں میں... بہتر ہو

دنیا بنی ہے دشمن کوئی نہیں ہے اپنا
کس کو کہوں میں اپنا ہے یارِ غار میرا
---------------- یار غار کی نسبت یہاں درست بیٹھتی معلوم نہیں ہو رہی۔ صرف یا سے بھی کام چل سکتا ہے۔

میرے لئے جہاں میں یا رب ہے شرمساری
کرتا نہیں ہے کوئی بھی اعتبار میرا
---------------- بے ربطی لگ رہی ہے۔ یا رب شاید بھرتی کا ہے اس کی بجائے کچھ ایسے لفظ ہوں کہ جن سے دوسرے مصرع کا ساتھ ربط بہتر لگے۔ اور دوسرے میں 'بھی' کی جگہ 'اب' بہتر لگتا ہے

مقروض ہو گیا ہوں دنیا میں اب خدایا
چھینا ہے وقت نے سارا اختیار میرا
------------- دوسرا بحر سے خارج ہے۔ پہلے کا ساتھ ربط بھی سمجھ نہیں آتا

تیرا نہیں ہے کچھ بھی بدلا ہے وقت ارشد
آدھے جہاں پہ ہوتا تھا اقتدار میرا
------------------ تیرا نہیں ہے سے یہ کب ظاہر ہوتا ہے کہ تیرا قصور نہیں ہے؟ اسی کو بیان میں نامکمل ہونا کہتے ہیں!
تیرا قصور کیا ہے، بدلا ہے وقت ارشد
یا اس طرح کا کچھ اور
 
الف عین
عظیم
جتنا خبیر ہے وہ پروردِگار میرا
کیسے نہ جانتا ہو یہ حالِ زار میرا
---------------------
تیرے کرم سے یا رب پھر وہ مجھے عطا ہو
ماضی کبھی تھا کتنا وہ شاندار میرا
---------------
جا کر کسے سناؤں غم سے بھری کہانی
تُو ہی تو اس جہاں میں ہے غمگسار میرا
------------------

دنیا بنی ہے دشمن کوئی نہیں ہے اپنا
کس کو کہوں میں اپنا ہے کون یارِ میرا
----------------
دہشت ہے کام میرا ،دنیا سمجھ رہی ہے
--------یا
دنیا سمجھ رہی ہے دہشت کی ہوں نشانی
کردار ہو گیا ہے یوں داغدار میرا
------------
میرے لئے جہاں میں ایسی ہے شرمساری
کرتا نہیں ہے کوئی اب اعتبار میرا
----------------
کردار کھو چکا ہے مومن ہوں نام کا بس
دھوکہ فریب ہی بس ہے روزگار میرا
----------------
بدلا ہے وقت ارشد ہیں ہاتھ میرے خالی
آدھے جہاں پہ ہوتا تھا اقتدار میرا
-----------------
 

عظیم

محفلین
تیرے کرم سے یا رب پھر وہ مجھے عطا ہو
ماضی کبھی تھا کتنا وہ شاندار میرا
۔۔ 'پھر وہ' کی جگہ 'پھر سے' بہتر لگتا ہے۔ دوسرا میرا خیال ہے کہ۔مکمل ہی بدلا جائے

دنیا بنی ہے دشمن کوئی نہیں ہے اپنا
کس کو کہوں میں اپنا ہے کون یارِ میرا
---------------- اپنا کی تکرار ہو گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ زمین مشکل ہے اس لیے دوسرے مصرع کے دوسرے ٹکڑے میں مشکل ہے کہ بات مکمل بیان ہو جائے
کس کو کہوں میں اب دوست، ہے کون یار میرا
شاید چل جائے

میرے لئے جہاں میں ایسی ہے شرمساری
کرتا نہیں ہے کوئی اب اعتبار میرا
۔۔۔۔ پہلے مصرع میں 'ایای ہے' شرمساری کے ساتھ فٹ نہیں لگ رہا۔ 'اس لیے ہے' کی طرح کے الفاظ ہوں تو بہتر ہو سکتا ہے

کردار کھو چکا ہے مومن ہوں نام کا بس
دھوکہ فریب ہی بس ہے روزگار میرا
۔۔۔۔ صرف کردار سے بات بنتی ہوئی نہیں لگ رہی، اپنا کردار یا کردار کی کوئی وضاحت درکار لگتی ہے

بدلا ہے وقت ارشد ہیں ہاتھ میرے خالی
آدھے جہاں پہ ہوتا تھا اقتدار میرا
----------------- دوسرے میں بات ٹوٹ گئی ہے۔ 'ہوتا' اور 'تھا' ایک ٹکڑے میں ہونے چاہیے تھے۔
 
Top